Print this page

قانون کی حاکمیت ہی پاکستان میں دہشت گردی کے سدباب میں معاون ثابت ہو سکتی ہے، علامہ عبد الخالق اسدی

18 دسمبر 2014

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا ہے کہ دہشت گردوں نے بیگناہ طالب علموں پر حملہ کر کے علم دشمنی اور درندگی کا ثبوت دیا ہے۔ انتہا پسند علم دشمنوں کو عبرت کا نشان بنانا ہوگا۔ سانحہ پشاور کے اصل ذمہ دار طالبان کے حامی اور ہمدرد مذہبی و سیاسی راہنما ہیں۔ اب پانی سر سے گزرنے لگا ہے اس لیے حکومت ملک بھر میں دہشت گردوں کے ٹھکانے اور پناہ گاہیں مسمار کریں اور دہشت گردوں کے مددگاروں کے خلاف ملک بھر میں آپریشن کیا جائے۔صوبائی سیکرٹریٹ میں قرآن خوانی کی تقریب سے خطاب میں علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا تھا کہ قوم طالبان کی حامی مذہبی جماعتوں کا بائیکاٹ کرے۔ قرآن خوانی کی تقریب میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

 

 علامہ اسدی نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے اپنی سوچیں تبدیل کریں۔ دہشت گرد کرائے کے قاتل، موت کے سوداگر اور نفرت کے بیوپاری ہیں، ماں کی گودیں اجاڑنے والے اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔  آرمی سکول کے نہتے بچوں پر حملہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپریشن ضرب عضب سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ اب ان دہشت گروں میں پاک فوج کے جوانوں سے لڑنے کی ہمت جواب دے چکی ہے اسی لیے معصوم بچوں پر حملے کر کے اپنی بزدلی ظاہر کر رہے ہیں۔

 

 اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صوبائی ڈپٹی سیکریٹری اسد عباس نقوی کا کہنا تھا کہ انسانیت کے دشمنوں کا نام و نشان مٹایا جائے۔ سانحہ پشاور پاکستانی تاریخ کا المناک حادثہ ہے۔ وحشی درندوں نے جس طرح ہمارے گلابوں کو مسل دیا ہے۔ اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی، وقت آگیا ہے کہ ان درندوں کے سرپرستوں اور ان کے حمایتیوں کو بھی نیست ونابود کیا جائے۔ نے کہا کہ دہشت گردی کے درخت کی شاخیں نہیں بلکہ پورے درخت کو جڑوں سے اکھیڑا جائے۔ وہ سیاسی جماعتیں جو ان دہشت گردوں کو سپورٹ کررہی ہیں۔ ان پر پابندی عائد کی جائے۔ جو لوگ دہشت گردی میں کسی بھی ملوث پائے جائیں ان کو چوراہوں میں پھانسی پرلٹکایا جائے سکولوں پر حملے بربریت کی خوف ناک مثال ہے۔ پاکستان کا خوبصورت چہرہ خون خون کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ آخر میں شہدا کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے خصوصی دعائیں کی گئیں۔

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree