وحدت نیوز(آرٹیکل) شام میں جاری حالیہ جنگ درحقیقت دو بڑے منصوبوں کے مابین جنگ ہے
* ایک طرف اسرائیلی منصوبہ اور دوسری طرف ترکی و اخوانی منصوبہ۔
# اسرائیلی منصوبہ کیا ہے ؟
* اسرائیلی منصوبہ یہ ہے کہ شام کو اور خطے کے ممالک کو چھوٹے چھوٹے اور کمزور ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ شام کے کچھ علاقوں پر کردوں کی حکومت ہو اور کچھ علاقوں پر علویوں کی حکومت ہو اور کچھ علاقوں پر درزیوں کی حکومت ہو ۔ اور کچھ علاقوں پر سنی حکومت ہو۔
* اور ان تمام چھوٹی چھوٹی حکومتوں کی پناہ گاہ اسرائیل ہو۔ اور کوئی اسرائیل کے سامنے سر بھی نہ اٹھا سکے ۔ سب بے بس ، ذلیل اور تسلیم شدہ ہوں۔
# ترکی کا منصوبہ کیا ہے ؟
* خطے کے تمام تر علاقے جو کبھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ رجب طیب اردغان اور انکے اتحادی تکفیری مسلح گروہوں کا منصوبہ ، ان سب علاقوں کو ترکی کے زیر تسلط لانا۔ اور تمام دینی و مذہبی اقلیات کا قلع قمع کرنا ۔ انہیں جینے اور زندگی گزارنے کے حق سے محروم کرنا۔ انہیں عبید اور غلام بنا کر رکھنا ۔ انکی تحقیر و تذلیل کرنا۔ انہیں قتل وغارت کے ذریعے اور یا ہجرت پر مجبور کر کے انہیں ختم کر دینا۔
* اس کا عملی نمونہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام پر حاکم موجودہ حکمرانوں کا رویہ ہے۔ علوی علاقوں کو پہلے نہتہ کیا گیا۔ اور عوام کو تکفیری دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ پھر وہاں پر قتل وغارت شروع کی گئی ۔ عزتیں لوٹیں اور لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔ بچے بوڑھوں اور خواتین کو معاف نہیں کیا۔ ماؤں کے سامنے انکے بچوں کو ذبح کیا ۔ جس علاقے میں حکومت کے حمایت یافتہ یا کارندے جاتے وہاں سب جوانوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرتے۔ پھر انکے کپڑے اتار کر ان پر طرح طرح کا تشدد کرتے ۔ انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے تمام حربے آزماتے ، کتوں گدھوں ودیگر حیوانات کی بولیاں بلواتے ۔ ننگی گالیاں دیتے اور انکے دن ومذھب پر سب وشتم کرتے۔ پھر آخر میں کچھ نوجوان اور خواتین کو گرفتار کر کے لے جاتے ، اور کچھ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے۔ اور ایسے واقعات علویوں اور عیسائیوں اور بعض شیعہ نشین علاقوں میں گذشتہ چند ماہ سے مسلسل ہو رہے ہیں۔ جیلیں علوی و شیعہ و عیدائی مذھب کے لوگوں سے بھر چکی ہیں ۔ فقط شیعہ علماء نہیں انکی فکر کے مخالف سنی علماء کو بھی قتل کیا گیا ہے ۔ ہزاروں پروفیسرز سائنسدان وڈاکٹر و افیسرز قتل ہو چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں شیعہ وعلوی و عیسائی ھجرت کر چکے ہیں۔وہ ھمسائیہ ممالک یا پھر دنیا بھر میں جہاں جا سکتے تھے وہاں کی طرف ھجرت کر چکے ہیں۔
* خطے کے تمام تر علاقے جو کبھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ رجب طیب اردغان اور انکے اتحادی تکفیری مسلح گروہوں کا منصوبہ ، ان سب علاقوں کو ترکی کے زیر تسلط لانا۔ اور تمام دینی و مذہبی اقلیات کا قلع قمع کرنا ۔ انہیں جینے اور زندگی گزارنے کے حق سے محروم کرنا۔ انہیں عبید اور غلام بنا کر رکھنا ۔ انکی تحقیر و تذلیل کرنا۔ انہیں قتل وغارت کے ذریعے اور یا ہجرت پر مجبور کر کے انہیں ختم کر دینا۔
* اس کا عملی نمونہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام پر حاکم موجودہ حکمرانوں کا رویہ ہے۔ علوی علاقوں کو پہلے نہتہ کیا گیا۔ اور عوام کو تکفیری دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ پھر وہاں پر قتل وغارت شروع کی گئی ۔ عزتیں لوٹیں اور لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔ بچے بوڑھوں اور خواتین کو معاف نہیں کیا۔ ماؤں کے سامنے انکے بچوں کو ذبح کیا ۔ جس علاقے میں حکومت کے حمایت یافتہ یا کارندے جاتے وہاں سب جوانوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرتے۔ پھر انکے کپڑے اتار کر ان پر طرح طرح کا تشدد کرتے ۔ انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے تمام حربے آزماتے ، کتوں گدھوں ودیگر حیوانات کی بولیاں بلواتے ۔ ننگی گالیاں دیتے اور انکے دن ومذھب پر سب وشتم کرتے۔ پھر آخر میں کچھ نوجوان اور خواتین کو گرفتار کر کے لے جاتے ، اور کچھ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیتے۔ اور ایسے واقعات علویوں اور عیسائیوں اور بعض شیعہ نشین علاقوں میں گذشتہ چند ماہ سے مسلسل ہو رہے ہیں۔ جیلیں علوی و شیعہ و عیدائی مذھب کے لوگوں سے بھر چکی ہیں ۔ فقط شیعہ علماء نہیں انکی فکر کے مخالف سنی علماء کو بھی قتل کیا گیا ہے ۔ ہزاروں پروفیسرز سائنسدان وڈاکٹر و افیسرز قتل ہو چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں شیعہ وعلوی و عیسائی ھجرت کر چکے ہیں۔وہ ھمسائیہ ممالک یا پھر دنیا بھر میں جہاں جا سکتے تھے وہاں کی طرف ھجرت کر چکے ہیں۔
سے سویداء کی طرف جا رہی تھیں ان پر بھی شدید اسرائیلی حملے ہوئے۔ آخر کا جولانی حکومت نے پسپائی اختیار کی۔ اور اپنی فورسسز کی واپسی کا اعلان کیا ۔