سانحہ منیٰ اور علامہ غلام محمد فخرالدین

10 اکتوبر 2015

وحدت نیوز (آرٹیکل) تمام چشمہ دید گواہوں اور پوری تحقیق کے بعدمذدلفہ سے لوگ طلوعِ فجر کے وقت منیٰ کے لئے روانہ ہوتے ہیں تاکہ جلد ازجلدرمی سے فارغ ہو کرقربانی کر سکیں۔اس دفعہ بھی ایسا ہوا اورجو لوگ قربان گاہ کو جانا چاہتے ہیں وہ لوگ کچھ پہلے ہی گروپ سے نکل جاتے ہیں تاکہ گروپ سے فارغ ہو تو فوری طور پر قربانی کر سکیں۔مذدلفہ سے منیٰ کے لئے کئی راستے ہیں جن میں سب سے مشہور طریق جوہرہ اور طریق سوق العرب سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اس روڈ پر حکومتی انتظامات بھی بہتر ہوتے ہیں جو ہر قدم پر حجاج کو آگے جانے کا کہ رہے ہوتے ہیں اور کھڑے ہونے نہیں دیتے۔اس کے علاوہ بھی کچھ راستے ہیں جن سے بھی لوگ گزرتے ہیں،جن میں روڈ نمبر68 طریق ملک فہد اس راستے کا نام ہے جس پر سانحہ رونما ہوا ۔حاجیوں کے کارواں سالار وں کے اور گروپ لیڈرز کے مطابق اس روڈ پر تمام ممالک کے لوگ تھے اور انھوں نے اس راستے کا جایزہ لیاتو ایک حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ اس روڈ پر حکومتی انتظامات دوسرے روڈ کی نسبت کم تھے اور یہ راستہ تھوڑا تنگ بھی تھا اور جس دن یہ سانحہ ہوا منیٰ کے جمرات والے حصہ کے قریب کنٹینرلگا کر روڈ کو مذید تنگ کیا گیا تھا۔جو لوگ حج پر جاچکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لوگ کس قدر بے صبری سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی ددران علامہ فخرالدین جن کا تعلق بلتستان سے ہے مشہور پی ایچ ڈی عالمِ دین و عالمِ باعمل ہے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس راستے پر چل نکلے یہ لوگ طریق سوق العرب روڈنمبر68 پر چلے گئے جس کی ایک وجہ دوسرے چند ایک ممالک کے حجاج بھی تھے۔آہستہ آہستہ جب یہ لوگ جمرات کی طرف جارہے تھے تو پلِ خالد کے قریب اچانک انہیں محسوس ہوا جیسے راستہ تنگ ہو رہا ہے اور لوگ آگے کی طرف نہیں جارہے بلکہ رک گئے ہیں۔عام طور پر ایسا بھی ہوتا ہے تھوڑی ہی دیر میں راستہ کھل جاتا ہے اور لوگ پھر چل پڑتے ہیں۔مگر اس دن پولیس اور انتظامیہ وی آئی پی روڈ کو کلیرکرنے میں مصروف تھی ان کے گمان میں نہیں تھا کہ پیچھے کیا سانحہ ہونے والا ہے اچانک دوستوں نے قبلہ سے کہا یہاں سے کسی دوسرے راستے پر ہو جائیں حالات خراب لگ رہے ہیں۔مگر اس شوروغوغا میں قبلہ نے شاید بات کو نہیں سنا وہ جھنڈا ہاتھ میں لیئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے مگر اچانک حالات یکسر بدل گئے ،سامنے سے سپینگال اور نائیجیریا کے افریقی حجاج ایک دم واپس آنے لگے جس نے حالات کو مخدوش کر دیا تھوڑی ہی دیر میں ہجوم ایک دوسرے پر گر رہے تھے اور پیچھے سے عوام کا سیلاب آگے بڑھتا جارہا تھا۔گروپ لیڈرز اور کاروان سالار کے مطابق اس روڈ پر کم ازکم آٹھ سے نو لاکھ افراد چل رہے تھے ،جیسے ہی رفتار بڑھا قبلہ نے نکلنے کی کوشش کی مگر تب تک بہت زیادہ دیر ہو چکی تھی چاروں طرف سے رفتار بڑھا اور لوگ اس طرح ایک دوسرے میں پھنس چکے تھے کہ نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔جولوگ اطراف میں تھے وہ کسی نہ کسی طرح خیموں کے جنگلوں کو توڑ کریا پھلانگ کر اندر جانے کی کوشش کر رہے تھے پھر موت نے اپنابھیانک کھیل شروع کردیا۔ادھر عرب کے تخت نشیں لوگ وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ گاڑھیوں میں بیٹھ کر شیطان کو کنکریاں مارکر چلے گئے تو دوسری طرف مہمان حجاج موت اور زندگی کے کشمکش میں مبتلا رہے۔ہمارے ایک چشم دید دوست کاروان سالار حاجی نے کہا کہ کم ازکم آدھے کلومیٹر پر یہ سارا واقعہ رونما ہوا اور لوگ ایک دوسرے کوروندتے ہوے تہ در تہ گر رہے تھے اوپر سے گرمی بھی اپنے انتہا کو چھو رہی تھی۔

 

علامہ فخرالدین اس سانحے میں بلکل وسط کے قریب تھے جہاں سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔لوگ پھر ایک دوسرے کو روند کر آگے بڑھے۔پولیس نے افراتفری میں کچھ لاشوں کو اٹھایا مگر فوری امداد نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے بھی زیادہ اموات ہوئیں لوگ بہت ذیادہ تعداد میں کچلے گئے تھے اس لئے جو زخمی تھے انھیں ہسپتالوں میں منتقل کیا جانے لگا اور لاشوں کو کنٹینرز میں بھر کر مردہ خانے بھیجا جانے لگا۔اور جو حاجی بچ سکتے تھے انھیں بھی بلڈوزروں کے ذریعہ اٹھا کر کنٹینروں میں پھینک کر موت کی نیند سلادی یہاں انسانیت کی توہین ہوتا رہا مہمانوں کے ساتھ خوب مہمان نوازی ہوتی رہی۔سب سے بڑا مردہ خانہ معیصم جمال طوری کے نام سے ہے جو مذدلفہ کے قریب ہے ۔خیر شام تک یہ خبر پھیل چکی تھی کی علامہ فخرالدین صاحب لاپتہ ہیں۔کاروان سالاروں کے مطابق12 ذی الحجہ کو جب منیٰ کے اعمال سے فارغ ہوئے تو سب سے پہلے پاکستان ہاوس کا رخ کیا جہاں پرجوائنٹ سیکٹری جمیل صاحب سے ملاقات ہوئی اور ٖفخرالدین صاحب کا نام کسی نے بھی گمشدہ افراد کے لسٹ میں نہیں لکھوایا تھا خیر ان کا نام بھی لکھوایا اور پھر شہیدوں کی تصاویر لیپ ٹاپ پر دیکھایا گیا جن میں قبلہ کی تصویر نہیں تھی دیگر افراد بھی وہاں موجود تھے جن میں ایک خاتون بھی تھیں مگر پاکستانی عملہ سے خوب بحث و مباحثہ کے بعد 16یا17افراد پر مشتمل وفد تیار کیا اور مختلف گاڑیوں میں سوار ہو کر پاکستانی عملہ کے دو فرد کے ساتھ مردہ خانہ کا دورہ کیا وہاں پر دو بڑے حال فل تصاویر شہدا کے انتہائی دردناک تھیں تمام لاشیں جلی ہوئی تھیں جس پر سب حیران تھے شاید دھوپ کی شدت یا فریج کی وجہ سے مگر بہت خستہ حال لاشیں تھیں،بہت سے ناقابلِ شناخت تھے۔کچھ لاشوں کی پہچان ہوئیں اور لوگ روتے ہوئے اپنے عزیزوں کی لاشوں کو وصول کرنے لگے۔یہ ایک پوری وفد کافی تلاش کے بعد وہاں سے سیدھا مستنفی النور کا دورہ کیا جو کہ بہت بڑا ہسپتال ہے وہاں جاکر بھی کافی تلاش کیا۔ایل سی ڈی پر زخمیوں اور شہیدوں کی تصاویر دکھائی گئیں مگر ان میں بھی قبلہ نہیں تھے،اس کے بعدملک عبدالعزیز گئے وہاں بھی نہیں ملے پھر اسی طرح دن گزرنے لگے طائف،جدہ،مکہ سب ہسپتالوں میں دیکھا گیا مگر قبلہ کی کوئی خبر نہیں تھی۔ایک دفعہ پھر مردہ خانہ کا دورہ کیا جس میں حسین ولد نقی کی لاش برآمد ہوگئی اس شہید کے گلے میں نیلا لاکٹ تھا جس پر اس کا نام لکھا گیا تھا وہ تصویر میں نظر آرہا تھااور اس شہید نے قبلہ فخرالدین کا سامان اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور قبلہ کے بلکل ساتھ تھا۔حجاج کے مطابق بلتستان کے تمام حجاج وہاں جمع تھے خود ان کے ہمسر کے بھائی بھی وہاں موجود تھے وہ بھی اس بات کو مان گئے تھے کہ اب ان کا ملنا مشکل ہے۔کیونکہ جس طرح لاشوں کو کنٹینرز میں بھر کر سعودیہ کے مختلف شہروں میں بھیجا گیا اور کافی لاشوں کو مجھول الہویہ یعنی ناقابل شناخت یا جن کہ شناخت نہیں ہے کہ کر دفن کر دیا گیا تھا۔حجاج ساتھیوں کے مطابق قبلہ سے لوگوں نے کہا بھی تھا کہ گلے کا کارڈ پہن رکھیں مگر انھوں نے یہ کہ کر ٹال دیا کہ ضرورت نہیں ہے۔اس وفد نے تمام شواہد کو دیکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یکم محرم تک انتظار کیا جائے شاید خدا کوئی معجزہ دکھا دے۔اگر ایسا نہ ہوا تو اس غمزدہ خاندان کو اور پسماندگان کو یکم محرم کے چاند کے ساتھ ہی صبر کی تلقین کریں اور اس درد کو بیان کر دیں شاید ثانیِ زہراؑ کے غم کو اور اپنے بھائی کے فراغ میں ان کے گریہ اور درد کو محسوس کرتے ہوئے یہ دکھی خاندان اور ملت صبر کرسکے۔۔۔

 

خصوصی رپورٹ۔تحریر۔۔۔محمد سعید اکبری

 



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree