Print this page

ملت ِکشمیر ۔۔۔ غلامی پر رضامند نہیں!

27 جولائی 2016

وحدت نیوز(آرٹیکل) کشمیر کی تاریخ  کا آغاز آزادی سے ہوتا ہے۔آپ شاید یہ جان کر حیران ہونگے کہ کشمیر کی  موجودہ غلامی مسلمانوں کی  باہی فرقہ واریت کا نتیجہ ہے۔یہ ۱۵۸۳ ؁  کی بات ہے کہ جب  کچھ  نادانوں  نے  پہلی مرتبہ کشمیر کو اکبر بادشاہ کی گود میں اس لئے  ڈالا تھا کہ انہیں کشمیر پر شیعہ حکمرانوں کی حکومت قبول نہیں تھی،انہوں نے اپنے فرقہ وارانہ تعصب کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یوسف شاہ چک کے خلاف سازش تو کی لیکن اس کے بعد  کشمیر آج تک  غلامی کی زنجیروں میں جھکڑاہوا چلاآرہاہے۔

پھر۱۷۵۳ میں احمد شاہ ابدالی نے کشمیر کو مغلوں سے چھین لیا  اوریوں کشمیری ،مغلوں کے بعد افغانیوں کے غلام بن گئے پھر ۱۸۱۸ میں لاہور کے مہاراجے رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ  افغانیوں سے چھینااور پھر کشمیری رنجیت سنگھ کے غلام بن گئے۔

۱۸۱۸ء سے ۱۸۴۶ء تک یہاں سکھوں کی حکومت رہی۔9 مارچ 1846؁ء کو عہد نامہ لاہورکی دفعہ چہارکے تحت  جنگی  خراجات کی مد میں سکھوں نے  کشمیر انگریزوں کے حوالے کیا اور ایک ہفتے کے بعد ہی انگریزوں نے کشمیر کی ریاست گلاب سنگھ کو نیلام کردی۔

کشمیر کی غلامی کی  ابتدا فرقہ واریت کے باعث ۱۵۸۳؁ سے ہوئی اور غلامی کی موجودہ داستان ۱۹۴۷ سے  رقم ہوتی ہے۔اس پوری غلامی کی تاریخ میں کشمیری مسلسل آزادی کی جدوجہد کرتے رہے جس پر روشنی ڈالنا اس وقت ممکن نہیں۔

 راقم الحروف کی ناقص معلومات کے ۱۸۴۶ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے  ریاستِ کشمیر معائدہ امرتسر کی رو سے گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کی۔تاریخی اعتبار سے  اس وقت شمالی عالاقہ جات  کا علاقہ کشمیر کا حصہ نہ تھا بلکہ  متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں  مثلانگر‘ ہنزہ‘ کھرمنگ‘ خپلو‘ شگر‘ دیامر‘ خذر‘ سکردو‘ استوار اور گانچھے راجواڑے وغیرہ میں منقسم تھا۔۱۸۴۶ میں گلاب سنگھ نے ان چھوٹی موٹی ریاستوں کو طاقت کے زور پر کشمیر میں شامل کیا۔ اس طرح ۱۸۴۶ء  کے بعد ۱۹۴۷ء تک کشمیر پر گلاب سنگھ کی نسل  اور باقیات ہی  حکمران رہی۔

۱۹۴۷  میں ہندوستان میں ہندوستانیوں کی طرف سے  برطانیہ کے خلاف ایک بہت بڑی  فوجی بغاوت متوقع تھی۔یعنی  برطانہ کے خلاف ہندوستان میں سوسال کے اندر دوسری بڑی فوجی بغاوت ہونے والی تھی ،اس سے پہلے  بھی برطانوی حکومت ۱۸۵۷ کی فوجی بغاوت کا مزہ چکھ چکی تھی لہذا حکومت کوشش کررہی تھی کہ اسے مزید کسی فوجی بغاوت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس متوقع  فوجی بغاوت کو ٹالنے کے لئے ۲۲ مارچ ۱۹۴۷ کو  لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔

 18 مئی 1947ء  کو لارڈبیٹن اپنی رپورٹ مرتب کرکے واپس لندن روانہ ہوگئے۔لندن میں لارڈ ماونٹ بیٹن کی رپورٹ پر سیر حاصل بحث ہوئی جس کے بعد انہیں  ۳۰مئی ۱۹۴۷ء کو  پھر ہندوستان بھیج دیاگیا۔

2 جون 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن اور ہندوستان کی سیاسی شخصیات کے درمیان ایک  اجلاس منعقد ہوا جس میں لارڈ نے مقامی سیاسی رہنماوں کو اپنی رپورٹ اور تجاویز سے آگاہ کیا۔۳جون کولارڈ ماونٹ بیٹن نے  آل انڈیا ریڈیو سے اپنی تقریر میں آزادی اور تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا جسے ’’جون تھری پلان‘‘ کا نام دیا گیا۔

 اس تقریر میں انہوں نے تسلیم کیا کہ  مسئلہ ہندوستان کا حل تقسیم ہندوستان ہی ہے۔۳جون کی شام کو ہی  برطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی نے بی بی سی لندن سے اعلان کیا کہ ہندوستانی رہنما متحدہ ہند پلان کے کسی حل پر متفق نہ ہو پائے لہٰذا تقسیم ہند ہی واحد حل ہے۔ یوں 3 جون 1947ء کو  پہلی مرتبہ سرکاری طور پر مہا بھارت اور اکھنڈ بھارت کے فلسفے پر خط بطلان کھینچ دیاگیا۔

’’جون تھری پلان‘‘ کی رو سے  ہندوستان میں واقع  برطانیہ کے زیر انتظام تمام ریاستیں  ہندو یا مسلمان ہونے کے ناطے ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کا اختیار رکھتی تھیں۔موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جواہر لال نہرو نے  کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی۔مسٹر نہرو کی شخصیت کے بارے میں کہا جاتاہے کہ لارڈ ماونٹ بیٹن کو ہندوستان کا وائسراے بنوانے میں ان کا کلیدی رول تھا اور بعد ازاں ان کی ماونٹ بیٹن سے دوستی رنگ لائی اور کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوسکا۔[1]

تقسیم ہند کے وقت  حکومت برطانیہ کی طرف سے سرحد کمیشن کا چیئرمین ریڈ کلف کو منتخب کیا گیا۔لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنے زمانہ طالب علمی کے  کالج کے ساتھی ریڈ کلف  کو مسٹر نہرو کی  منصوبہ بندی کے مطابق  مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔

یاد رہے کہ ریڈکلف اس سے پہلے کبھی ہندوستان نہیں آیا تھا اور ہندوستان کے بارے میں اس کی معلومات فقط سننے سنانے کی حد تک تھیں۔ چنانچہ وہ لارڈ ماونٹ بیٹن کی ہدایات پر ہی عمل کرنے پر مجبور تھا۔

اگرچہ لارڈمائونٹ بیٹن کے وائسرائے مقرر کروانے سے مسٹر نہرو تقسیم ہند کو تو نہیں رکوا سکے البتہ  انہوں نے ریڈ کلف ایوارڈکے ذریعے مسلم اکثریتی ضلع گرداسپور کی تین تحصیلیں بھارت میں شامل کرانے میں ضرور کامیابی حاصل کی جس کے باعث کشمیر میں بھارتی فوجوں کی مداخلت ممکن ہو گئی ۔

بلاشبہ  اگر تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور پاکستان کے حوالے کر دیا جاتا تو بھارت ، پاکستان کےخلاف کشمیر میں کبھی بھی جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔تاریخی شواہد سے پتہ چلتاہے کہ مسٹر نہرو ،لارڈ ماونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ہندوستان کو سنکیانگ تک پھیلانا چاہتے تھے۔ان کی اس کوشش کو شمالی علاقہ جات کی غیور عوام نے کامیاب نہیں ہونے دیا۔

اسی طرح  ریڈکلف کی طرف سے ضلع مالدہ,مرشدآباد,کریم گنج  اور حیدر آباد کی طرح متعدد مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان کو  ہدئیے میں دے دئیے گئے۔

24 اکتوبر ۱۹۴۷کو  مہاراجہ نے بھارت سے فوج منگوائی اور ۲۷ اکتوبر کو انڈین آرمی کی ایک سکھ بٹالین طیاروں کے ذریعے بھارت سے سرینگر پہنچی ۔اس صورتحال میں  کشمیریوں نے مایوسی کے بجائے تحریک آزادی کا اعلان کردیا۔اس تحریک کے نتیجے میں کشمیر کا ایک حصہ  مہاراجےکے تسلط سے آزاد ہوگیا جسے ہم آزاد کشمیرکے نام سے جانتے ہیں اور باقی حصے میں تحریک آزادی ہنوز چل رہی ہے۔

 دسمبر 1947ء کے آخرمیں  ہندوستان نے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا اور یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا حق تسلیم کرتے ہوئے وہاں پر رائے شماری کی قرارداد منظور کی۔

بھارت نے 3جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ واویلا مچایا کہ کشمیر میں جاری بغاوتیں پاکستان کی ایما پر کی جارہی ہیں،چنانچہ سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950ء کو کشمیر میں غیر جانبدار مبصر کی زیر نگرانی استصواب رائے (ریفرنڈم) کرانے کا فیصلہ کیا اور بھارت و پاکستان کو ہدایت کی کہ دونوں پانچ ماہ کے اندر رائے شماری کی تیاری کریں۔

پھر اس کے بعد وہ پانچ ماہ ابھی تک نہیں آئے۔یہ ہے کشمیر کی غلامی کی ابتدا سے لے کر موجود تحریک ِ آزادی کا مختصر پسِ منظر ،اس پسِ منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت راہِ حل کے طور پر چند نکات پیشِ خدمت ہیں ۔:

۱۔کشمیر در اصل  مسلمانوں کی باہمی فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا ہے ،اگر ابتدا میں اہلیان کشمیر میں سے کچھ لوگ  یوسف شاہ چک کو شیعہ کہہ کر اکبر بادشاہ کو حملے کی دعوت نہ دیتے تو نوبت یہانتک نہ پہنچتی۔آج بھی اگر کشمیری ،غلامی سے نجات چاہتے ہیں تو انہیں  فرقہ واریت سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہوگا۔فرقہ وارانہ سوچ کشمیریوں کو کمزور تو کرسکتی ہے لیکن مضبوط نہیں۔

۲۔کشمیریوں کی تحریک آزادی ہندوستان کے خلاف نہیں بلکہ خود کشمیریوں کی آزادی کے لئے ہے۔آزادی ہر انسان کافطری اور جمہوری حق ہے ،دنیا کی تمام مقتدر اقوام اور ادارے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں،لہذا کشمیریوں کو اپنی تحریک آزادی کی نظریاتی بنیادوں  کو کھل کر بطریقِ احسن بیان کرنا چاہیے۔

۳۔اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی  کاغذی قراردادیں اب کشمیریوں کے کام آنے والی نہیں ۔اب اہلیانِ کشمیرکو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ فیصلے حکومتیں نہیں بلکہ ملتیں کرتی ہیں،یہ جمہوری دور ہے ،عوامی طاقت ہی اصل طاقت ہے،مسئلہ کشمیر کو میڈیا کے ذریعے دیگر ملتوں تک مسلسل پہنچایا جانا چاہیے اور ان سے مدد کی درخواست کی جانی چاہیے۔ضروری ہے کہ دنیا کے اطراف و کنار میں  انسانی حقوق کی بنیاد پر اس مسئلے کو پوری طاقت کے ساتھ اٹھایاجائے۔یعنی عالمی سطح پر بین الاقوامی رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔

۴۔مسئلہ کشمیر ایک قانونی  اور سیاسی مسئلہ ہے جو ریڈکلف سمیت چند خواص کی خیانت کی وجہ سے پیش آیا لہذا اسے قانونی اور سیاسی  طور پر ہی حل ہونا چاہیے۔دہشت گردی اور خون خرابے کو ہر انسان ناپسند کرتاہے۔لہذا تحریکِ آزادی کشمیر کو کسی طور بھی دہشت گرد ٹولوں کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہیے۔یہ جنگ سیاسی اور قانونی بنیادوں پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر لڑی جانی چاہیے۔

۵۔دنیا میں ہر جگہ شدت پسند وہابی اور دہشت گرد ٹولے پائے جاتے ہیں۔مثلا عراق ،پاکستان اور افغانستان کو ہی لے لیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی پورے ملک کو ہی وہابی قرار دے دیاجائے اور  امت مسلمہ کو وہابی دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے۔اسی طرح کشمیر میں بھی یہ لوگ پائے جاتے ہیں۔لہذا  ہمیں بھی  سارے اہلیانِ کشمیر کو وہابی  یا داعشی نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی ملت کشمیر کو  ان عناصر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنا چاہیے۔

۶۔جو قوم فکری طور پر شکست قبول کرلیتی ہے اسی عملی میدان میں شکست دینا آسان ہوجاتاہے۔کشمیر کے خواص کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملت کشمیر کو عالمی اسلامی تحریکوں اور شخصیات  سے مربوط رکھیں۔خصوصا انقلاب اسلامی ایران کی جدوجہد ،حزب اللہ کی تاریخ اور فعالیت ،نظام ولایت فقیہ  ، اور تحریک آزادی قدس  کے مختلف ابواب سے لوگوں آگاہ کریں تاکہ ان کی ہمت اور حوصلہ بلند رہے۔

۷۔کشمیری تاریخ کے کسی بھی دور میں غلامی پر رضامند نہیں ہوئے سو آزادی کی جنگ وہ مسلسل نسل در نسل لڑتے چلے آرہے ہیں۔آزادی کی اس شمع کو جلائے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کوکشمیریوں کے  نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔تاکہ کشمیر کی نسلِ نو اس مسئلے کی نظریاتی بنیادوں کو فراموش نہ کرے۔اگر نصابِ تعلیم میں شامل نہ ہوسکے تو دیگر ذرائع مثلا فنون لطیفہ ،شعرو شاعری اور ناول و افسانے کے ذریعے ہی اس مسئلے کو آگے منتقل کیاجائے۔

ہمیشہ کی طرح آخر میں اپنے قارئین کے لئے  تاریخ کا عرق نچوڑ کر ایک بات عرض کرتا چلوں کہ  “جو ملت غلامی پر رضامند نہ ہو اسے غلام نہیں رکھا جاسکتا”۔

استفادہ:۔

۱۔تحریک آزادی کشمیر از پروفیسر خورشید احمد

۲۔کشمیر اینڈ پارٹیشن آف انڈیاڈاکٹر شبیر چوہدری انگلش ایڈیشن

۳۔ششماہی سنگر مال تحقیقی مجلہ پنجاب یونیورسٹی لاہور

۴۔مطالعہ کشمیر از پروفیسر نذیر احمد

۵۔تاریخ کشمیر یعنی گلدستہ کشمیر از پنڈت ہرگوپال خستہ[آن لائن] https://archive.org/stream/tarikhikashmir00khas#page/n0/mode/2up

۶۔A brief history of the Kashmir conflict

http://www.telegraph.co.uk/news/1399992/A-brief-history-of-the-Kashmir-conflict.html

۷۔Kashmir: Roots of Conflict, Paths to Peace

by Sumantra Bose

۸۔The Challenge in Kashmir: Democracy, Self-Determination and a Just Peace

by Sumantra Bose

۹۔مشن ودماؤنٹ بیٹن از کیمل جانسن


تحریر۔۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree