پاکستان میں دہشت گردی۔۔۔مجرم کون؟؟

03 فروری 2016

وحدت نیوز(آرٹیکل)جب سے طالبان اور تکفیری سوچ کے حامل افراد نے پاکستان میں قدم جمایا تب سے آج تک وطن عزیز آئے روز معصوم شہریوں اور بچوں کی خون سے غلطاں ہیں۔ ان انسانیت دشمن عناصر سے پاکستان کا کوئی بھی ادارہ محفوظ نہیں رہا، جی ایچ کیو ہو یا سانحہ پشاور ان تکفیری دہشت گردوں نے فوج سے لیکر بچوں تک کو زبح کر دیا۔ پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے پشاور اسکول سانحہ کے بعد ان دہشت گردوں کے خلاف مکمل آپریشن شروع کی، ستم زریفی دیکھیں سانہ پشاور کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا اس اسے پہلے بھی گلگت بلتستان سے لیکر کراچی اور کوئٹہ سے لے کر پاراچنار تک روزانہ کی بنیاد پر محب وطن پاکستانیوں کو تارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا کہی بم دھمکہ تو کہی بسوں سے اتار کر ان کو زبح کیا گیا مگر اس وقت پاکستان کے سیاسی،سماجی اور حکومتی تمام ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے کسی کو کوئی خبر نہیں تھی اور جب ہم دھشت گردوں کے خلاف آواز اٹھا تے  اور  دہشت گردوں کے عزائم کو احتجاج اور مظاہروں کے زریعہ اعلی احکام تک پہنچانے کی کوشش کرتے تو ہمیں خاموش کرا دیا جاتا تھا اور عوام کے سامنے گوڈ اور بیڈ کے ساتھ دہشت گردوں کو پیش کیا جاتا رہا۔ غرض اب ان واقعات کا تزکرہ نہیں کرنا چاہتا لہذا جب پشاور آرمی پبلیک اسکول کا سانحہ پیش آیا تو عوام کی آنکھیں کھول گئ عوام کو حقیقت کا اندازہ ہوا کی ان دہشت گردوں میں کوئی اچھا اور برا نہیں ہوتا نہ ہی ان کا کوئی مذہب ہے ۔ ان کا دین،مذہب اور نظریہ صرف یہ یے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو اسلام کا چئمپین تصور کرتے ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا نظریہ حق ہے اور باقی سب باطل۔ عام لوگوں اور معصوم بچوں کو زبح کرنا یہ لوگ عین عبادت سمجھتے ہیں، اسلام کے اصولوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا، حلال محمدی کو حرام اور حرام محمدی کو حلال تصور کرنا ان کا اصل ہدف ہے، ان کا نظریہ ظلم و بربریت اور فسق و فجور پر مبنی ہے، ان کے نظریہ کا جو بھی مخالف  ہوتا ہے اس کے خلاف واجب القتل کے فتوی سادر کیا جاتا ہیں۔
 
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے مظبوط ملک میں جس کی برری، بحری اور فضائی طاقت میں اپنے مثال آپ ہیں اور پاکستان کی سیکورٹی ادارے دنیا بھر میں مشہور ہے پھر بھی طالبان،القاعدہ اور اب داعش جیسے تکفیری دہشت گردوں کا گڑھ کیوں بنا ہوا ہے؟؟

ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہمارے ارادے مضبوط اور داعش جیسے دہشت گردوں کو پاکستان میں پہنپنے نہیں دینگے کے دعوی، داعش کے وجود سے انکار، تو دوسری طرف داعش کے منظم گروہ کی گرفتاریاں اور ملک کے مختلف حصوں سے شام میں داعش کے حمایت میں سینکڑوں مرد خواتین کے جانے کا انکشاف۔۔آخر ابو بکر بگدادی خود تو پاکستان آکر یہ سب کرنے سے رہا۔ تو یقینا پاکستان میں داعش کے حامی موجود ہیں جو نہ صرف سویلین  بلکہ تعلیمی اداروں سے لیکر پاکستان کے مختلف اداروں میں موجود ہے جو ان کی پشت پناہئ اور سر پرستی کر تے ہیں۔ لہذا بیان بازیوں سے اگے نکل کر میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے اور سب سے پہلے پہاڑوں پر بمباری کے بجائے شہروں کے بیچ موجود ان دہشت گردوں کے اصل مراکز اور سہولت کاروں اور ان کے نظریہ کے حامی افراد کے خلاف آپریشن کرنا ہوگا خصوصا ان لوگوں کے خلاف جن کے خطبوں سے وطن عزیز کے دارلخلافہ میں سیگنلز بند کر دیے جاتے ہیں۔ اور ایک امرجنسی کی کیفیت ہوتی ہیں۔

وطن عزیز پاکستان میں دہشت گردی پیھلانے اور دہشت گردوں کے اثرروسوخ کو بڑھانے میں ایک اہم وجہ مختلف حکومتی محکموں اور سویلین میں موجود وطن عزیز اور اسلام کے غداروں اور مجرموں کی ہیں جو جانے یا انجانے میں ان دہشت گردوں کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔

پہلا مجرم تو وہ لوگ ہیں جو ان تکفیری نظریہ کے حامل  ہیں اور ان کے آلہ کار ہیں۔

دوسرا مجرم وہ لوگ ہیں جو مال و دنیا کے حواس میں ان دہشت گروں کے لئے راہ فراہم کرتے ہیں۔

تیسرا طبقہ ان علماء کا ہے جن کو پتہ ہونے کے باوجود ان اسلام دشمنوں کے خلاف اپنے لب نہیں کھولتے بلکہ مظلومین کی حمایت بھی نہیں کرتے،اور تبلیغ اور دوسرے ناموں سے مسلمانوں کو بے وقوف بنا رہا ہوتا ہے۔

چوتھا مجرم وہ سیاسی اور دیگر ذمہ داران ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر ان کے خلاف لب کشائی کرنے سے گریز کرتے ہیں

پانچواں مجرم وہ عام عوام اور نوجوان طبقہ ہے جو کھبی حق و باطل کی سچائی اور حقیقت کی تلاش نہیں کرتے بلکہ بھیڑ بکریوں کی طرح جس طرف ہنکا جائے اسی جانب چل پڑتے ہیں۔

اور سب سے بڑا مجرم خود ریاست کے ٹھیکیدار ہیں جس میں سیاسی اور سیکورٹی زمہ داران شامل ہیں جن کا کام وطن عزیز کی حفاظت اور عوام کی جان مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہیں یہ افراد دو طرح سے مجرم ہیں۔

1۔ اگر یہ لوگ عوام کی جان و مال کی تحفوظ میں ناکام ہوئے ہیں تو یہ عوام کے سامنے مجرم ہیں کیونکہ عوام کے ٹیکس کی پیسوں سے ان کی تنخواہیں بنتی ہے اور عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آتے ہیں ۔پھر بھی یہ لوگ عوام کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتے اور مجرموں کو نہیں پکڑ سکتے تو ان کو چاہیے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوں اور قابل لائق اور اچھے محب وطن شہریوں کو آگے آنے کا موقع فراہم کریں۔

2۔ اگر ان زمہ داران کو مجرموں کا اور ان کے سہولت کاروں کا پتہ ہیں لیکن پھر بھی وہ ان کو قانون کے شکنجے تک لانے میں ناکام ہیں یا کوئی سیاسی یا دیگر وجوہات کی بنا پر مجرموں پر ہلکا ہاتھ رکھتے ہیں تب بھی یہ لوگ مجرم ہیں کیونکہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر ان کے خلاف کسی بھی رنگ،نسل اور مذہب سے بالا تر ہو کر سخت  کاروائی کریں۔

لہزا جب تک ہم سب اپنے اپنے فرائض احسن طریقہ اسے انجام نہیں دینگے اور قوم و ملت اور وطن کے ساتھ مخلص نہیں ہونگیں ہم اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکتے اور اگر ہم نے غفلت کی تو ان وطن عزیز کی دفاع اور بے گناہ شہید ہونے والوں کا خون ہم سب کے گردن پر ہیں۔ اور دینا آخرت دونوں میں ہم سے ہماری ذمہداری کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو ہم کیا جواب دینگے زرا سوچیے؟؟؟؟

 

 

تحریر۔۔۔۔ناصررنگچن



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree