سانحہ منیٰ کی یاد میں حصہ۔۔ 1

09 ستمبر 2016

وحدت نیوز(آرٹیکل) تاریخ آل سعود:حجاز یمن کے شمال میں واقع ہے، حجاز ملک عرب کا و ہ حصہ ہے جسے اللہ نے نور ہدایت کی شمع فروزاں کرنے کے لئے منتخب کیا اور رسول اکرم حضرت محمد ؐ کا ظہور ہوا تو اس زمین کی حیثیت دنیا پر واضح ہوگئی اسلام کا روشن چہرہ عرب کی سر زمین پر طلوع ہوا اور ساری دنیا کو اپنے روشن دین اور عمل سے منور کیا۔ اس خطہ کا مرکزی شہر مکہ مکرمہ ہے جو بے آب وگیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ حجاز کا دوسرا اہم شہر یثرب ہے جو بعد میں مدینہ النبی ؐ  کہلایا اور مسلمانوں کی پہلی ریاست مدینہ منورہ بنا۔ جبکہ مشرق میں طائف کا شہر ہے ، حجاز میں بدر، احد، حدیبیہ اور خیبر کی وادیا بھی قبل ذکر ہیں۔رسول اکرم ؐ کی رحلت کے بعد ملک حجاز پر خلفاء راشدین نے حکومت قائم کی اور ۶۳۲- ۶۶۱ تک ان کی حکومت رہی اس کے بعد عالم اسلام میں مزید تقسیم پیدا ہوئے اور بنو امیہ نے سر اٹھایا اور انھوں نے ۶۶۱ سے ۷۵۰ تک حکومت کی، اس کے بعد ۱۵۱۷ سے ۱۹۱۶ تک سر زمین حجاز خلافت عثمانیہ کے قبضہ میں رہا، ۱۹۱۶ میں حسین ابن علی(جن کو شریف مکہ بھی کہا جاتا ہے) نے مملکت حجاز کے نام سے سلطنت کی بنیاد رکھی جو کہ ۱۹۲۵ میں آل سعود کی ہاتھوں ختم ہوئی اور آل سعود نے اپنے نام پر سعودی عرب کے نام سے نئی حکومت کی بنیاد رکھی جو ابھی تک باقی ہے۔
بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ سعود خاندان انزہ قبیلہ سے ہے جو تقریبا ۱۴۵۰ میں نجد میں قیام پزیر تھے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ شروع میں یہودی تھے اور چالاک قسم کے جاگیر دار تھے۔
۱۹۶۰ کی دہائی میں صوت العرب(sawt al arab broadcasting station in Cairo ) قاہرہ مصر کے ریڈیو اسٹیشن اور یمن کے سنعا نشریاتی ادارے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سعودی شاہی خاندان کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ سعودیہ کے بادشاہ فیصل جنہوں نے ۱۹۶۴ تا ۱۹۷۵ تک حکومت کی ہے۔ بادشاہ فیصل نے ستمبر ۱۹۶۹ میں واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم سعودی خاندان یہودیوںکے کزنز ہیں۔جن کا ثبوت آج ہم سعودیہ کے بادشاہ سلمان اور اسرائیل کے تعلوقات کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
ال سعود کی تاریخ کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ شیخ محمد بن عبد الواہاب ۱۷۰۳ میںپیدا ہوئے ان کی شخصیت نے ملت اسلامیہ میں افتراق اور انتشار کا ایک نیا دروازہ کھولا اہل اسلام میں کتاب وسنت کے مطابق جو معمولات صدیوں سے رائج تھے انہوں نے ان کو کفر اور شرک قراردیا۔ صحابہ کی قبور کی بے حرمتی کی اور مسمار کیا ایصال ثواب کی تمام جائز صورتوں کی غلط تعبیر کی اور بہت سارے دین اسلام کے کاموں کو شرک قرار دیا اور جو بھی اس راستے میْن ان کے لئے رکاوٹ محسوس ہوا اُسے قتل کیا گیا۔ عبد الوہاب نے جس نئے دین کی طرف لوگوں کو دعوت دی وہ عرف عام میں وہابیت کے نام سے مشہور ہو ا اور ان کے پیروکاروں کو وہابی کہلانے لگے۔۱۷۴۴ میں ابن سعود اور عبد الواہاب کے درمیان اتحاد بنا جو کہ محمد بن عبد الوہاب کی بیٹی اور عبد العزیز جو کہ ابن سعود کا بیٹا تھا کی شادی کی صورت میں ہوئی۔ اب ہم مزید آگے بڑھنے سے پہلے وہابیت کی وجود کے بارے مختصر گفتگو کرتے ہیں۔


وہابی فرقہ کہاں سے اور کیسے وجود میں آیا؟؟سب سے پہلے وہابی فرقہ کو بنانے والا اور اس کی  نشرو اشاعت کرنے کے لئے انتھک کوشش کرنے والا شخص محمد بن عبد الوہاب ہے جو بارہویں صدی ہجری کے نجدی علماء  میں سے تھا۔لیکن یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہابیت کے عقائدکو وجود بخشنے والا یہ پہلا شخص نہیں ہے بلکہ صدیوں پہلے یہ عقیدے مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے رہے ہیں لیکن یہ ایک فرقہ کی صورت میں نہیں تھے اور نہ ہی ان کے زیادہ طرفدار تھے۔ان میں سے چوتھی صدی میں حنبلی فرقہ کے مشہور و معروف عالم دین ابو محمد بر بہاری نے قبور کی زیارت سے منع کیا لیکن خلیفہ عباسی نے اس مسلہ کی بھر پور مخالفت کی۔حنبلی علماء میں سے عبد اللہ بن محمد عکبری مشہور بہ ابن بطہ نے پیغمبر ؐ کی زیارت اور شفاعت کا انکار کیا۔اسی طرح اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اگر کوئی شخص انبیا اور صالحین کی قبور کی زیارت کے سفر کو عبادت مانے، اس کا عقیدہ اجماع اور سنت پیغمبر ؐ کے خلاف ہے۔ساتویں اور آٹھوں صدی کے حنبلی علماء کا سب سے بڑا عالم ابن تیمیہ ہے اور محمد بن عبد الواہاب نے اکثر اور اہم عقائد اسی سے اخذ کئے ہیں۔عبد الوہاب کا سب سے اہم کارنامہ یہ تھا کہ اپنے عقائد کو ظاہر کرنے کے بعد ان پر ثابت قدم رہا اور ہبت سے نجدی حکمرانوںکو اپنے ساتھ ملالیا اور ایک ایسا فرقہ بنالیا جس کے عقائد اہل سنت کے چاروں فرقوں سے مختلف تھے۔ اور آل سعود نے اسی فرقہ کی بنیاد پر اپنی حکومت کو مستحکم کیا اور آج تک اسی کے سہارے اپنی حکومت بر قرار رکھا ہوا ہے ۔(تاریخ وہابیت، ص ۱۴)
ابن سعود جو کی پہلے سے ہی موقع کی تلاش میں تھا کہ وہ اپنے قبیلے سے نکل کر حکومت کی دائرہ کو وسیع کریں، عبد الواہاب سے اتحاد سے اس کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور عبد الواہاب نے مذہبی وزیر کی حیثیت سے اس دین کو پھیلانا شروع کیا تاکہ اس کے پیچھے وہ اپنے سیاسی اور عسکری اہداف کو حاصل کر سیکیں، جو بھی شخص وہابیت قبول کرتا  اسے امان ملتی اور جو مخالفت کرتا اس کے خلاف جہاد کا فتوی دے دیتے ۔ اس طرح آل سعود اور عبد الوہاب نے اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کی اصلاح کے نام پر اپنی ریاست کی سرحدوں کو وسیع کرتے گئے اور بلا آخر ۱۸۳ کے عرصہ میں یعنی ۱۷۴۴-۱۹۲۷  تک انھوں نے وہابی مذہب کے سہارے جزیرہ نما عرب میں موجود تمام قبائل اور مسلمانوں اور ترکوں سے جنگ کی اور بلا آخر عبد العزیز کو ۱۸۹۰ میں الراشد نے شکست سے دوچار کیا اور وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ کویت چلے گئے۔ انیس سو ایک میں عبد العزیز نجد سے واپس آیا اور کویت کی مدد سے ۱۹۲۷ میں اپنے آپ کو بادشاہ قرار دے کر سر زمین حجاز میں سعودی عرب کے نام سے ریاست قائم کی۔۔۔۔جاری

تحریر :ناصر رینگچن



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree