سانحہ پشاور اور پاک دھرتی کا دفاع

19 دسمبر 2014

وحدت نیوز (آرٹیکل) سانحہ پشاور پر ہر پاکستانی شہری غم و غصہ کی کیفیت میں ہے اور مختلف شخصیات کے مذمتی بیانات آ رہے ہیں ۔ ان شہداء کے خون نے پاکستانی ملت کے لئے راستے کا تعین کرنا آسان کر دیا ہے اب بھی اگر کوئی ان دہشتگردوں کے نرم گوشہ رکھتا ہے تو شائد وہ طالبانی سوچ کو پروان چڑھانا چاہتاہے۔ اور پھر شائد ہم اور لاشیں گرتی ہوئی دیکھیں گے اور معصوم قتل ہوتےہوئے دیکھیں گے۔ آئے روز اسی نوعیت کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ الحمدللہ معصوم ننھے شہداء کے خون کے اثر سے آج تمام سیاسی جاعتیں اور عسکری ادارے اکٹھے ہو گئے اور دہشتگردوں کے خلاف اقدامات کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ ایک خوش آئین صورتحال ہے۔ لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ اپنی دفاعی پالیسی کس طرح کی مرتب کرنا ہوگی۔ اور ہمیں کن کن محاذوں پر ان دہشتگردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کی سالمیت اور تشخص کو مزید نقصان نہ ہو۔اس وقت ہمیں تین محاذوں پر پاکستان کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے جو کہ حسب ذیل ہیں۔

 

(1)۔ عسکری محاذ

(2) نظریاتی محاذ

(3) سیاسی محاذ

 

1- عسكری محاذ : الحمد للہ پاکستان آرمی عسکر ی محاذ پر ضرب عضب کے ذریعے ان دہشتگردوں کا قلہ قمعہ کر رہی ہے اور حالیہ آرمی چیف کا دورہ افغانستان اس کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہوگا ۔اور پاکستان آرمی کے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ ان دہشتگرد گروہوں کو شکست دے کر پاکستان کے اندر امن پیدا کر سکتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام امن وامان كے ذمہ دار تمام اداروں کی بھی یہ ذمہ اری بنتی ہے  كہ وه اپنا منصبی, وطنی اور انسانی فريضہ ادا كرتے ہوئے ان درندوں كو کچلیں.خواه انكا ظاہری نام جو کچھ بھی ہو. انكو فقط انکی تنظیموں اور گروہوں كے نام سي نہیں بلكہ انكو انكی فكر وافعال سے بهی پہچانیں،ہمارے حساس اداروں ميں اتنی صلاحيت هے كہ وه ہر دہشتگرد كو پہچانتے ہیں ليكن كيونكہ افسر شاہی ,سياستدان اور با اثر لوگ انہیں پناہ دیتے ہیں .اب وقت آ گیا ہے كہ ان باثر افراد پر بھی ہاتھ ڈالا جائے اور انہیں انصاف كی کٹہرے ميں لا كهڑا كيا جائے اور قوم كو انكے بهيانک جرائم اور منحوس چہروں سے مطلع كيا جائے.اور ياد رهے كہ ان ہشتگردوں کے سربراہوں نے كی نقاب پہن ركهے ہیں. اپنی منافقانہ روش اور جھوٹ وشبہات كا سہارا  ليكر لوگوں كو فقط اپنا شريف حلیہ دكهاتے ہیں.

 

2- فكری ونظرياتی محاذ :لیکن کیا صرف عسکری جنگ کافی ہے ان کے مقابلے کے لئے یا ہمیں بطور پاکستانی قوم کچھ اور محاذوں پر بھی جنگ لڑنی ہے۔ جن میں سے دوسرا محاذ فكری ونظرياتي محاذ ہے . يہ وه نظریاتی محاذ ہے كہ جس کے ذریعے دشمن ہماری صفوں میں نفوذ کررہا ہے اور اپنے ہم فکر گروہ تشکیل دے رہا ہے۔ یعنی پاکستان کے اندر موجود وہ شخصيات اور گروہ جو طالبانی نظریہ کے حامل ہیں ہمیں ان سے بھی جنگ کا سامنہ ہے جس کی مثالیں آج نظر آ رہی ہیں ۔پورے پاکستان نے سانحہ پشاور پر مذمت کی لیکن لال مسجد کے خطیب مولوی عبدالعزیز صاحب نے مذمت کرنے سے بھی انکار کردیا بلکہ  وه برملا طالبان اور داعش كی وكالت کرتے ہوئے کہ رہے ہیں  كہ ہمیں دونوں طرف سے مذمت کرنی چاہیے اور كچھ شخصيات نام نہاد ثقافت قتال وجہاد كی مہم چلانے کی بات كر رہے ہیں اور اس کے نزدیک آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے یہ سانحہ ہواہے ۔ اور یہی موقف طالبان كا بھی ہے۔ ان دونوں ميں مشترک چیز انكی تكفيری اور وہابی سوچ ہے ليكن آج انكے در سے كوئی وہابیت كي بات نہیں كرتا اور نہ ہی آل سعود كی كردار كی بات كرتا ہےلیکن کیا آپریشن ضرب عضب سے پہلے پاکستان کے اندر اس نوعیت کی وارداتیں نہیں ہورہی تھیں۔ کیا یہ دہشت گرد پاک آرمی کے جوانوں کے سروں کے ساتھ فٹ بال نہیں کھیلتے رہے کیا ان درندوں نے آرمی ہیڈ کوارٹر پر حملہ نہیں کیا۔ کیا ان سفاک لوگوں نے سوات کے اندر لوگوں کو ذبح نہیں کیا۔؟ کیا ہماری ریاستی اداروں پر حملے نہیں ہوئے۔ ؟ کیا آئے روز ٹارگٹ کلنگ نہیں ہورہی تهی ؟ تو کیا اس سے ان انسان نما درندوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے کہ وہ پاکستان کے اندر اپنی من مانی کرتے پھریں؟ لہذا ہمیں دفاعی پالیسی کے اندر ایسی سوچ رکھنے والوں کے خلاف بھی اقدامات کرنے کے لئے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ انكے مدارس كي مانيٹرنگ كرنا ہوگی اور دہشت كردی اور تكفيريت كا درس دينے والے مدارس كو بند كرنا ہوگا اور نفرت آميز لٹیریچر اور تكفیری اجتماعات اور مظاہروں كو كچلناہو گا،کیونکہ جب تک یہ نظریہ پاکستان کے اندر موجود ہے تب تک طالبان کو افرادی قوت مہیا ہوتی رہے گی۔ لہذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ایسی تکفیری سوچ رکھنے والے عناصر چاہے وہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں موجود ہوں ان کے خلاف قانونی کاروائی کرے۔

 

3- سياسی محاذ : اور تیسرا محاذ ہے ان سیاسی قوتوں کی حوصلہ شکنی کرنا جو ان دہشت گردوں کی سیاسی طور پر حمایت کرتی ہیں اور ان کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ یعنی جن کا یہ موقف ہے کہ آپریشن ضرب عضب ختم کر دیا جائے کیونکہ یہ سانحات اس کا رد عمل ہیں۔ دراصل وہ سیاسی قوتیں جن کا یہ موقف ہے وہ ان دہشتگردوں کو بچانا چاہتی ہیں کیونکہ یہ ان کے اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں اور یہ دہشت گرد  همارے حكمرانوں كے بھی اسٹریٹیجک پارٹنررہے ہیں اور اب بهی بعض سياسی قوتيں ان سے اپنے مفادات اٹھاتی رہیں ہیں.ہمارے حكمرانوں کے پالے ہوئے سانب ہیں  اورآج همارے ننھے پھول جیسے بچوں كو ڈس رہے ہیں. اب انكو آہنی هاتهوں سے نمٹنا ہو گا . اس وقت حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہر سانحہ کے بعد جو لائحہ عمل اپناتی ہے کہ تمام اداروں کی سکیورٹی سخت کر دیں۔ بلکہ اس لائحہ عمل کی بجائے ان دہشت گردوں کی کمین گاہوں اور پناہ گاہوں اور تربيت گاہوں کو  تلاش کر کے ختم کیا جائے جہاں سے یہ پروان چڑھتے ہیں اور عسکری و نظریاتی ٹریننگ حاصل کر تے ہیں ۔ آج ہمیں مستقل بنیادوں پر لائحہ عمل کی ضرورت ہے نہ کہ عارضی طور پر سکیورٹی بڑھا دینے سے حكومت كے مسائل اور بڑھیں گے اور  یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ دراصل تکفیریت کے خلاف جنگ ہے اسے مذہبی جنگ کا نام نہ دیا جائے یہ دہشتگرد کسی فرقہ یا مذہب ومسلک  سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ پاکستان کے دشمن ہیں اور پاکستان کو اندھیری گلی میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری ملت پاکستان باہم یکجا ہو کر ان عناصر کے خلاف متحد ہو جائے اور پاکستان آرمی اور امن وامان قائم كرنے والےاداروں کا ساتھ دیں اور ملک كے شیعہ، بریلوی ، وہانی اور اہلسنت علماء اس تکفیری سوچ کی حوصلہ شکنی کريں۔ تاکہ ہم پھر کسی ناگہانی سانحہ کی طرف نہ جائیں اور یہ حقائق ہر پاکستانی تک پہنچنے چاہیں تاکہ پاکستان کا ہر شہری ان محاذوں پر اس پاک دہرتی کا دفاع کرے۔

 

تحریر:ڈاکٹر علامہ سید شفقت حسین شیرازی
سیکرٹری امور خارجہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree