جب حق آگیا ۔۔۔!

11 فروری 2017

وحدت نیوز (آرٹیکل) ہر سو اندھیرا چھایا ہوا تھا،تاریکی نے روشنیوں کو قید کر لیا تھا،امیدیں دم توڑ چلی تھیں،مایوسیاں راج کر رہی تھیں،ناکامیاں اپنی کامیابیوں پر جشن مناتی تھیں،ظلم اپنے عروج پر تھا،فحاشی کا دور دورہ تھا،عیاشی کا ہر رنگ میسر تھا،طاقت کا گھمنڈ انسانوں کو فرعون بنائے ہوئے تھا،ایک ایسی اسلامی مملکت جس کے پاس تیل کے وسیع ذخائر موجود تھے پر صیہونسٹ قابض ہو چکے تھا،دنیا بھر کی جاسوسی کا مرکز تہران بنا ہوا تھا جہاں امریکہ نے اپنا ایک بہت بڑا سفارت خانہ جسے جاسوسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا قائم کر رکھا تھا، ملک کی بیشتر یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں سمیت اہم ترین منابع غیر ملکیوں کی براہ راست دسترس اور اختیار میں تھے،اس مملکت پر اڑھائی ہزار سال سے شہنشاہی نظام حکومت چل رہا تھا ایسے میں ایک مرد قلندر نے نعرہ مستانہ لگایا او ر اس ملک و عوام کی تقدیر بدلنے کا عزم طاہر کیا ،ان کی آواز میں سچائی تھی،صداقت تھی،وہ پسے ہوئے مظلوم عوام کی امید تھے، ان کا شعار اللہ اکبر تھا،انہوں نے کہا کہ وہ اللہ اکبر کی طاقت سے مسلح ہیں،وہ خدا پر بھروسہ اور توکل کرنے والے تھے،وہ اپنے عزم اور ارادہ کی سچائی پر پختہ یقین رکھتے ہوئے اس کے حصول کیلئے تمام رکاوٹوں سے ٹکرانے کی طاقت رکھتے تھے،ان میں قوت فیصلہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،وہ روحانی و معنوی مقامات سے منزہ و لیس تھے،انہیں اپنی منزل کے حصول کا مکمل یقین تھا اور وہ ہر قسم کی قربانی اور ایثار کیلئے ہمہ وقت تیار تھے،انہیں دنیا کی کسی طاقت کا ذرا سا بھی خوف نہ تھا۔۔۔۔۔لہذا جب انہوں نے ساٹھ کے عشرے کے آغاز میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو تمام خطرات اور مشکلات کو جھیلتے ہوئے ہر دن اپنی منزل کے قریب ہوتے گئے ،یہاں تک کہ 11فروری1979ء کا سورج وہ پیغام لیکر طلوع ہوا جس کیلئے ہزاروں افراد قربان ہو گئے تھے اور جس کے بارے اڑھائی ہزار سال سے قابض شاہی خاندان اور اس کے سرپرستوں نے سوچا بھی نہیں تھا،مگر اس دن سے پہلے ہی شاہ فرار ہو چکا تھا ،اور اسلامی انقلاب کانقارہ بج چکا تھا،امام خمینی جو اس انقلاب کے بانی تھے جب جلا وطنی ختم کر کے پیرس سے وطن لوٹے تو سب سے پہلے اس مقام پر گئے جہاں اس انقلاب کے ایثار گر اور قربانیاںپیش کرنے والے محو آرام تھے ،اس جگہ کو دنیا بہشت زہرا تہران کے نام سے پہچانتی ہے جہاں لاکھوں سپاہیان اسلام و فرزندان قرآن اسلامی انقلاب کے قیام،اس کی بقا اور مقدس دفاع کی جدوجہد میں سرخرو ہونے والے دفن ہیں ۔

11فروری1979ء کو آنے والے انقلاب کو امام خمینی نے انفجار نور کہا تھا،یہ واقعی نور کا دھماکہ تھا،اس سے ہزاروں سال سے قائم تاریکی اور اندھیروں کا راج ختم ہو گیا تھا،مایوسیاں امیدوں اور خوابوں کی عملی تعبیر میں بدلتی نظر آ رہی تھیں،غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر دور جا گریں تھیں،آزادی کے گیت اور نغمے پھر سے فضائوں کو معطر کیئے ہوئے تھے،خزاں کا موسم، بہار چلے آنے پر راہ فرار اختیار کر گیا تھا،انقلاب کی جدوجہد میں ہر عمر اور طبقہ فکر و حیات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا حصہ ڈالا،اپنا کردار ادا کیا،دنیا بھر میں اس انقلاب نے سوچوں کے زاویئے ہی بدل دیئے تھے،سیاست کے نئے رخ سامنے آ گئے تھے ،نہ صرف اسلامی ممالک اور تحریکیں ایک کامیاب مثال اور راستے کو پا چکے تھے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم اور ستم رسیدہ ،پسے ہوئے انسانوں کو بھی ایک امید ہو چلی تھی کہ طاقتوروں کو زیر کیا جا سکتا ہے،اسلامی انقلاب ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے موجود تھا،اس سے قبل انقلاب فرانس اور انقلاب روس کی مثالیں دی جاتی تھیں مگر ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب نے کامیابی کی نئی روشیں اور انسانوں کی فلاح و بہبود اور حکومت کا نظریہ ء اسلامی متعارف کروایا تھا، بانی انقلاب ہر قسم کے تعصبات سے ہٹ کر اور سرحدوں کی قید سے آزاد ہو کر اسلام کا آفاقی اور الٰہی پیغام دنیا کو دے رہے تھے کہ اسی میں ان کی آزادی و استقلال کا راستہ موجود تھا، انہوں نے تمام مظلوم اقوام کو دعوت دی کہ وہ ستم گروں اورظالموں کے ہاتھ سے اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لے لیںاور اس بات کی اجازت نہ دیں کہ کوئی ان پر مسلط ہو جائے ۔
    
امام خمینی کے پیغام سے سب سے زیادہ خوف ایران کے پڑوس میں واقع ان عرب حکمرانوں کو ہوا جو عوام کو بادشاہت کے جبر تلے کئی برسوں سے روند رہے تھے اور ان کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈالے بیٹھے تھے،ان عرب حکمرانوں کے سرپرستوں نے بھی محسوس کیا کہ اگر تبدیلی کی یہ لہر خطے کے دیگر عرب ممالک میں بھی پہنچ گئی تو ان کے مفادات جو پہلے ہی اس انقلاب کے بعد سخت خطرے سے دوچار ہو گئے تھے کا حصول ناممکن ہو جائے گا لہذا ہم نے دیکھا کہ اسلامی انقلاب کی راہ میں پہلے دن سے ہی مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے ،نوزائیدہ اسلامی انقلاب کو اندرونی سازشوں سے ختم کرنے کی کوششیں سامنے آئیں جن کو بڑی حکمت و دانائی سے ناکام بنایا گیا اور ان سازشوں کو اس کے کرداروں سمیت دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا ہونا پڑا،انہی سازشوں کے توڑ میں ہی امریکی سفارت خانہ پر قبضہ اور اس کے اندر واقع جاسوسی مرکز اور اس سے وابستہ سی آئی اے کے اہلکاروں کو ایرانی طلباء کے ہاتھوں یرغمال بنایا جانا ایک ناقابل فراموش ،تاریخی کارنامہ ہے جس سے کئی اور واقعات جڑے ہوئے ہیں۔
    
ایران کے اسلامی انقلاب پر پہلے دن سے ہی اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں ،اس کے اثاثے منجمد کر لیئے گئے(یہ اثاثے اب اڑتیس سال گذر جانے کے بعد مزاکرات کے بعد قسط وار دینے کا وعدہ کیا گیا ہے) اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس انقلاب کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے اس کے بانیان،علما ء ،اسکالرز،اس کے اصل دماغوں اور اعلیٰ حکومتی انقلابی شخصیات کو ٹارگٹ کر کے شہید کر نے کا سلسلہ چلایا گیا،جب اس سے کام نہ چلا تو ایران کے ہمسائے میں اپنے ایک مہرے صدام کے ذریعے ایران پر جنگ مسلط کر دی گئی ،آٹھ سال تک اس مسلط کردہ جنگ میں ایک نوزائیدہ مملکت اسلامی کے مقابل ساٹھ کے قریب ممالک نے عراق کا ساتھ دیا ،اور بھرپور مالی و فوجی مدد کی تاکہ انقلاب کا خاتمہ ہو جائے،بیرونی حملہ آوروں کے سات ساتھ ایک گروہ ایسا بھی پیدا کیا گیا جس کے ذریعے داخلی انتشار و تخریب کا کام لیا گیا اور مشکلات کھڑی کی گئیں تاکہ لوگ بیزار ہو جائیں اور حکومت اسلامی کا تختہ الٹ دیں مگر دنیا نے دیکھا کہ تمام سازشیں ناکام ہوئیں ، مسلط کردہ جنگ سے بھی وہ مقاصد حاصل نہ کیئے جا سکے اور پابندیوں نے بھی اسلامی ایران کو نہ جھکایابلکہ ایران اپنے بنیادی نعرے آزادی،استقلال، جمہوری اسلامی پر 38 سال سے ڈٹا ہوا ہے ،جنگ اور آفات کے زمانے میں بھی اس مملکت نے انتخابات کو ایک دن کیلئے بھی ملتوی نہیں کیا جوعوام کے جمہوری حقوق دینے کے وعدے کا پاس اور روشن مثال ہے۔حالیہ دنوں میں جب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سمیت کچھ اسلامی ممالک کے شہریوں پر امریکہ آنے پہ پابندی لگائی ہے تو ایران کے سوا کسی ملک کو جرا ت نہیں ہوئی ہوئی کہ عالمی بدمعاش کو اسی کی زبان میں جواب دے،ایران نے بھی جواب پابندیاں لگا کے اپنی غیرت اور آزادی کاثبوت دیا ہے۔
    
امام خمینی کی رہبری و سیادت میں لایا ہوا اسلامی انقلاب آج جب اپنے 38 سالہ سفر کو طے کر چکا ہے اور اس مملکت اسلامی کی عوام نے اس کی اڑتیس بہاریں دیکھ لی ہیں تو ایران آج ایک ایسی طاقت کے طور پر نظر آتا ہے جس کو خطے کی سیاست سے نکالنا یا نظر انداز کرنا خطے کے مسائل میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے،اسی طرح ایران آج دنیا کی سیاست پر بھی اپنا بھرپور اثر رکھتا ہے ،ایران کی طرف سے کیئے گئے اعلان کئی اہم ممالک کی اکانومی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ انقلاب کی جن لہروں کو دنیا نے بہار کے جھونکوں کی مانند محسوس کیا تھا اسی کی بدولت مشرق و مغرب سے آزادی کی تحریکوں کو کامیابیاں ملیں اور آمریتوں سے چھٹکارا ملا،یہ الگ بات ہے کہ بعض ممالک کی قیادتوں نے اپنے ہاتھوں ہی ان کامیابیوں کو ناکامیوں سے دوچار کر لیا ہے۔
    
اس انقلاب کی سب سے اہم بات اس کا نظریہ ہے جس کی وجہ سے اسے تمام تر مشکلات،مصائب،آفات،سازشوں،جنگوں،تخریبی کاروائیوں،اپنوں اور پرایوں کی بے رخیوں،الزامات اور مسائل کے انبوہ کے مقابل ہر لمحہ کامیابیاں ملیں،وہ نظریہ بے شک ولایت فقیہ کا الٰہی نظریہ ہے یہی نظریہ حزب اللہ کو اسرائیل جیسے بدمعاش ملک کے مقابل کامیابیاںسمیٹنے کا جذبہ فراہم کرتا ہے،یہی نظریہ 38 سال تک پابندیوں کے شکار ملک کو ایک ترقی یافتہ،اعلیٰ ٹیکنالوجی سے آراستہ مملکت بنا تاہے، یہی نظریہ ایک قوم کو دنیا کے سامنے سرخرو اور آزادی سے جینے کے گر سکھلاتا ہے اور اسی نظریہ پر قائم ہی اپنے ملک،وطن اور دین کے دفاع کیلئے لاکھوں لوگ خود کو پیش کر دیتے ہیںاور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔انقلاب کے چاہنے والوں اور بہی خواہوں کو اس نظریہ کی تقویت اور مضبوطی کیلئے کام کرنا چاہیئے تاکہ اسلامی انقلاب کی خوشبو ہر سو معاشرہ کو معطر کر ے۔
    
اسلامی انقلاب کی اڑتیسویں صبح بہار کی مبارکباد کے اصل مستحق وہ خانوادگان اور سرفروش ہیں جنہوں نے اس الٰہی پیغام جسے انہوں نے امام خمینی رح کی زبانی سنا اور لبیک کہتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں قربانی کے ان مٹ نمونے پیش کرنے والی مائیں جنہوں نے اپنے تین تین بچوں کو انتہائی خندہ پیشانی سے قربان گاہ میں بھیجا۔خدا وند کریم سے دعا ہے کہ اس انقلاب کو حضرت حجت ؑ کے انقلاب سے متصل فرمائے(آمین)    


تحریر۔۔۔۔ارشاد حسین ناصر
                             



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree