وحدت نیوز(مظفرآباد)صدر مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر علامہ ڈاکٹر سید یاسر عباس سبزواری نے 300 پاکستانیوں کی کشتی ڈوبنے میں ہلاکت کو پورے نظام پر تمانچا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یونان کشتی حادثہ کا شکار ہونے والے ہر فرد کی اپنی کہانی ہے اور اس کہانی میں غربت، معاشرتی تقسیم اور حالات کی بہتری کے لیے جدوجہد نمایاں نظر آتی ہے، ریاستی نوجوان معاشی حالات سے تنگ آکر اپنے ملک، والدین، بہن بھائیوں اور اولاد سے دوری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یونان کشتی حادثے میں جاں بحق ہونے والے نوجوانوں کا خون حاکم وقت کے سر ہے۔ اس ملک پر حکومت کرنے والے معاشی حالات کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھانے کے بجائے کشکول لیے آئی ایم ایف اور دیگر ممالک کے پاس بھٹک رہے ہیں، جس کا نتیجہ کبھی تو ملک میں چوری ڈکیتیوں کی صورت میں سامنے آتا اور کبھی رزق حلال کے حصول میں غیر قانونی طور پر ملک چھوڑ کر جانے والوں کی کشتی حادثے کی صورت میں۔ ایسے واقعات پر قابو پانے کا واحد حل معاشی استحکام اور روزگار ہے مواقع پیدا کرنا ہے۔
علامہ ڈاکٹر یاسر عباس سبزواری کا مزید کہنا تھا کہ یونان کشتی حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کی کہانیاں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اپنے وطن میں معاشی بدحالی سے عاجز آکر پڑھے لکھے نوجوان اپنے پیاروں سے جدائی کا دکھ لیے کشتی میں سوار ہوئے اور منزل تک نہ پہنچ سکے ۔ ایسے کتنے ہی نوجوان غیر ملکی جیلوں میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ پاکستان و آزاد کشمیر کی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ خدارا پڑھے لکھے نوجوانوں کو اگر میرٹ پر نوکریاں فراہم نہیں کر سکتے تو باعزت روزگار کے مواقع پیدا کرو تاکہ عوام میں پھیلی بدحالی کا خاتمہ ہو سکے اور ہم سب بروز حشر اپنے پروردگار کو منہ دکھا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آزادکشمیر میں سیاحت ایک ایسی انڈسٹری بن سکتی ہے جس سے لاکھوں کروڑوں لوگ مستفید ہو سکتے ہیں، حکومتوں کو سنجیدگی سے سیاحت کے فروغ کے اقدامات اٹھانے ہونگے ۔ سیاحت کے علاؤہ دیگر بے شمار ذرائع ہیں جس سے استفادہ حاصل کر کے ہم ریاست کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں، مگر وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن میں احساس ذمہ داری ہو اور کرپشن کرنے والوں کا احتساب ہوتا ہو۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے یہاں کرپٹ عناصر کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آج ہم دن بدن پستی کا شکار ہیں ، اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو خوشحالی کا خواب دیکھنے کے بجائے ہمیں تباہی کی تیاری کر لینے چاہیے۔