Print this page

گرینڈ الیکشن ڈبیٹ گلگت بلتستان || رسول میر

29 اکتوبر 2020

وحدت نیوز: بلتستان کے افق پہ اگرچہ علمی حوالے سے بڑے بڑے دانشور اور علماء کرام طلوع ہوتے رہے ہیں لیکن سیاست کا آسمان اس حوالے سے بانجھ رہا ہے- بے صلاحیت , کرپٹ اور کاہل قسم کے افراد نمودار ہوتے اور چمکنے سے پہلے کرپشن , اقربا پروری اور لوٹ کھسوٹ کے تاریکیوں میں معدوم ہوتے رہے ہیں-

پچھلے دنوں بلتستان یونیورسٹی میں نمائندوں کی مباحثے میں ایک نوجوان سیاست دان میثم کاظم کا چرچا عام ہوا تھا- ارض شمال کے معروف دانشور حسن حسرت جیسے عظیم علمی شخصیات کی بہترین تاثرات سن کر اس پروگرام میں عدم شرکت پر کف افسوس مل رہا تھا اتنے میں گلگت بلتستان اویرنس فورم کے زیر اہتمام ایک عظیم مباحثے کی خبر گردش کرنے لگی رابطہ کیا تو کہا گیا کہ حلقہ دو میں چار سے زائد نمائندے میدان سجھائے بیٹھے ہیں لہٰذا عوامی مقبولیت دیکھ کر کسی ایک کو موقع دیا جائے گا-

 دل ڈوپ سا گیا اور بدلی کے ساتھ انتظار کر رہا تھا اتنے میں فیس بک پہ ایک پوسٹ نگاہوں سے گزری جس میں بلتستان کے سینیر سیاست دانوں کے ساتھ نوجوان لیڈر میثم کا نام بھی منشن کیا ہوا تھا-

بس کیا تھا شدت سے انتظار کرنے لگا پھر طے شدہ شیڈول کے تحت پروگرام میں شرکت کا موقع ملا اگرچہ میں دیر سے پہنچا تھا- پنڈال میں عوام کی شرکت قدرے کم تھی لیکن سٹیج تمام پارٹیوں کی نمائندوں سے بھرا ہوا تھا-

سٹیج پہ ایک محترم نمائندہ گفتگو کر رہے تھے- غالباً میرے نشست سنبھالتے ہی جناب میثم کاظم کو گفتگو کی دعوت دی گئی ویسے مجاہد ملت آغا علی رضوی کی وجہ سے میثم کاظم کے ساتھ ایک خاص تعلقات تھیں لیکن معروف دانشور  جناب حسن حسرت صاحب کی تاثرات نے جس تجسس کو جنم دیا تھا اس کی تسکین شروع ہوگئی-

درمیانہ قد , وجیہ چہرہ , وضع قطع میں اسلامی اور شکل سے طفل مکتب لگتا تھا مگر جب گفتگو شروع کی تو گویا میٹھی بول کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا- حلیم طبیعت , دھیما لہجہ , جچی تلی انداز , نپی تلی باتیں , شستہ بیانی اور مدلل گفتگو  ایسی کہ مفہوم کی لڑی میں الفاظ کے ہیرے پرویا جا رہاہو-
پانچ منٹ کی گفتگو میں سامعین سمیت سٹیج پہ موجود اپنے رقیبوں کو فصاحت کی جادو میں جکڑ لیا-

 سینئر سیاست دان حاجی اکبر تابان نے جہاں آپ کے سیاسی نظرئے کو آڑے ہاتھوں لیا وہاں آپ کی مسحورکن شخصیت کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکا حاجی صاحب نے کہا کہ میں کاظم میثم جیسے باصلاحیت نوجوان کی میدان سیاست میں اترنے کو سیاست کی باب میں ایک خوبصورت اضافہ سمجھتا ہوں-

میثم کاظم نے پیپلز پارٹی کا نظریاتی جیالہ سابق وزیر اعلٰی گلگت بلتستان جناب سید مہدی شاہ کی طرف ادب اور مروت کے پرائے میں لپیٹ کر کئی وار کیا پھر بھی شاہ صاحب  نے سر عام تسلیم کیا کہ کاظم میثم گفتگو میں کمال رکھتے ہیں- دوران مباحثہ شاہ صاحب قلت وقت کی وجہ سے اٹھ کے چلے گئے پنڈال سے نکلتے ہوئے آپ مزاقاً کہ رہے تھے کہ چلو ورنہ میثم کاظم تباہی پھیر دینگے-

جب سوالات کا سیکشن شروع ہوا  تو پوری محفل میں آپ توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا- دوسری جانب مجلس وحدت مسلمین اور تحریک انصاف کا مشترکہ امیدوار ہونے کی وجہ سے تند و تیز سوالوں کا رخ بھی زیادہ تر آپ کی طرف تھا-

بڑا عجیب بندہ تھا- اتنی سخت سوالات اور اعتراضات پوری توجہ اور دلجمعی سے سنتے رہتے اور جواب سے پہلے ہی سینے پہ ہاتھ رکھ کر ایک خوبصورت مسکراہٹ کے زریعے سوال کی تلخی اور سائل کی دشمنی دونوں کو یکدم ختم کر دیتے تھے اور جب جواب دینا شروع کرتے تو سوالات کا کائہ پلٹ دیتے تھے- اس کے علاوہ  سائل کا دل جیتنے کا ہنر سے بھی خوب واقف تھے- جوابات ایسی مدلل , مختصر مگر جامع و قانع ہوتی کہ مجمع تالیاں بجاکر داد دینے پہ مجبور ہوجاتا-

جب آپ سے پوچھا گیا کہ جب وفاق میں مذہبی جماعتوں کی حکومت نہیں بن سکتی تو آپ عوامی مسائل کیسے حل کر سکتے ہیں تو آپ نے جواب دیا کہ مسائل حل کرنے کے لئے وفاقی حکومت نہیں عوامی درد ہونی چاہئے-

عوام کا درد ہو تو پھر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری جیسا لیڈر  اسمبلی سے باہر رہ کر بھی اسلم رئیسانی جیسے ظالموں کی حکومت کو ٹھوکروں سے گرادیتے ہیں-

عوام کا درد نہ ہو تو  پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت گندم سبسڈی ختم کردیتا جبکہ  آغا علی رضوی جیسا عوامی درد رکھنے والا لیڈر  اسے چھین کر واپس لاتا ہے-

عوام سے ہمدردی نہ ہو تو ن لیگ کی وفاقی حکومت ٹیکس لاگو کرکے عوام کے منہ سے نوالہ چھین لیتی ہے اور آغا علی رضوی جیسا ہمدرد لیڈر اس وفاقی حکومت کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کرکے ٹیکس ختم کر دیتے ہیں-

مباحثے کے دوران ایک جگہے پہ میثم کاظم نے ایسی سننسہ خیزی پیدا کردی کہ تمام نمائندوں کی بولتی بند ہوگئی - نمائندے دم بخورد رہ گئے اور سامعین کی تالیوں اور داد کی آواز سے پنڈال گونجنے لگی یہ وہ مرحلہ تھا جب آپ نے تمام نمائندوں کو چیلنج کردیا کہ میں اپنی جماعت کی ضمانت دیتا ہوں اگر سارے نمائندے اقتدار کے بجائے عوام سے مخلص ہے تو اسی محفل میں عوام مسائل اور مطالبات کی ایک فہرست بناکر ریاست پاکستان کو پیش کرتے ہیں جب تک ان عوامی مطالبات اور مسائل کو حل نہ کریں ہم سب الیکشن سے بائیکاٹ کرتے ہیں-

کسی بھی عوامی نمائندے نے اس چیلنج کو تسلیم نہیں کیا اور عوام پہ ثابت ہوگیا کہ کون عوام سے مخلص ہے اور کون اقتدار کی پوجاری- یوں میثم کاظم نے اقتدار اور اقدار کی سیاست کے درمیان واضح لکیر کھینچ کر عوام کو بیدار کردیا-

پروگرام ختم ہوا تو حقیقی لیڈر کی متلاشی نوجوان نسل سلفی لینے کے لئے ٹوٹ پڑے میں گیٹ پر گھڑا جوانوں کی جزبات اور چہ میگوئیاں سن رہا تھا- پنڈال کے اندر ایک سائٹ پہ حلقہ 1 سکردو کے کچھ جوان آپس میں بحث کر رہے تھے-
"حلقہ دو والے بہت خوش نصیب ہے کہ اُن کو میثم کاظم جیسا لیڈر ملا ہے کاظم میثم کو چھوڑ کر کسی اور کو ووٹ دینا اُن کی بے وقوفی ہوگی-"

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree