وزارت خارجہ و وزارت داخلہ ۔۔۔عروج و زوال

16 جنوری 2017

وحدت نیوز (آرٹیکل) زوال کسی کا مقدر نہیں، لیکن زوال ہر کسی کو آسکتا ہے، کوئی بھی  شخص یا ادارہ جب حالات اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پلاننگ میں ضروری تبدیلیاں نہیں لاتا تو زوال اس کا مقدر بن جاتاہے۔ اسی ہفتے کی بات ہے،افغان پارلیمنٹ کے سامنے خود کش حملہ ہوا، حملے میں ۴۰ کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوئے،مرنے والوں میں فغانستان کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے مقامی سربراہ بھی شام تھے۔  ذرائع ابلاغ نے  اس دھماکے کو کابل میں ہونے والے  بدترین دھماکوں میں سے ایک قرار دیا۔  دھماکے کی زمہ داری طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بخوشی قبول کرلی، اگلے روز  دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اپنے بیان میں کہا کہ  بھارت افغانستان کی سیکیورٹی صورت حال کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، اس کے  بعد اگلے روز ہی  افغانستان میں پاکستان ایمبیسی کے سامنے افغانیوں نے مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے پاکستان اور پاکستان آرمی  کے خلاف نعرے بازی کی،جس کے بعد مظاہرین  نےایمبیسی میں گھس کر توڑ پھوڑ بھی کی۔

اس واقعے سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں بھارتی سفارتکاری کامیابی کی طرف جارہی ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی سفارتکاری روبہ زوال ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی روز اول سے ہی بڑی طاقتوں کے دباو کی شکار ہے۔بڑی طاقتیں ہماری خارجہ پالیسی سے اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں اور پھر کنارہ کش ہوجاتی ہیں۔ طالبان کے مسئلے میں بھی ہمارےساتھ ایسا ہی ہوا۔ ہم نے امریکی پلاننگ کے تحت دینی مدارس میں طالبان کی فصل بوئی ،امریکہ نے اس سے فائدہ اٹھایا اور پھر طالبان کو دہشت گرد کہہ کر الگ ہوگیا۔ اب طالبان کے وجود کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔

افغانی عوام جہاں ہمیں طالبان کا سرپرست سمجھتے ہیں وہیں افغانستان میں بد امنی کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں نے حالات کے ساتھ پلاننگ نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  طالبان کی بھی ایک بھاری  اکثریت ہمارے خلاف ہوگئی اور افغانی عوام بھی ہم سے بد ظن ہوگئے۔

طالبان کی طرف سے پاک فوج کو ناپاک فوج کہنا،پاکستان آرمی کے جوانوں کے گلے کاٹنا اور پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرنا ہماری ناکام  خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ہماری داخلہ پالیسی بھی اس حوالے سے مکمل طور پر ناکام ہے۔ہمارے ہاں طالبان کے ساتھ نمٹنے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں۔نیشنل ایکشن پلان فقط کاغذی کاروائی تک محدود ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ حکومت نے 94 مشکوک مدارس پر پابندی کیلئے وفاق کو خط لکھا تھا لیکن ہماری  وفاقی وزارت داخلہ نے سندھ حکومت کی یہ درخواست مسترد کردی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت نے جن مدارس کی فہرست وفاقی حکومت کو دی تھی وہ صرف سندھ  میں ہی نہیں بلکہ فاٹا اور دیگر صوبوں میں بھی واقع تھے۔ سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ مشکوک مدارس جس صوبے میں بھی ہیں ان پر پابندی لگنی چاہیے چونکہ یہ آپس میں مضبوط نیٹ ورکنگ کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت فقط اپنی حدود تک محدود رہے۔

یعنی داخلی طور پر مشکوک مدارس اپنا کام کررہے ہیں اور خارجی طور پر افغان عوام ہم سے بد ظن ہو ہے ہیں۔ افغانستان جیسے برادر ہمسایہ ملک کے لوگوں  کا ہم سے نالاں ہو جانا کسی طور بھی ہمارے حق میں نہیں۔

افغانستان کے لوگوں کے دلوں میں پاکستانیوں کا کیا مقام ہے اور آئندہ  وقتوں میں پاک افغان تعلقات کس طرف جارہے ہیں،  اس کا اندازہ پاکستان ایمبیسی پر افغانیوں کے حملے سے ہمیں ہوجانا چاہیے۔

ہمیں ہر قیمت پر اٖفغان عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اپنی طالبان پالیسی پر فوری نظر ثانی کرنی چاہیے۔   جو حال ہماری وزارتِ خارجہ کا ہے وہی وزارت داخلہ کا بھی ہے۔

ملک میں ایک عرصے سے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی گمشدگی  وزارت داخلہ کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔بعنوان نمونہ عرض کروں کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق  گزشتہ برسوں میں عدالت  نے محترم  خواجہ آصف کو 35 لاپتہ افراد کو ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا  تھاجو مبینہ طور پر خفیہ اداروں کی غیر قانونی تحویل میں تھے۔ وزارت دفاع نے ٹال مٹول کرکے 7 دسمبر 2013ء کو 14 افراد کو پیش کیا  تھاجن میں سے صرف 6 کی شناخت ہو سکی  تھی۔

ابھی صرف اس مہینے میں کئی ایسے بلاگرز بھی لاپتہ ہوگئے ہیں جو انسانی حقوق کی بات کرتے تھے۔ ایک اسلامی اور جمہوری ملک میں لوگوں کی اس طرح سے گمشدگی بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر سلمان حیدر چھ جنوری سے اسلام آباد سے لاپتہ ہیں، کراچی سے تعلق رکھنے والے ثمر عباس  ثمر عباس سات جنوری بروز ہفتہ اسلام آباد سے لاپتہ ہیں، سوشل میڈیا پر فعال شخصیت  احمد وقاص گورایہ اور عاصم سعید چار جنوری سے لاپتہ ہیں،  احمد رضا نصیر سات جنوری سے لاپتہ ہیں۔

یہ ہماری وزارت داخلہ اور خارجہ کی کارکردگی ہے ، ہم کئی سالوں سے مسلسل دشمن تراشی اور دشمن سازی میں مصروف ہیں، ہم نے اپنے ہی جوانوں کو طالبان بنا کر اپنا دشمن بنایا، اب ہم اپنے ہی جوانوں کو اغوا اور لاپتہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے  سینکڑوں جوان ملکی و غیر ملکی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، بہت سارے ایسے ہیں کہ جو جرم کرنے سے انکاری ہیں لیکن انہیں پھانسی دے دی جاتی ہے اور بہت سارے ایسے ہیں کہ جو طالبان  ہونےپر فخر کرتے ہیں اور وہ سر عام دندناتے پھرتے ہیں،  ہماری وہ توانائیاں جو بد عنوان اور کرپٹ عناصر کے خلاف استعمال ہونی چاہیے تھیں اپنے ہی جوانوں کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں ۔

اگر اس ملک کو بچانا ہے تو اس کے جوانوں کو بچائیے ، اس ملک کے جوانوں  کے لئے منصوبہ بندی کیجئے ، اس ملک کے تعلیمی اداروں سے منشیات اور کلاشنکوف کلچر کا خاتمہ کیجئے، اس ملک کے ہسپتالوں میں لوگوں کو زبردستی سٹنٹ ڈالنے والوں کے خلاف کاروائی کیجئے۔

ہمارے اعلی حکام کو اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے  حالات کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دینی  چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے جوان ہمارا سرمایہ ہیں ہمارے دشمن نہیں ہیں۔  اگر ہمیں انہیں طالبان کی انڈسٹری میں ڈال کر دہشت گرد بنائیں گے تو ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی  کامیاب نہیں ہوگی اور اگر ہمیں انہیں اغوا اور لاپتہ کرتے رہیں گے تو ہم داخلی طور پر کبھی بھی مضبوط نہیں ہوسکتے۔

ہمارا عروج و زوال ہمارے  پروردگار اور ہمارے ملک کے جوانوں کے ہاتھ میں ہے،  بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں نہیں۔

 

 

 


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree