بکر۱ اور بکرے کی رسی

13 اکتوبر 2014

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک)بکرے کی سادگی کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ ، جس نے رسی میں ہاتھ ڈالا یہ بچارا اس کے ساتھ چل پڑابغیر یہ سوچے سمجھے کہ رسی کسی چور کے ہاتھ میں ہے یا قصاب کے ہاتھ، اصلی مالک کے ہاتھ ہے یا کسی خریدار کے ہاتھ نہ ہی یہ سوچا کہ آگے جا کے یہ مجھے ذبح کرے گا یا بیچ دیگا بس ایک چال بے فکری کے ساتھ چلا جا رہا تھا ۔ جب نظر رسی پر پڑی تو اس کی بناوٹ سے نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی رسی کی خوبصورت بناوٹ پر بکرا بھلے ہی غو ر نہیں کر رہا تھا مگر دیکھنے والوں کے لئے وہ دلفریب تھی اور شاید وہ خوبصورت رسی بکرے کے فلاح و بہبود کے لئے نہی بنی تھی بلکہ دیکھنے والوں کے بہلاوے کے لئے ہی بنائی گئی تھی چلتے چلتے اگر کبھی فطری طور پر کوئی بکرا سرکشی کرتابھی تھا تو چارا دیکھ کے یا ہانکنے والے کی ہانک سن کر پھرچل پڑتا ، کہ اتنے میں ہمیں نظر آیا کہ یہ صفت صرف ایک بکرے میں نہیں بلکہ ایسی صفات کے حامل تو بہت سے اور بھی ہیں اور ایسی صفات کے حیوانوں سے پوری منڈی بھری پڑی ہے جہاں کسی کو نہ اپنی فکر تھی اور نہ ہی اپنے جیسے دوسروں کی ، اس منڈی میں فرق صرف قیمت اور جسم کی بناوٹ کی وجہ سے تھا کوئی بکرا بیل سے مہنگا تو کوئی بیل بکرے سے سستا۔



اس منڈی میں ایک طرف خریدار تھے تو دوسری طرف بیچنے والے بیوپاری ،بکروں بچاروں سے کوئی کچھ نہیں پوچھ رہا تھا کہ آیاوہ اس قیمت پر بکنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں تب ہمیں یہ احساس ہوا کہ جانوروں کے ایسے حقوق نہیں ہوتے اور یہ اسی طرح خریدے اور بیچے جاتے ہیں پھر سوچایہ رسم تو صدیوں سے یونہی چلی آرہی ہے یہاں پر خریدار کی کوئی اھلیت نہیں د یکھی جاتی ہے ، سوائے اس کے کہ اس کے پاس قیمت کے مطابق پاور آف پرچیز ہونا چاہئے یہ سب سوچتے ہوئے نہ جانے کیوں میری سوچ بار بار اپنے وطن میں رہنے والے لوگوں کی طرف جا رہی تھی کہ جہاں بہت سے انسانوں نے ان بکروں جیسا رویہ رکھا ہوا ہے کہ نہ تو وہ اپنے خریدار کو جانتے ہیں نہ اپنے بیو پاری کو اور نہ ہی اپنی قیمت سے آگاہ ہیں بس ایک خاص چال بے نیازی کے ساتھ چلے جا رہے ہیں بغیر یہ سوچے سمجھے کہ میرے ساتھ یا میرے جیسوں کے ساتھ آگے جا کر کیا ہونے والا ہے اے کاش کہ یہ بکرے نما انسان اپنے حقیقی مالک کو پہچان لیں اور اپنی قیمت سے آگاہ ہوجائیں تو نہ صرف خود خریداروں اور بیوپاریوں ، چوروں اور قصابوں سے بچ جائیں گے بلکہ اپنے جیسے کئی انسانوں کی نجات کا باعث بھی بن جائیں گے ۔ او ر یہ پہچان ناممکن نہیں بلکہ کسی حد تک آسان ہے بس اس پہچان کی ابتداء گلے میں پڑی رسی سے کرنی چاہئے کہ وہ کس کے ہاتھ میں ہے کسی بیوپاری کے ہاتھ ، کسی خریدار کے ہاتھ، کسی چور کے ہاتھ ،کسی قصاب کے ہاتھ یا مالک حقیقی کے نمائیندے کے ہاتھ اب یہ کیسے پہچانیں کہ رسی کس کے ہاتھ میں ہے تو ہمیں غور کرنا پڑے گا کہ اگر ہم نے فقط مالی فائدے کے لئے کسی کی اطاعت کی ہے تو ہم نے اپنی رسی بیوپاری کے ہاتھ میں دی ہے اگر ہم نے نفس کی کسی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کسی کی اطاعت کی ہے تو ہم نے اپنی گردن میں بندھی رسی کسی خریدار کے ہاتھ دی ہے جس نے اس خواہش کے بدلے ہمیں خرید لیا ہے اگر ہم کسی اخلاقی کمزوری کی وجہ سے کسی کی اطاعت کررہے ہیں تو رسی ہم نے چور کے ہاتھ میں دی ہے اگر کسی کی طاقت سے مرعوب ہوکر اطاعت کررہے ہیں تو رسی قصاب کے ہاتھ میں دی ہوئی ہے ۔ اور اسی طرح باقی غلامیوں پر بھی غور کرتے جائیں۔اور اگر ہم ان بیوپاریوں،خریداروں ،چوروں، قصابوں سے اپنی گردن میں پڑی رسی چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو مالک حقیقی کی رحمت کا سایہ خودہی آجائے گا اور ہمیں اس کے لئے مزید کسی زحمت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ورنہ ہماری حالت بکروں جیسی ہی رہے گی اور ہم ان شکم پرستوں کے دسترخوانوں کی زینت بنتے رہیں گے اور کئی مقامات پر بکرے ہم سے افضل رہیں گے قربانی کے لئے ذبح کئے گئے بکرے اپنے زندگی کے اعلیٰ مقصد تک پہنچ جاتے ہیں مگر ان سیاستدانوں کے پیچھے دوڑنے والے بکرے نما انسانوں کو مقصد حیات کے ساتھ ساتھ کمال انسانیت و شرف انسانیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے اور پاکستانی عوام کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگی اور رائیونڈ میں ستر کھانوں کے دسترخواں سجائے جائینگے لوگ سیلاب میں ڈوب رہے ہونگے اور نانا ،باپ اور بیٹا نسل در نسل پانی میں پاوٗں بھگو کر سیاسی ہیرو بنتے رہیں گے،لوگ شہروں میں ٹارگیٹ کلنگ سے اور بم دھماکوں سے مارے جائیں گے اور یہ بیوپاری ا پنی سیکیورٹی پر کروڑوں روپیہ خرچ کرتے رہیں گے پاکستان میں بے گناہ مرنے والوں کا اور ان کے یتیموں کا کوئی مداوا کرنے والاپراسان حال بھی نہیں ہوگا اور ان کی سیکیورٹی اورشاہانہ اخراجات ان بکروں کی کھال اتار کر بھی پورا کیا جائے گا ان مسائل اور ان جیسے مسائل کا حل فقط مسائل کا رونا رونے سے نہیں ہوگا بلکہ اس کی ابتداء اپنے گلے میں بندھی رسی کواتار پھینکنے سے کرناہوگی ورنہ مشاہدہ اور تاریخ بتاتی ہے کہ ہم ان کے دھوکوں میں نسل در نسل آتے رہے ہیں اور اب بھی اس دلفریب رسی کو اپنے گلے میں لٹکائے ہوئے بکروں سے بد تر زندگی گذار رہے ہیں۔اگر میری باتوں کا یقین نہ آئے تو گذشتہ دنو ں گرفتار ہونے والے ٹارگیٹ کلر کا بیان سن لین کہ جس نے کہا تھا کہ10000 سے 15000 روپیہ ماہانہ پر وہ انسان کا قتل کرتا تھا جبکہ ان تیں دنوں میں بکرے کا ٹنے والے بھی کم سے کم 200000 کمالیتے ہیں اب اس سے اندازہ لگائیں کہ بکرے کے گلے میں بندھی رسی نے اس کی قیمت بڑھا دی ہے اور انسان کے گلے میں بندھی رسی نے اس کی قیمت کتنی گھٹا دی ہے۔



تحریر:عبداللہ مطہری



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree