وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 18 مارچ کو حکومتی ایوانوں میں عوامی غیظ و غضب اور غم و غصے کی آواز پہنچ جائے گی اور یہ مجبور و محروم عوام کا پہلا قدم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے وعدے اور دعوئے صرف اور صرف انتخابات کو یرغمال بنانے کے لیے تھے، اگر صوبائی اور وفاقی حکومت گلگت بلتستان سے مخلص ہے تو گلگت اسکردو روڈ کا ٹینڈر ہی منسوخ کیوں کیا، عوام نے مینڈیٹ ترقیاتی پروگراموں کو ختم کرنے کے لیے نہیں دیا تھا بلکہ ترقیاتی کام کرنے کے لیے دیا تھا، اسی طرح آئینی حقوق کا مسئلہ جو کہ نہایت اور آسان مسئلہ ہے اسے جان بوجھ کر پیچیدہ بنایا جارہا ہے۔ مسلم لیگ نون کی وفاقی اور صوبائی دور حکومت میں بھی آئینی حقوق ملنے کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔

آغا علی رضوی نے کہا کہ اکنامک کوریڈور میں جس انداز میں گلگت بلتستان کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے انتہائی شرمناک اور افسوسناک عمل ہے، مقتدر اداروں کو چاہیے کہ گلگت بلتستان کو اکنامک کوریڈو میں متناسب حصہ دیا جائے۔ پوری دنیا کی نگاہیں اس وقت اکنامک کوریڈور پر ہے اور اس کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدم مساوات اور ظلم کے نتیجے میں اکنامک کوریڈور کو نقصان پہنچا تو تمام تر ذمہ داری مسلم لیگ نون کی وفاقی اور صوبائی حکومت پر عائد ہوگئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی انتہائی دوغلی پالیسی ہے کہ ایک طرف آئینی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں اور دوسری طرف ٹیکس نافذ کیا جاتا ہے۔ ان تمام مظالم کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہوچکی ہیں اور مزید کسی ظالم حکومت کو ظلم کرنے نہیں دیں گے، اٹھارہ مارچ کے اجتماع کو کامیاب اور پر امن بنانے کے لیے پوری عوام سڑکوں پر نکل آئیں۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے رہنما اور رکن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کاچوامتیاز حیدرخان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کو متناسب حصہ نہ دیا گیا تو جو حالات پیش آئیں گے اس کی ذمہ داری صوبائی اور وفاقی حکومت پرعائد ہوگی۔ گلگت بلتستان کے عوام کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ عوام ایسا اقدام اٹھانے پر مجبور ہوجائے جسکے نتیجے وطن عزیز کا سب سے بڑا منصوبہ تعطل کا شکار ہو۔ سی پیک کمیٹی میں گلگت بلتستان کو نمائندگی نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ جی بی کے حصے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ شریف برادران کے قصائد پڑھنے والے بتائیں کہ بلیک اینڈ وائٹ میں سی پیک میں جی بی کے لیے کیا ہے اور سی پیک کمیٹی میں نمائندگی کیوں نہیں ہے۔ اکنامک کوریڈور نہ پورے ہونے والا خواب بننے سے قبل گلگت بلتستان کے محرومیوں کا ازالہ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دیامر کے غیور عوام، غذر کے عوام، ہنزہ نگر کے عوام اور گلگت بلتستان کے عوام اپنے حقوق چھیننے کے لیے تیار رہیں، موجودہ حکومت سے حقوق ملنا ممکن نہیں ہے۔ اگر گلگت بلتستان کے عوام کسی قسم کی سازش کا شکار ہوئے بغیر متحد ہوجائیں تو کسی بھی غاصب کی ہمت نہیں ہوگی کہ جی بی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے۔ گلگت بلتستان کی صوبائی اور وفاقی حکومت اکنامک کوریڈور میں حصہ کے نام پر لولی پاپ دینے کی کوشش کرے گی اور عوام کو تقسیم کرکے اپنا الو سیدھا کرے گی، جس کے لیے عوام کو ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ میں گلگت بلتستان کے غیور عوام سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے حقوق کے لیے حصول کے لیے میدان میں نکلنے کے لیے آمادہ رہیں، بغیر کسی رنگ و نسل اور فرقے کی تمیز کے سب بھائی بھائی بن کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس موقع پر بھی عوام خاموش رہے اور صوبائی حکومت کی جھوٹی تسلیوں اور کھوکھلے دعووں پر یقین کرتے رہے تو آنے والی نسلیں ہمیں نہیں بخشیں گی۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے رہنماء اور ممتاز سماجی کارکن جی ایم پاروی نے اسلام آباد میں ڈاکٹر کاظم سلیم سے ملاقات کی اور بلتستان خصوصاً کھرمنگ کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر گفتگو کی۔ ملاقات میں جی ایم پاروی نے کھرمنگ میں مسلم لیگ نون کے بعض عناصر کی طرف سے سرکاری محکموں میں بے جا مداخلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار مافیا پچھلے پانچ سال پیپلز پارٹی کا پلیٹ فارم استعمال کرکے کرپشن اور لوٹ مار کرتے ہے، اب یہ لوگ نون لیگ کی حکومتی چھتری استعمال کرکے اپنی کرپٹ روایت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور محکمہ تعمیرات عامہ کے بعض کرپٹ آفیسران سے ملکر سرکاری ٹھیکوں میں بندر بانٹ کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نون لیگ نے فوٹو سیشن کے ذریعے کھرمنگ کو جنت بنا دیا ہے لیکن عملی طور کارکرگی صفر ہے۔ تقریبا سال گزرنے کو ہے لیکن سیلاب متاثرین کی ابتک بحالی نہیں ہوسکی، بعض جگہوں پر اپنی پارٹی کے لوگوں کو نوازنے کیلئے غلط سروے کے ذریعے کروڑوں کے تخمینے بنوائے گئے۔ ڈاکٹر کاظم سلیم نے اس موقع پر کہا کہ کرپشن اور بدعنوانی معاشرتی بیماری ہے، اس کا تعلق کسی خاص پارٹی سے نہیں بلکہ بیمار لوگ ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرہ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرے تاکہ معاشرے میں اچھی روایات کو پنپنے کا موقع مل سکے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ من حیث القوم ہم سب کی بدبختی ہوگی۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) انسانی زندگی میں  تعلیم و تربیت کی ضرورت و اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ علم انسان کو انسانیت سکھاتا ہے،اخلاقیات کی تربیت دیتاہے ۔علم کے بغیر انسان جانوروں جیسا ہوجاتا ہے،جیسا کہ امام غزالی  فرماتے ہیں : "بے علم کو انسان اس لیے قرار نہیں دیا  جا سکتا کیونکہ جو صفت انسان کو تمام جانوروں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ علم ہی ہے ، انسان کو مرتبہ ومقام علم ہی کی وجہ سے ملا ہے "۔تعليم کی  اہميت  ايک عام انسان کے خیال میں یہ ہے کہ تعليم اس ليے ضروری ہے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے ميں مددگار ہوتی ہے- يہ صحيح ہے کہ تعليم آدمي کے ليے ملازمت  اور معاش ميں مددگار ہوتی ہے مگر تعليم کی اصل اہميت يہ ہے کہ تعليم آدمی کو باشعور بناتی ہے- تعليم آدمی کو اس قابل بناتي ہے کہ وہ باتوں کو اس کي گہرائي کے ساتھ سمجھے اور زيادہ نتيجہ خيز انداز ميں اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کر سکے-

 تعلیم و تربیت کی اہمیت سے انکار ممکن ہی  نہیں، انسانیت کیلئے  تعلیم و تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ پر اللہ کی طرف سے جس پہلی آیت کا نزول ہُوا اسکی ابتدا بھی ’’اقرا‘‘ یسے ہوئی۔  تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد معرفتِ ذات ہے یہ انسان اور اس کی ذات کے درمیان ایسا پُل ہے جس کے قائم ہونے سے انسان کی شخصیت کی تجدید اور نکھار کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور پھر انسان کی شخصیت روحانیت کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب  تعلیم و تربیت کو خدا کے لیے اور معرفت حق کے لیے حاصل کریں لیکن اگر  تعلیم و تربیت کو صرف مادی ضروریات کی حصول کے لیے حاصل کریں تو معاشرے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔

  تعلیم و تربیت یافتہ افراد ہی مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں اور پھر پڑھے لکھے معاشروں کے گلستان میں بڑے بڑے علمی شخصیتوں کے  پھول کھلتے ہیں۔ افراد ہی چونکہ زمانوں کے نمائندے ہوتے ہیں اس لئے جن معاشروں میں دانشور، محقق اور مدبر ابھر کر سامنے نہیں آتے وہ معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 تعلیم و تربیت یافتہ معاشروں میں افرادمقصدِ حیات، آخرت کی تیاری، حقوق اللہ ،حقوق العباد  اور آداب اسلامی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ۔ ان چیزوں کا شعور  تعلیم و تربیت سے اُجاگر ہو تا لیکن  تعلیمی  اسناد کے حصول کے بعد بھی اگر کوئی انسان مقصدِ حیات کو سمجھنے سے قاصر رہے ، اپنے روحانی دریچوں کے اندر جھانکنے کی اہلیت سے عاری ہو،آداب اسلامی کو اہمیت نہ دے ،معاشرتی زندگی میں بڑوں کا احترام نہ کرے ،چھوٹوں سے شفقت کا مادہ نہ ہو  تو سمجھ لیں کہ اس نے تعلیمی ڈگری تو حاصل کی ہے لیکن اپنی تربیت نہیں کی۔

بدقسمتی سے پچھلے68 سالوں میں ہم نے  تعلیم کے ہمراہ  تربیت کو اہمیت بالکل نہیں دی اس لئے  تعلیم و تربیتی لحاظ سے گلگت بلتستان کا شمار دنیا کےدور افتادہ علاقوں  میں ہوتا رہا۔ ہمارے  تعلیم و تربیتی  نظام سیاسی نمائندوں کے سیاست کی نذر ہوگیا ہے ، اس وقت کرپشن کا سب سے بڑا منبع ہمارا محکمہ ایجوکیشن ہے ، ہمارے نظامِ  تعلیم میں استادوں کا  Skill Development کی طرف کوئی دھیان نہیں ۔ صرف بچوں کو سکول بھیجنا کافی سمجھ لیا گیاہے ۔

اگرچہ ہمارے بعض بزرگوں کے مطابق"  گلگت بلتستان میں  تعلیم و تربیتی انقلاب آگیا ہے " ان کی  بات  اس زاویے سے توبلکل صحیح ہے  کہ سکولوں میں بے حساب اضافہ ہوا ہے ،ہر کوئی اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں بھیجنے کی کوشش کررہا ہے ۔لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ  کیا یہی  تعلیم و تربیتی انقلاب ہے ؟
کیا  تعلیمی انقلاب سکولوں کے زیادہ ہونے کو کہتے ہیں ؟  کیا انقلاب کے لیے عمارتوں  کی بہتات کافی ہے یا کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہے ؟
میرے خیال میں ہرگز ایسی بات نہیں ہے  ابھی انقلاب نہیں آیا بلکہ  تعلیم و تربیتی میدان میں انقلاب لانے کی ضرورت  اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ہے جب تک سرکاری اورپرائیوٹ سکولوں میں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور ہماے معاشرتی ضرورت کے مطابق نظام  تعلیم و تربیت رائج نہیں ہونگا ،جب تک  تعلیم و تربیت کو عام کر کے مساویانہ انداز میں فراہم نہیں کرینگے  اور جب تک  تعلیم و تربیت کو ذریعہ معاش بنانے والوں سے چھین کر حقیقی اور لائق و فائق افراد کے ہاتھوں میں سپرد نہیں کرینگے ،بچے میں خود اعتمادی، اپنی دلیل کیلئے الفاظ کے چناو کا ڈھنگ دوسروں سے اختلاف کرنے کے آداب اور  بزرگوں سے ملنے کے آداب  اور شائستگی  جو کہ مقصد  تعلیم و تربیت ہے نہیں سیکھائینگے انقلاب نہیں آسکتا ۔

موجودہ نظام  تعلیم ،عدمِ تربیت  کی وجہ  سے پہلے سے کہیں زیادہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے ۔ایسی ایسی برائیاں  جنم لے رہی ہیں کہ جن کاماضی میں نام و نشان تک نہیں تھا۔
ہمارے بزرگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت ہماری  تعلیم و تربیت Subject Based  پرہے Concept Based   نہیں یعنی ہم بچوں کو مضمون یاد کروا دیتے ہیں اس مضمون کے اندر پنہاں اسباق اور فلاسفی پر زور نہیں ۔

پورے پاکستان خصوصاً گلگت بلتستان کے معاشرے میں نام نہاد ترقی کی طلب اور دکھاوے کی ڈگریوں نے  معاشرتی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ۔ بہر حال یہ ایک  حقیقت  ہے کہ  مختلف حکومتیں  تعلیم و تربیتی  اصلاحات کی پالیسی  بناتی رہی ہیں اور پھر یہ پالیسیاں بھی حکومتی مفادات کی نظر ہوتی چلی گئی ہیں۔ اگر ان پالیسیوں  کو سیاسی مفادات سے بالاتر رکھ گر اجرا کیاجائے تو امید ہے کہ اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔

تحریر۔۔۔۔۔۔سید قمر عباس حسینی

وحدت نیوز (آرٹیکل) فلسطین مظلومیت اور استقامت کی علامت ہے۔فلسطین کی طرح ایک مظلوم منطقہ پاکستان میں بھی ہے۔ گلگت  و بلتستان کا شمار جہاں ملک کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے  وہیں بدقسمت ترین مناطق میں بھی ہوتا ہے۔ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے اور بلندترین انسانی بستیوں کی تہذیب و تمدن سے آشنا ہونے کیلئے ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح اس علاقے کا رخ کرتے  ہیں۔

 گلگت بلتستان بلند و بالا پہاڑوں ، سرسبزو شاداب وادیوں اور صاف شفاف پانی کے ندی نالوں، جھیلوں اور آبشاروں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے انتہائی پر کشش خطہ ہے۔ اسکردو کے سرد صحرا اور جھیلیں، استور کے سرسبز پہاڑ اور دیوسائی کا پھولوں سے بھرا وسیع ترین میدان کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کیلئے سہولیات نہ ہونےکے باوجود سیاح جوق در جوق یہاں آتے ہیں۔ گلگت بلتستان صرف اپنے برف پوش پہاڑوں، وادیوں اور خوبصورت جھیلوں کی ہی وجہ سے پر کشش نہیں ہے بلکہ بلندترین انسانی تہذیب و تمدن اور ثقافتی تہواروں کی وجہ سے بھی دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے کشش رکھتا ہے۔ ان پہاڑی بستیوں میں بسنے والے انسان صدیوں پرانی تہذیب کے امین ہے۔
 
یہاں کی آبادی 20  لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں کے اکثر لوگ دیہاتوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ جس طرح  یہ خطہ قدرتی طور پر صاف و شفاف ہے آلودگی یہاں پر نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح اس جنت نظیر خطے میں رہنے والے لوگ بھی کردار کے غازی، دل کے صاف و شفاف، محب وطن، مہمان نواز اور اپنے دین و مذہب سے بے حد پیار کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ بلند و بالا، آسمان کو چھونے والے برف پوش پہاڑوں کے درمیان قدرت کی بنائی ہوئی خوبصورت اور سرسبز وادیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کے لوگ محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ محب علم ہیں۔ خطے میں سکول کالجز نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کسی دیہات میں سکول ہے بھی تو وہ بھی پرائمری اور بعض دیہاتوں میں تو سرے سے سکول ہی نہیں چونکہ یہاں کے لوگ تعلیم سے محبت کرتے ہیں اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح سکول بھیج دیتے ہیں۔ یا تو بچے کو روزانہ ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے پیدل چل کر سکول جانا ہوتا ہے یا پھر سکول والے دیہات میں اگر کوئی رشتہ دار ہے تو اس کے ہاں تعلیم کی خاطر رہنا پڑتا ہے۔ جسکی وجہ سے بچے کو بہت ہی چھوٹی عمر میں اپنے والدین سے جدا ہونا پڑتا ہے۔
 
پچھلے 68 سالوں سے اس خطے کے عوام ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ جسکی وجہ سے یہاں کی آبادی کا بڑا حصہ تعلیم یافتہ بلکہ اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود زمینداری اور کشاورزی کرنے پر مجبور ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہے یہاں پر کاشت کرنے کےلیے ہموار زمینیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ہموار میدان موجود ہیں  بھی تو حکومتی اداروں کی عدم توجہ کی وجہ سے بنجر ہیں اور اگر عوام اپنی مدد آپ کے تحت ان کو آباد کرنا چاہیے تو حکومت کوئی نہ کو ایشو بنا کر اس پہ ناجائز قبضہ کر لیتی ہے جسکی زندہ مثال حراموش مقپون داس اور تھک داس دیامر ہیں۔ رات کی تاریکی میں پولیس، رینجرز اور فوج کا گلگت سکردو روڈ سیل کراکے حراموش مقپون داس میں پوری تیاری کے ساتھ آنا اور بلڈوزروں کے ذریعے مکانوں کو بڑی بے رحمی سے مسمار کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ بلڈوزروں سے مکانات کو تباہ و برباد کر نا یہ تو اسرائیلی فوج کا سٹائل ہے جو کہ وہ فلسطین میں کئی سالوں سے کرتا آرہا ہے۔ اسرائیل تو ایک یہودی اسٹیٹ ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے وہ تو کچھ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ملک خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان جسکی بنیاد لا الہ الا الله، محمد الرسول الله ہے،  اس کے اندر اپنے ہی لوگوں کے مکانات کو تباہ و برباد کروانا یہ نہ فقط اسلامی اقدار کے خلاف ہے بلکہ انسانی اقدار کے خلاف ہے۔ اور قابل ذکر بات یہاں پر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان ریاستی فورسز نے مسجد جوکہ خدا گھر اور قرآن کریم جو اللہ کی کتاب ہے غیر مسلم بھی ان کا احترام کرتا ہے، ان کی حرمت کا خیال نہیں رکھا اور گھروں سمیت مسجد کو بھی شھید کر دیا اور  گھروں سے قرآن مجید گھروں کو تباہ کرنے سے پہلے نہیں اٹھایا اور ابھی تک قرآن مجید گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
 
گلگت بلتستان کے اخبارات میں صوبائی وزیر اطلاعات کا یہ بیان کہ گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور خاص طور پر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی گھروں کو تباہ کیا گیا ہے بہت مضحکہ خیز ہے۔ جناب وزیر اطلاعات جھوٹ بولنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اگر وزیر اعلٰی حفیظ الرحمن صاحب کو پتہ نہیں ہے تو  پھر پولیس، رینجرز اور  آرمی کس کے حکم پر وہاں آئی ہوئی تھی۔ اور یہ کہنا کہ گھروں کو تباہ نہیں کیا گیا، بہت عجیب ہے۔ زیادہ دیر سفید جھوٹ نہیں چھپتا اب تو سب کچھ واضح ہو چکا ہے مزید جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ مقپون داس میں تباہ شدہ 120گھروں اور مسجد کے کھنڈرات اور ملبے تلے دبے ہوئے قرآن مجید چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ نواز حکومت کروا رہی ہے۔
 
 حراموش  کے غیرت مند لوگوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں جن کے حوصلے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پست نہیں ہوئے ۔ان پر پتھر برسائے گئے، ان پر گولیاں چلائی گئیں ،ان پر پولیس لاٹھی چارج ہوا، ان کے گھر تباہ و برباد کر دیے گئے ان پر دہشت گردی کی دفعہ لگا کر جیل بھیج دیا گیا۔ تین دن سے بچوں اور خواتین سمیت حکومتی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف دھرنا دے کر اس سردی کے موسم میں روڈ پر بیٹھے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت کوئی نوٹس لے! الٹا بیانات دے رہے ہیں کہ انتظامیہ کو پتہ نہیں ہے اور کوئی گھر تباہ نہیں کئے گئے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوگ اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے ،تھک جائیں گے، ڈر جائیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ نہ یہ کسی سے ڈرتے ہیں،نہ یہ لوگ تھک جائیں گے اور نہ ہی یہ لوگ کسی صورت میں اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں گے چونکہ یہ لوگ جانتے ہیں۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اور خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
 

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاشق حسین آئی آر

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صوبائی حکومت اور انتظامیہ نے رات کے اندھیرے میں مقپون داس پر قبضہ کرکے ثابت کردیا کہ انہیں قانون اور عدالت کی کوئی پروا نہیں ہے اور ماورائے عدالت کارروائی کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی دوغلی پالیسی اور شرمناک عمل یہ ہے کہ ایک طرف مقپون داس پر قبضے سے لاعلمی کا اظہار کرتا ہے اور دوسری طرف حکومتی رٹ کی باتیں کررہی ہیں، وہ کیسے صوبے کا سربراہ ہوسکتا ہے جنہیں اتنے بڑے آپریشن کا علم ہی نہ ہو، اگر حکومتی موقف درست ہے تو لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ صوبائی حکومت کی حیثیت کٹھ پتلی کی سی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی زمینوں پر انتظامیہ کا قبضہ غیرقانونی اور غیر انسانی عمل ہے۔ جو خطہ پاکستان کا حصہ ہی نہ ہو اس پر کیسے پاکستان کے ادارے قبضہ کرسکتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں عجیب قانون ہے عوام کو متنازعہ کہا جاتا ہے اور زمینوں کو غیر متنازعہ ہے۔ اگر عوام اور اس خطے کے باسی متنازعہ ہیں تو زمینیں بھی متنازعہ ہے۔ خالصہ سرکار کے نام پر قبضہ مافیا کا کردار ادا کرنا چھوڑ دے یہ خطہ ارضی کسی کی خیرات نہیں بلکہ اس عوام نے جنگ لڑکے قربانی دے کے حاصل کیا ہے اور اس خطے کی ملکیت کسی سکھ یا میاں کی نہیں، صرف اور صرف عوام کی ہے۔

آغا علی رضوی نے کہا کہ جب حقوق دینے کی بات آتی ہے تو ریاستی ادارے خاموش ہوجاتے ہیں اور جب یہاں کے وسائل پر قبضہ کی بات ہوتی ہے تو اس خطے کے عوام کیساتھ فلسطین کے مسلمانوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں جس اندھیر نگری کا مظاہرہ کیا گیا اس سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ریاستی ادارے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی بجائے اپنے اعمال سے ثابت کریں، یہ اسلامی ریاست ہے اور گلگت بلتستان کے باسی اور انکی ملکیتی زمینیں دشمن ملک انڈیا والوں کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی تاریخ انتہائی افسوسناک ہے جس خطے کے جوانوں نے انڈیا کی سرحد کے اندر جاکر جنگ لڑی اور انکی زمینون پر قبضہ کیا تو بغیر کسی وجہ بتائے واپس بلائے گئے ادھر یہ لوگ اپنی زمینوں سے بے دخل ہوئے جارہے ہیں۔ ریاستی ادارے اپنا قبلہ درست کرے اور ان اداروں کے اندر موجود خیانت کاروں کو باہر کریں۔ اب بھی ریاستی اداروں کے اداروں ملک دشمن عناصر کی بڑی تعداد موجود ہے جو کبھی نہیں چاہتے کہ جی بی کے عوام اطمینان سے زندگی گزار سکیں اور پاکستان کا آئینی حصہ بنے۔ اگر گلگت بلتستان آئینی حصہ بنتا ہے تو قبضہ مافیا اور اندھیرے میں راج کرنے والوں کی بدمعاشی ختم ہوجائے گی اور اس خطے کے وسائل کو لوٹا نہیں جاسکے گا۔ خالصہ سرکار کی وکالت کرنے والے جنگ آزادی کے منکر اور گلگت بلتستان کے غدار ہیں، عوام انکو ہر جگہ رسوا کریں۔

Page 2 of 6

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree