Print this page

زائرین کے ساتھ ناروا سلوک ،ایم ڈبلیوایم کے رہنما ڈاکٹر افتخار نقوی کا وزیر مذہبی امور پنجاب پیر سید سعیدالحسن اور وزیر قانون پنجاب محمد بشارت راجہ کے نام کھلا خط

19 اپریل 2020

وحدت نیوز(لاہور)میں خداوند متعال سے دعا گو ہوں کہ آپ دوستوں پر رحمت کا سایہ رکھے اور آپ اپنی تمام تر صلاحیتیں دین مبین دین اسلام اور پاکستانیوںکی بہتری اور خوشحالی کے لیے استعمال کر رہے ہوں گے کیونکہ خداوند متعال نے آپ کو اہم منصب سے نوازا ہے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ اپنے منصب سے ناانصافی نہیں کریں گے۔    

محترم صاحبان ! ملکی حالات کی وجہ سے کافی عرصہ سے خاموش تھا اور اس بحث کو شروع نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن جب آج چیزیں حد سے بڑھ گئیں اور مجھ سے صبر نہیں ہو رہا لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو ان چیزوں کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ کوئی داد رسی ہو جائے میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ مختلف ممالک سے لوگوں کو اپنے ملک واپس آنے کی اجازت دے دی ہے اور لوگ اب دیگر ممالک سے پاکستان آ سکیں گے میں ان تمام پاکستانیوں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے پاکستان واپسی پر خوش آمدید کہتا ہوں اور اس بات پر بھی مسرت کا اظہار کروں گا کہ ان کو کورنٹائن سینٹرز کے بجائے ہوٹل میں لے جایا جائے گا اور وہاں پر ہی ان کے ٹیسٹ ہوں گے اور دو دن کے اندر اندر جن میں ٹیسٹ منفی آجائے گا ان کو گھروں میں بھجوا دیا جائے گا یہ بہت ہی خوبصورت تجویز ہے اس طرح بیماری سے بھی محفوظ رہا جا سکے گا اور حکومتی وسائل اور مشینری پر بھی بوجھ کم سے کم آئے گا میں اس سارے عمل کو سراہتا ہوں اب سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایک شخص جہاز میں آئے گا یا دو سو تین سو افراد جہاز میں اکٹھے آئیں گے، اگر اکٹھے آئیں گے تو کیا ایک سے دوسرا بندہ انفیکٹڈ ہو سکتا ہے یا نہیں؟ ابھی تک جو سٹڈیز کرونا پر ہوئے ان کے مطابق تو انفیکٹڈ ہونا ممکن ہے۔    

محترم صاحبان! پاکستان میں جب ایران سے زائرین آئے تو ملک کے اندر ایک شور مچا کے ایران سے کرونا پاکستان آیا اور پاکستان کے حکومتی آفیشلز سیاستدان اور میڈیا نے اس پر اپنے اپنے مزاج کے مطابق بیانات جاری کیے لیکن ہماری طرف سے برداشت کیا گیا اور ہم نے اخلاقی طریقہ سے اس کو روکنے کی کوشش کی خداوندمتعال نے بھی مدد کی اور تبلیغی جماعت کے کیسز آنے شروع ہو گئے اگرچہ ہم ان کے لئے بھی دعا گو ہیں ہم ان کا بھی احترام کرتے ہیں لیکن ان کے دفاع کے لیے سپیکر پنجاب اسمبلی کھل کر سامنے آئے اور وزیراعلی نے بھی خصوصی ہدایات جاری کر دیں ہم نے بھی خاموشی کو ہی بہتر جانا اور فرقہ پرست عناصر کی اس سازش کو ناکام بنایا۔    

جناب عالیٰ! بات یہ ہے کہ جب ایران سے زائرین پاکستان آئے تو یہ شورشرابہ بھی مچایا کہ ایران نے توز بردستی ان کو ایران سے نکال دیا جب کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ایران کی یہ پالیسی ہرگز نہ تھی لوگ جو کہ پاکستانی تھے اور اپنے ملک میں آنا چاہتے تھے جو ان کا بنیادی حق ہے۔لیکن جناب حکومت میں موجود چند عناصر کی نااہلی کی وجہ سے تفتان بارڈر کو مینج نہ کیا  اور ان کو نہ تو SOPs کے مطابق کورنٹائن کیا گیا اور نہ ہی ان کو گھروں میں بھجوایا گیا نتیجہ کچھ لوگ انفیکٹڈ ہوگئے اگر وہاں پر بھی دو دن رکھ کر منفی ٹیسٹ والے کو گھر بھجوا دیا جاتا تو یہ ایشو نہ بنتا اور ملک میں فرقہ وارانہ عناصر کو موقع سے فائدہ نہ اٹھانے دیا جاتا۔    

اس کے بعد ہوا یہ کہ جناب ان کوصوبائی ہیڈکوارٹرز میں کورنٹائن کیاگیابیس دن تفتان بٹھانے کے بعد ان کو پھرلاک اپ کر دیا گیا اور ان کے پہلی دفعہ ٹیسٹ ہوئے اب ہمیں تو SOPs بتائے گئے اور جن پر عمل بھی کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ تفتان میں زائرین کے ٹیسٹ نہیں ہوئے جبکہ ان زائرین کے پاس ایران کی ٹیسٹ رپورٹ بھی موجود تھی جن میں اکثریت کے پاس نیگیٹیو رپورٹ تھی جب دوبارہ ٹیسٹ لئے گئے تو مثبت آئے ان کو الگ کر دیا گیا اور نیگٹیو افراد کو کہا گیا کہ آپ کو ابھی 14 دن دوبارہ پورے کرنے ہیں 14 دن بعد دوبارہ ٹیسٹ ہوں گے اب دوبارہ ٹیسٹ میں کوئی پازیٹیو آگیا تو بھی اگلے 14 دن اور اگر کوئی پازیٹیو نہیں آیا تو پھر گھروں کو بھجوا دیا گیا لیکن یہاں ایک اور کہانی شروع ہوگئی ان کے گھروں کے باہر نوٹس آویزاں کئے گئے اور ان سے ایک ایک لاکھ کا شورٹی بانڈ لیا گیا کہ وہ گھر میں رہیں گے اور اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے جبکہ گھر کے باہر دو پولیس مین کی ڈیوٹی لگادی گئی حکومت میں موجود چند عناصر کی نااہلی کی وجہ سے کورنٹائن سنٹرز وائرس پروڈکشن سنٹرز بن گئے۔    

صاحبان! اب آخر میں بس یہ وضاحت چاہتا ہوں کہ حکومت کا ڈبل سٹینڈرڈ کیوں؟    

اگر زائرین کو کورنٹائن سنٹر میں رکھا گیا تو دوسرے ممالک سے آنے والے ہوٹلوں میں کیوں؟    

اگر زائرین کو 14 14 دن کے تین سے چار کورنٹائن پیریڈ پورے کرنے ہیں تو یہ آنے والے افراد 14 دن کا ایک کورنٹائن بھی پورا نہیں کریں گے اور دو سے تین دن میں اپنے گھروں میں چلے جائیں گے اور کوئی پہرابھی نہیں۔کیا ہم پاکستان میں سیکنڈ سٹینڈرڈ ہیں؟ کیا یہ ریاست کی پالیسی ہے؟ یا ریاست میں موجود متعصب فرقہ وارانہ عناصر اپنی گیم کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں؟۔کیا وائرس کی مختلف اقسام ہیں؟جو افراد کو دیکھ کے ظاہر ہوتی ہیں اور افراد کے بدلنے سے سٹینڈرڈ بدل جاتے ہیںSOPs تبدیل ہو سکتے ہیں۔    

آخر میں میرا مطالبہ ہے کہ سارے عمل کی افواج پاکستان اور سول ایجنسیز کے معزز اور غیر متعصب نیک اور دیانتدار افسران سے غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں تاکہ ہزاروں زائرین امام حسینؑ سے ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہوسکے ورنہ یہ حقائق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناسور بن جائیں گے اور فرقہ پرست متعصب شدت پسند پاکستان مخالف دشمنوں کے اعلی کار اپنے مذموم مقاصد حاصل کرلیں گے اور ملک کو ایک دفعہ پھر فرقہ ورانہ جنگ میں دھکیل دیں گے۔

انصاف کا طالب
ڈاکٹر افتخار حسین نقوی
ڈائریکٹر پنجاب المجلس ڈیزاسٹرمنیجمنٹ سیل
ڈپٹی سیکریٹری جنرل
مجلس وحدت مسلمین پنجاب

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree