وحدت نیوز(آرٹیکل) ہر دینی دارہ اللہ کا گھر ہے۔وہ مسجد ہویا مدرسہ، اہل ایمان کے لئے مقدس اور محترم ہے۔کچھ عرصہ پہلےایک مدرسے کے مدیر صاحب انتقال کرگئے،عوامِ علاقہ کو مدرسے کی دیکھ بھال کی سوجھی،قوم کے ہمدرد جمع ہوئے،مولانا مرحوم کی خدمات کو سراہاگیا،مدرسے کی آمدن کا اندازہ لگایاگیا اور پھر مدرسے کو از سرِ نو فعال کرنے کے لئے سوچ بچار کی گئی۔مدرسے کو فعال کرنے کے لئے مدیر کی ضرورت تھی۔مسئلہ بن گیا کہ اب مدرسے کا مدیر اور وارث کسے بنایاجائے۔!؟
اتفاق سے مولانا مرحوم کی کوئی اولاد نہیں تھی ،چنانچہ مولانا مرحوم کے ایک دور کے رشتے دار کو ڈھونڈا گیا ،پھر انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے راضی کیا گیا ،جب وہ راضی ہوگئے تو انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایک دینی مرکز میں داخل کروادیاگیا۔
اب جب تک کچھ لکھ پڑھ نہیں جاتے اس وقت تک اس مدرسے کو چلانے کے لئے حوزہ علمیہ قم کی ایک فاضل شخصیت کو عارضی طور پر مدرسہ چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
اس واقعے سے جہاں ہمارے ہاں عوام کے دلوں میں علما کےاحترام کا پتہ چلتاہے وہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ دینی اداروں کو موروثی سمجھتے ہیں ۔لوگوں کے نزدیک ایک دینی مدرسہ ،مولانا صاحب کی ذاتی پراپرٹی ہوتا ہے لہذا اسے نسل در نسل مولانا صاحب کی نسل میں آگے منتقل ہونا چاہیے۔
اسی طرح بہت سارے لوگ سھم امام اور مال امام سے ادارے بناتے ہیں اور یاپھر خمس و صدقات جمع کرکے دینی اداروں کی بنیاد رکھتے ہیں اور ساتھ ہی قانونی کاروائی کے دوران خود ہی ان اداروں کے تاحیات سرپرست اور متولی بنتے ہیں اور بعض اوقات قانونی کاغذوں میں اپنی آئندہ نسلوں کو بھی ہمیشہ کے لئےمتولی درج کرواتے ہیں۔
بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت ساری مساجد کے کلین شیو اور بے نمازی متولی بھی دیکھنے کو ملتے ہیں،ایسے متولی جو پیش نماز کو ایک ملازم سے زیادہ اور مسجد کواپنی پراپرٹی سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتے۔اگر کہیں مسجد کا متولی خود پرہیزگار بھی ہو اور وہ مسجد کو اپنی پراپرٹی نہ بھی بنانا چاہے تو اس کے باوجود بھی لوگوں کی شعوری حالت یہ ہے کہ لوگ اس کے بعد اس کے بیٹے کوہی مسجد کا متولی بنانے میں اپنی نمازوں کی قبولیت سمجھتے ہیں۔
آپ تھوڑا سا آگے بڑھیں اور اپنے ہاں منعقد ہونے والی دینی محافل و مجالس کے بانیان پر ایک نگاہ ڈالیں،ان میں سے بھی بہت سارے آپ کو براہ نام دیندار ،کلین شیو اور مجالس و محافل کو اپنے سٹیٹس کے لئے منعقد کروانے والے ملیں گے۔
بات آگے ہی بڑھ رہی ہے تو ذرا ان لوگوں کی بات بھی ہوجائے جن کا کوئی ذریعہ آمدن مشخص نہیں ہے اور انہوں نے اپنا ذریعہ معاش ہی دینی اداروں کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرنا بنا رکھا ہے۔انہوں نے برائے نام ٹرسٹ بھی بنا رکھے ہوتے ہیں تاکہ کوئی آڈٹ اور چیک اینڈ بیلنس کی بات نہ کرے،چنانچہ کتنی ہی مساجد،مدارس اورامام بارگاہوں کے چندے سالہاسال اکٹھے ہوتے رہتے ہیں اور وہ ادارےہمیشہ زیر تعمیر ہی رہتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے لوگ بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور جدید تعلیمی ادارے بنانے کی باتیں بھی کرتے ہیں حالانکہ خود انہیں جدید تعلیم کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی اوراگر یونیورسٹی یا کالج بنوانے کا حربہ کارگر نہ ہوتو پھر مساجد و مدارس کی تعمیر کے لئے ڈونرز کی تلاش میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔
بعض دینی اداروں اور ٹرسٹ وغیرہ کی تو یہ صورتحال ہے کہ وہ پہلے سے ہی یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ ہمیں عادل سمجھیں اور آنکھیں بند کرکے ہماری مددکریں اور اس کے بعد یہ نہ پوچھیں کہ ہم خرچ کہاں پرکرتے ہیں۔ان کے بقول آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ ہم عین عدالت کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔چنانچہ ہمیں اپنے ملک میں جس مقدار میں فطرانہ،قربانی کی کھالیں اور دیگر صدقات و خیرات جمع کرنے والے ادارے نظر آتے ہیں ،اس طرح غربا میں صدقات تقسیم کرتے ہوئے نظر نہیں آتے اور اگر کہیں پر غربا کی مدد ہوبھی تو چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا کہ جمع آوری کتنی ہوئی اور تقسیم کتنی ۔۔۔
بلکہ غربا کی مدد کرنے والے اداروں میں کلیدی شخصیات جس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں اکثر بجٹ بھی اسی علاقے میں انہی کے عزیزوں،دوستوں اور رشتے داروں پر ہی صرف ہوجاتاہے۔آج کے دور میں اکثر اوقات مسجد کی تعمیر سے لے کر سکالر شپ کے حصول تک عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں رہی ، چنانچہ اب اسی کے علاقے میں شاندار مسجد بنتی ہے اور اسی کو دینی داروں کی طرف سے سکالرشپ ملتا ہے جس کے کہیں نہ کہیں تعلقات ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایسے میں ہمارے ہاں ایسے مخلصین کی بھی کمی نہیں جو ہر طرح کی منفعت سے بالاتر ہوکر خدمت دین کررہے ہیں۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں جائیداد،آمدن اور موروثیت سے بالاتر ہوکر کام کرنے والے مخلص اداروں،ٹرسٹیز اور بانیان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ موروثیت اور بیت المال کے غلط استعمال کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھیں،اسی طرح عوام اور خصوصا ڈونرز حضرات کی بھی شعوری سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہر دینی ادارہ مقدس اور محترم ہے لیکن ڈونرز حضرات کو یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ادارہ کسی شخص یا خاندان کا ذریعہ آمدن ہے یا پھر ملک و ملت پر خرچ کرنے اور دین کی خدمت کرنے کا وسیلہ ہے۔
ملک و ملت کی ہدایت اور فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنے والوں کو یہ بھی سوچناچاہیے کہ بنجر زمینوں پر بارش برسنے سے سبزہ نہیں اگا کرتا۔اگر ہم اپنی ملت کی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو پھر تحقیق کرکے اور آنکھیں کھول کر ہی صدقات و عطیات جمع کروانے چاہیے۔
آخر میں مخیر اور ڈونرز حضرات سے دست بستہ یہ عرض کرتا چلوں کہ بیت المال اگر صحیح ہاتھوں تک پہنچے گا تو اس کا استعمال بھی صحیح ہوگا اور جب بیت المال کا استعمال صحیح ہوگا تو ہماری ملی حالت بھی سدھرے گی۔
تحریری۔۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.