Print this page

سانحہ مِنیٰ۔۔۔جاگ مسلمان جاگ

03 اکتوبر 2015

وحدت نیوز(آرٹیکل)کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی   ہے کبھی تو بالکل انہی  الفاظ  و واقعات کے ساتھ[1] ، تو کبھی اس کا انداز قدرے مختلف ہوتا ہے[2] ۔تاریخ آئندہ آنے والے انسانی زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے میں خاص اہمیت کی حامل ہے ۔المختصر یہ کہ تاریخ کی فضیلت و اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ آج سانحہ مِنیٰ  نے ہمیں بھی مجبور کیا ہے کہ ہم بھی تاریخ اسلام کے ساتھ ساتھ تاریخ آل سعود کی ورق گردانی کریں۔

اس ورق گردانی کی ضرورت ہمیں اس لئے بھی محسوس ہوئی  چونکہ عینی شاہدین کے مطابق ایک سعودی شاہزادے کے پروٹوکول کے باعث جولوگ شہید ہوئے وہ تو ہوئے لیکن بعد میں کرینوں کے ساتھ جس بے دردی کے ساتھ لاشوں کو اٹھایا گیا اس  نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کوئی مسلمان تو شہدا کے جنازوں کے ساتھ اس طرح کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔فرشِ مِنیٰ میں کتنے ہی زخمیوں کو کرینوں نے لاشوں کے کنٹینروں میں پھینک دیا اس کی تو کسی کو خبر ہی نہیں ،چنانچہ آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ  آیا خاندان آل سعوددینِ اسلام کا پیرو کاراور خیر خواہ ہے  یا پھر اس کی فکری بنیادیں کسی اور دین سے جاملتی ہیں !

جیسا کہ کتب توایخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ  محمد بن عبدالوہاب  جب اپنے پیغام کو لے کر عینیہ سے درعیہ پہنچے تو امیر محمد ابن سعود[3] کو اپنے ساتھ ملانے کا ارادہ کیا اور بلاخر  ان  کے بھائی و امیر کی بیگم کی مدد سے ابن سعود کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے۔

 اگر کسی کو تاریخ سے ذرا سی بھی دلچسپی ہے  تو وہ اس بات سے بخوبی آگاہوگا  کہ یہ  امیر محمد بن سعود ہی تھاکہ جس نے خلافت عثمانیہ کی طرف سے مکّے میں موجودہ حاکم شریف حسین  کے خلاف ایک عظیم سلطنت اسلامیہ(  خلافت  عثمانیہ) کو توڑنے کے لیے برطانیہ کا ساتھ دیا[4] اور اس عظیم سلطنت اسلامیہ کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹایا کہ گویا دنیا میں کسی سلطنت اسلامیہ کا وجود ہی نہ تھا ۔   ابن سعود کی ہی  اولاد(خاندان آل سعود )کہ جس کا چھپا ہوا چہرہ آج سانحہ منی میں دنیا کے سامنے آیا ہے اگر اس کو تاریخ کے آئینے میں انسانیت کش خاندان سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا اور سانحہ منی ان کی انسان کشی کا کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کا قتل عام کرنا ،انسانی خون بہانا اور ناحق کسی کے حقوق کو غصب کرنا(کہ جس کی ایک زندہ مثال خاندان آل سعود کی موجودہ حکومت ہے ) ان کا خاندانی ورثہ ہے اور ان کے بزرگوں کی سنت ہے [5]۔

 محمد بن سعود سے لے کر آج سلمان بن عبدالعزیز تک ان کی تاریخ مسلمانوں کے خون سے بھری  پڑی ہے[6] ۔ یاد رہے کہ  فتنہ محمد بن عبدالوہاب ابن سعود کے ہی  زیر سایہ پروان چڑھا[7] ہے اور اسی طرح شیخ نجدی کا وہ جملہ کہ جو اس نے ابن سعود کے متعلق کہا ابھی تک تاریخ کے سینے پر ثبت ہے کہ  میرا بہایا گیا خون تمہارا خون اور میری  تباہی تمہاری تباہی ہے[8]یعنی ابن سعود شیخ نجدی  کے فتنے و تباہی میں برابر کا شریک ہے ۔آل سعود کے سیاہ کارناموں میں سے سب سے پہلا کارنامہ موجودہ ریاض پر حملہ ہے  کہ جس میں عبدالعزیز (جو کہ ابن سعود کا بیٹا تھا) نے انپے فتنہ گر لشکر کے ساتھ ریاض پر حملہ کیا اور وہاں کے موجودہ حاکم ابن دوّاس کو وہاں سے بے دخل کر دیا اور ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں 1700 موحّدین (جو ان کے حامی تھے ) کیونکہ یہ فتنہ گر لوگ اپنے حامیوں کو موحّد جبکہ باقی تمام امت مسلمہ کو کافر سمجھتے تھے )اور 2300 مشرکین (جو ان کے نزدیک مشرک تھے ) مارے گے یعنی 4000 کے قریب عرب مسلم کا خون ناحق ضائع ہوا[9] ۔ جبکہ ان کے دیگر  کارناموں میں سے  امیر الحصاء کے ساتھ ابن سعود کی جنگ [10]، بریدہ پر ظالمانہ حملہ [11]، احساء پر حملہ[12] ( کہ جس میں آل سعود نے یزید کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پانی کے ذخیرہ پر قبضہ کیا اور احساء کے مسلمانوں پر پانی بند کر دیا  ، مجبورا اہل احساء نے ان کی بیعت کی )، پھر وہاں یہ لوگ جسقدر اسلامی اقدار مٹا سکتے تھے مٹایا ، مزارات کو گرایا اسی سال آل سعود نے امام حسن ؑ و جناب طلحہ و دیگر اصحابہ کرام کے مزارات کو مسمار کیا[13] ۔اور یہ وہی  آل سعود ہے کہ جس نے جناب زید بن خطاب (حضرت عمر رض کے بھائی ) کا مزار توڑا یہاں تک کہ اسے زمین کے برابر کر دیا [14]۔پھر انہو ں  نے نجف و کربلا کا رخ کیا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں کہ سال  1214 ھ میں آل سعود  نجد و حجاز سے لشکر کے ساتھ کربلا کی طرف روانہ ہوا  اور یہ ذیقعدہ کا مہینہ تھا کربلا پہنچ کر وہاں دھاوا بول دیا ، گھروں و بازاروں میں  قتل عام کیا ، مزار سید الشہداء ؑ کو منہدم کیا ، تمام چڑھاوے قبّہ ،زمرد ،یاقوت ،سوناو چاندی اور تمام قیمتی سامان ساتھ لے گے تقریبا 2000 مسلمانوں کو قتل کیا [15]۔بالکل اسی طرح شہر طائف بھی ان کے مظالم سے محفوظ نہ رہ سکا ۔

المجد فی تاریخ النجد والا لکھتا ہے کہ عبدالعزیزنے  اپنے ایک عثمان نامی کمانڈر کو سرزمین طائف کی طرف بھیجا  جبکہ طائف کا موجودہ امیر ٖغالب شریف قلعہ بند ہو گیا اور پھر جان بچا کر مکہ بھاگ نکلا  ،عثمان نے طائف پہنچ کر طائف کی گلیوں و بازاروں کو لاشوں سے بھر دیا  ،سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کیا اور مال و متاع ، سونا چاندی لوٹ کر اس کا 5 واں حصہ سلطان عبدالعزیز کو بھیجا [16]۔

جب آل سعود کا اس سب  کے باوجود دل نہ بھرا اور انسانی خون کی پیاس  بڑھی تو آل سعود نے مکّہ و مدینہ جیسے مقدس مقامات  کو بھی نہ چھوڑا ، مکہ[17] پر حملہ کیا اور وہاں بہت سارے مزارات گرائے ،اور مدینہ میں گنبد رسول اکرم ﷺ  کو گرانے کی کوشش کی [18]۔لہذا آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آل سعود کبھی شام میں ، تو کبھی عراق میں ،کبھی بحرین تو کبھی یمن کے مظلوموں کا خون بہاتا ہے  بلکہ انسانی خون بہانا خاندان آل سعود کا شیوہ ہے[19] کہ جسے آل سعود نے مذہبی رنگ و لباس پہنا رکھا ہے ۔ آج عالم اسلام اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ آل سعود اگر شام میں دہشتگرد بھیجے تو خاموشی ، عراق میں مظالم ڈھاہے تو  تحفظ اسلام اور اگر یمن میں مسلمانوں کا نا حق خون بہائے تو دفاع حرمین شریفین کا نام دیا جاتاہے ۔

آج سانحہ منی  ،آل سعود کے مظالم و فتنہ گریوں پر عالم اسلام کی مسلسل خاموشی کا نتیجہ ہے اور اگر آج بھی تمام عالم اسلام و OICنے اپنا کردار ادا نہ کیا تو آئندہ چند سالوں میں عالم اسلام کو اس کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا ۔ آج آل سعود سرزمین نجد میں اندلس کی تاریخ کو پھر دھرا رھے ہیں ۔اندلس (موجودہ اسپین) میں عیسائیوں نے مسلمانوں کی شہ رگ حیات پر تلوار رکھ کر مسلمانوں کو عیسائی  بنایا اور ہاں قانونا اسلامی عقائد اپنانا  ناقابل معافی جرم تھا  نتیجتا اسپین میں عیسائیت بڑھتی گی اور اسلام دم توڑتا گیا  ۔آج نجد میں بھی SAME  ایسا ہی ہو رہاہے موجودہ سعودی عرب میں شیعہ تو دور کی بات مذہب اہل سنت کی نشر و اشاعت بھی جرم ہے  اور جدّہ ائیر پورٹ پر سب سے زیادہ چیکنگ مذہبی لٹریچر کی ہوتی ہے ۔لہذا آج میں عالم اسلام سے اپیل کرتا  ہوں کہ غفلت کی نیند سے بیدار ہواور ہوش کے ناخن لےاور ساتھ ہی OICسے کہ وہ اپنی ذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکالے اور ان عیاش و بے دین لوگوں سے ان مقدس مقامات کو آزاد کرائے۔


[1] جیسا کہ تاریخی اعتبار سے خود سانحہ مِنیٰ کا پیش آنا  اس سے پہلےسالوں 1990 ،1994 ،1998 ،2001 ،2003 ،2004 میں یہ واقعہ پیش آچکا ہے ۔

[2] جیسا کہ آئے روز دہشت گردی کے ہونےوالے واقعات یہ کبھی القاعدہ ، طالبان کی صورت میں سامنے آتے ہیں تو کبھی داعش کی شکل میں ۔

[3] یاد رھے کہ امیر محمد ابن سعود خاندان آلسعود کے بزرگ ہیں ۔

[4] تاریخ نجد و حجاز( مفتی عبدالقیوم قادری)

[5] تاریخ نجد و حجاز   مفتی عبدالقیوم قادری

[6] تاریخ نجد و حجاز باب 4 ،5

[7] سوانح حیات سلطان عبدالعزیز آلسعود ص 42

[8] الدّم بالدّم الھدم بالھدم  ۔ محمد بن عبدالوہاب ص 39، 40 عنوان المجد فی تاریخ النجد ج1 ص12

[9] سردار محمد حسنی (سوانح حیات سلطان عبدالعزیزآلسعود ص 42 ، 43 )

[10] سوانح حیات سلطان عبدالعزیز آلسعود ص43 ، تاریخ نجد و حجاز ص51

[11] ایضاً

[12] تاریخ نجد و حجاز ص56

[13] ایضاً

[14] ایضاً ص46 ،47

[15] ایضا ص 57 ، محمد بن عبدالوہاب ص 77

[16] ایضاً ص214 ، 215 و سانح حیات ص 116 ،117

[17] ایضاًص 186

[18] ایضاً ص 218

[19] جیسا کہ گذشتہ مثالوں میں آپ نے مشائدہ کیا


تحریر ۔ ساجد علی گوندل
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

مماثل خبریں

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree