وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید ناصر عباس شیرازی نے ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے عہدیداروں کے نام  پیغام میں ہدایات جاری کیں ہیں کہ کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اختلافات کو ہوا دے کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتی ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین اتحاد کی داعی ہے اور اپنے عمل سے اسے ثابت کر دکھایا ہے۔ ہم کسی بھی صورت اپنے داخلی و خارجی اتحاد کو پارہ پارہ نہیں ہونے دیں گے۔ ہمیں کارکنوں کی اس تکلیف کی شدت کا بھی اندازہ ہے، جو مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کی روش اور طرز عمل کے نتیجے میں انہیں برادشت کرنا پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی مذہبی سیاسی جماعت یا شخصیات کے خلاف کوئی بیان نہیں دینا۔ ہم اپنے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اپنے موقف کا بہترین دفاع کریں گے۔

ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری سیاسیات کا کہنا تھا کہ کچھ کالعدم جماعتیں سیاسی جماعتوں کی آڑ میں مجلس وحدت مسلمین کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں، جنہیں بالآخر ناکامی ہوگی۔ ہم گلگت بلتستان میں شائستہ اور باوقار اپوزیشن کی بنیاد رکھیں گے۔ یہ خطہ شیعہ سنی وحدت کا مثالی نمونہ بن کر ابھرے گا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت میں پیپلز پارٹی کے اعلٰی سطح کے وفد نے ہمارے دفتر کا دورہ کیا ہے، جو خوش آئند اور جمہوری طرز عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ نون لیگ سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں بلکہ اصولی اختلاف ہے۔ آئندہ آنے والا وقت ہمارے اس موقف کی تائید کرے گا۔ ہم اسلامی تحریک پاکستان سمیت تمام جماعتوں کا احترام کرتے ہیں۔ سیاسی اختلاف رائے کا حق ہمیشہ شائستگی کے دائرے میں ہی کیا جائے گا۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) قیام پاکستان سے لے آج تک اس ملک کی سیاست میں مختلف گروہوں نے حصہ لیا ہے، ہر ایک اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور تاحال کر رہا ہے۔ لیکن یہاں پر ایک چیز کا تذکرہ کرنا ضروری ہے اور وہ ملت تشیع کا پاکستانی سیاست میں کردار ہے۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے مارشل لاء کے دور میں باقاعدہ طور سیاست میں وارد ہونے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ ہم بطور سیاسی طاقت الیکشن میں حصہ لیں گے، تاکہ پارلیمنٹ کے اندر ہماری برابر نمائندگی ہوسکے۔ لیکن دشمن نے زیادہ عرصہ تک عظیم قائد کو ملت کے درمیان رہنے کی مہلت نہ دی اور انہیں شہید کر دیا گیا۔ شہید قائد کے بعد کچھ عرصہ تک اس سیاسی سفر کو جاری رکھا گیا، لیکن بعد میں یہ سیاسی سفر ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا، جس کی وجہ سے شیعہ ووٹ کبھی پی پی پی کی جیب میں چلا جاتا تو کبھی نون لیگ اپنے منفی پروپیگنڈے کے ذریعے قائدین کو اپنے ساتھ ملا کر انہیں لمبی لمبی امیدیں دلا کر شیعہ ووٹ کو تقسیم کر لیتی ہے۔

گلگت بلتستان الیکشن
جی بی قانون ساز اسمبلی کے حالیہ الیکشن بھی کچھ ایسے ہی منفی پروپیگنڈے کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ علاقہ کہ جس کی آبادی کا 70 فیصد اہل تشیع پر مشتمل ہے، جس میں سے صرف 40 فیصد شیعہ امامیہ اثناء عشری ہیں، باقی 30 فیصد میں اسماعیلی اور نور بخشی ہیں، وہ لوگ مسلسل کئی سال سے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، انہیں نہ تو آئینی حقوق دیئے جا رہے ہیں اور نہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سہولیات میسر ہیں۔ آئے روز ان کے اوپر نئی نئی مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، کبھی سانحہ چلاس تو کبھی سانحہ بابوسر، تو کبھی حکومت گندم سبسڈی کو ختم کرکے رہی سہی کسر پوری کر دیتی ہے۔ لیکن شیعہ اکثریتی علاقے میں دنیائے سیاست میں ایک نئی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت نے وہاں کی عوام کو جائز حقوق کے حصول کے لئے قیام کرنے کا حوصلہ دیا۔ وہ سیاسی پارٹی جو مشکل کی ہر گھڑی میں وہاں کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے، چاہے وہ سانحہ چلاس ہو یا گندم سبسڈی کا مسئلہ۔ گلگت بلتستان میں ایم ڈبلیو ایم کی عوامی پذیرائی اور طاقت کو دیکھ کر دوسری سیاسی جماعتیں و بالخصوص موجودہ حکمران طبقہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا اور انہیں اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے، کیونکہ وہ تشیع کو بطور سیاسی طاقت دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں ملت تشیع ہمیشہ کی طرح چند مفادات کے عوض اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دے۔

حالیہ الیکشن میں ملت تشیع کی ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت کو دبانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اپنائے گئے، جن میں سے چند ایک عرض خدمت ہیں۔
1۔ شیعہ ووٹ کو تقسیم کرنا
نون لیگ نے شیعہ اکثریتی علاقے میں شیعہ نظریاتی ووٹ کو تقسیم کرنے لئے ایک کالعدم سیاسی جماعت سے پابندی اٹھا کر میدان میں اتارا۔ وہ جماعت جو ہمیشہ سے موجودہ حکومت کے حق میں کلی طور پر دستبردار ہوتی آئی ہے۔ جس جماعت کی تاریخ میں کبھی بھی نہیں ملتا کہ انہوں نے خود الیکشن لڑے ہوں۔ 1994ء میں الیکشن لڑا اور صرف 8 سیٹیں حاصل کیں، جبکہ پی پی پی کے ساتھ ملکر حکومت بنانے سے صرف 2 وزارتیں ملیں۔ 1999ء میں الیکشن میں حصہ لیا تو صرف 4 سیٹیں حاصل کیں اور بعد میں مشرف دور میں ہونے والے الیکشن میں کلی طور پر قاف لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ 2009ء میں ہونے والے الیکشن میں ایک بار پھر پی پی پی کے ساتھ الحاق کرکے ان کی الیکشن کمپین کا حصہ بن گئے۔ حالیہ الیکشن میں نون لیگ نے اسلامی تحریک پاکستان سے پابندی ہٹا کر اپنے مقاصد کے حصول کے شیعہ ووٹ کو تقسیم کیا۔

2۔ تکفیری ووٹ کو جمع کرنا
نون لیگ نے شیعہ ووٹ کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں 30 سے زائد تکفیری سوچ رکھنے والے عناصر کو امپورٹ کیا، جن کی سربراہی کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما اورنگزیب فاروقی کر رہے تھے۔ اس بات کا انکشاف پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما نے کیپیٹل ٹاک شو میں کیا ہے۔ اس طرح نون لیگ نے وہابی ووٹ کو اکٹھا کیا اور اسے تشیع کے مقابلے میں استعمال کیا۔

موجودہ الیکشن میں کامیاب شیعہ امیدواروں کا تناسب
عام طور پر بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک پاکستان کے الیکشن میں آنے سے تکفیری عناصر کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، وہ علاقہ جس کی آبادی کا 70 فیصد حصہ اہل تشیع پر مشتمل ہو، وہاں تکفیری امیدوار کس طرح اکثریت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتائج کے مطابق شیعہ امیدواروں کی تعداد کچھ اس طرح ہے۔
مجلس وحدت مسلمین: 2
اسلامی تحریک پاکستان: 2
پاکستان مسلم لیگ نون: 4
پاکستان پیپلزپارٹی: 1
اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں موجود اسماعیلی شیعوں نے بھی الیکشن میں بھرپور حصہ لیا، جن میں سے 2 اسماعیلی نون لیگ کے امیدوار تھے، ایک امیدوار کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا اور ایک امیدوار آزاد حیثیت میں کھڑا ہوا۔
اب ذرا الیکشن میں کامیاب ہونے والی اہلسنت امیدواروں کی تعداد بھی ملاحظہ فرمائیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون: 6
جمیعت علمائے اسلام (ف): 1
آزاد امیدوار: 1
مجموعی طور پر کامیاب ہونے والے امیدواروں میں زیادہ تناسب شیعہ امیدواروں کا ہے، جو کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔

الیکشن کے نتائج سے نقصان کیا ہوا۔؟
الیکشن میں ایک شیعہ مذہبی جماعت نے بعض حلقوں میں مسلم لیگ نون کو سپورٹ کیا، اپنے امیدوار نون لیگی امیدواروں کے حق میں دستبردار کروائے اور باقاعدہ الیکشن کمپین میں نون لیگی امیدواروں کے ساتھ ملکر شیعہ ووٹ کو تقسیم کیا، اس کا جہاں پر ایک نقصان یہ ہوا کہ شیعہ ابھرتی ہوئی سیاسی پارٹی کو ہرایا گیا اور عوام میں مایوسی پھیلائی گئی، دوسرا نقصان یہ ہوا کہ چاہے نون لیگ میں شیعہ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، لیکن جی بی میں گورنمنٹ نون لیگ کی بنے گی۔ جن کی شیعہ دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جہاں پر ایک حلقہ میں شیعہ ووٹ کے تقسیم ہونے سے نون لیگی امیدوار اور مسلم لیگ نون گلگت بلتستان کا صوبائی صدر حافظ حفیظ الرحمن کامیاب ہوا ہے۔ اس کے بیانات اور مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات سے لگ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کا اگلا وزیراعلٰی حفیظ الرحمن ہوگا، جو کہ تکفیری سوچ رکھنے والا اور کالعدم سپاہ صحابہ کا حمایت یافتہ امیدوار تھا۔ یہ وہ سب سے بڑا نقصان ہے جو وہاں کہ عوام کو ہوگا۔ جس کی بنیادی وجہ شیعہ ووٹ کو تقسیم کرکے نون لیگی امیدواروں کو کامیاب کرانا ہے۔

بطور شیعہ ایک سوال؟؟؟
گلگت بلتستان الیکشن میں کالعدم سپاہ صحابہ نے نون لیگی امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لئے نواز شریف سے ساز باز کی، الیکشن کمپین کا حصہ بنی اور اس خطے میں موجودہ تکفیری و اہلسنت ووٹ کو نون لیگ کی جھولی میں ڈال دیا۔ لیکن اسلامی تحریک پاکستان بھی نون لیگی الیکشن کمپین کا حصہ بنی ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ کی شیعہ دشمنی تو سمجھ میں آنے والی بات ہے، لیکن اسلامی تحریک پاکستان کا نون لیگ کے ساتھ کھڑا ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔؟؟ اگر اتنے عرصہ بعد الیکشن لڑنا ہی چاہتے تھے تو اپنے تشخص کے ساتھ لڑتے یا شیعہ جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کر لیتے۔؟؟ کیا نون لیگ کے ساتھ کالعدم سپاہ صحابہ کھڑی ہوئی نظر نہیں آئی؟ کیا اب اہل تشیع بھی کالعدم سپاہ صحابہ کے ساتھ کھڑے ہو کر نون لیگ جیسی سیاسی جماعتوں کو اور مضبوط کریں گے؟؟ یہ چند بنیادی سوالات ہیں جو آج تشیع کا درد رکھنے والے ہر نوجوان کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔
 
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حلقہ چار اسکردو کی ریکونٹنگ کے سلسلے میں الیکشن کمشنر اور ریٹرننگ آفیسر کا رویہ انتہائی مضحکہ خیز ہے اور دونوں ذمہ داران بلیمنگ گیم کے ذریعے وقت گزار نا چاہتے ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر ری کونٹگ کی ذمہ داری آر او پر عائد کر رہا ہے اور آر او نے صاف طور پر الیکشن کمشنر کو مورد الزام ٹہرایا ہے دونوں کا یہ عمل غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر جمہوری ہے۔ حلقہ ایک اسکردو میں چار بار گنتی ہوسکتی ہے اور حلقہ چار میں گنتی کی اجازت نہ دینا دونوں ذمہ دارکی بدنیتی ہے اس ظلم پر کبھی خاموش نہیں رہیں گے اور یہ عمل ملی الیکشن کی شفافیت سمیت سکیورٹی اداروں اور حساس اداروں پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ سکردو حلقہ تین اور چار دنوں کے نتائج من مانی ہے اسکا بین ثبوت دونوں حلقوں میں انتخابی نتائج میں تاخیر ہے۔ہم نے انتخابات سے قبل میڈیا کے سامنے یہ مطالبہ کیا تھا کہ انتخابی نتائج میں تاخیر نہ کی جائے لیکن نواز لیگ کی وفاقی حکومت نے وہی کچھ کیا جس کا خدشہ تھا۔ اس دھاندلی زدہ انتخابات کو نہ صرف ہم تسلیم نہیں کریں گے بلکہ عوامی سطح پر مسلم لیگ کی غیرجمہوری روایات کو واضح کر تے رہیں گے اور انکا چہرہ بے نقاب کرتے رہیں گے۔ حساس اداروں نے جس طرح نواز لیگ کے لیے گلگت بلتستان میں جو جگہ دی ہے اسکے بدترین اثرات خطے پر مرتب ہونگے اور عوامی مینڈیٹ کو جس طرح یرغمال کرایا گیا ہے اس کے خطے میں بے چینی پھیلے گی ۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) گلگت بلتستان الیکشن کے نتائج غیر حقیقی اور ناقابل قبول ہیں۔ مسلم لیگ نون نے بیشتر حلقوں میں گنتی کے عمل کو موخر کر کے نتائج میں تبدیلی کی ہے۔ دھاندلی کے لیے مالی فوائد سمیت دیگر ذرائع کو بھی استعمال کیا گیا۔ماروی میمن نے پیسے کا پانی کی طرح بہایا۔ الیکشن پُرامن مگر دھاندلی زدہ تھے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنماوں علامہ اصغرعسکری اور احمد رضا قصوری نے ایم ڈبلیو ایم مرکزی سیکریٹریٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔سینئر سیاسی رہنما احمد رضا قصوری نے کہا کہ ماروی میمن کو بے نظیری انکم سپورٹس پروگرام کے پچاس ارب روپے کا بجٹ دے کر گلگت بلتستان بھیجا گیا جہاں انہون نے ہزاروں خاندانوں میں بے نظیر انکم کارڈ اور پچاس پچاس ہزار روپے نقد تقسیم کیے۔قومی خزانے کو ووٹوں کے حصول کے لیے بے دردی سے لٹایا گیا۔الیکشن میں دھاندلی کے لیے ایک غیر مقامی شخص کوسانگلہ ہل سے اٹھا کرگلگت بلتستان میں گورنر بنادیا ہم نے اس الیکشن کو سیاسی و قانونی طور پر چیلنج کرنا ہے۔علامہ اصغر عسکری نے کہا کہ ہم نے الیکشن سے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ نون لیگ نے پری پول رگنگ کے لیے ہوم ورک مکمل کر لیا ہے۔2013 الیکشن فارمولے کو گلگت بلتستان میں آزما کر موجودہ نتائج حاصل کیے گئے۔جن جن حلقوں کے نتائج دو دو گھنٹے بعد آنا شروع ہو گئے تھے اور مجلس وحدت مسلمین کی برتری واضح ثابت ہو رہی تھی انہیں روک دیا گیا اور پھر ستائیس گھنٹے بعد حکومت کے من پسند رزلٹس منظر عام پر آنا شروع ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف بعض حلقوں میں چار چاربار گنتی کے عمل کو دوہرایا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف مجلس وحدت مسلمین کے امیدواروں کے ووٹوں کی گنتی روکنے کے لیے چیف الیکشن کمیشن اپنے خصوصی احکامات صادر کرتا ہے۔نام نہاد شفاف انتخا بات کی قلعی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ہم نے گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے لیے دیانت دار اور تعلیم یافتہ افراد کو آگے آنے کا موقعہ دیا لیکن مسلم لیگ نون نے ان شخصیات کو کامیاب کرایا جو داغدارماضی کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ فرقہ وارنہ سرگرمیوں میں بھی فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں۔یہ لوگ گلگت بلتستان کے امن و سکون کو تباہ کر کے رکھ دیں گے۔انہوں نے کہا افواج پاک کی نگرانی کے باعث الیکشن پُرامن رہے۔مجلس وحدت مسلمین کے رہنما نے مطالبہ کیا کہ حلقہ 3سکردو اور حلقہ 4 روندو میں ووٹوں کی گنتی دوبارہ کی جائے۔ ہم ان دونوں حلقوں سے جیتے ہوئے ہیں جبکہ گنتی میں ہیر پھیر کر کے نتائج تبدیل کیے گئے اور شکست خوردہ امیدواروں کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ایم ڈبلیو ایم سندھ کے صوبائی سیکریٹری سیاسیات سید حسین علی نے کہا کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ اس لیے تھا کہ مسلم لیگ نون گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کروانا چاہتی تھی۔ فوجی نے الیکشن کی نگرانی کر کے حالات کو پُرامن رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہم نون لیگ کی طرف سے وزارت کی پیشکش کو رد کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں گلگت بلتستان کے آئینی حقوق دیے جائیں۔

وحدت نیوز (سکردو) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کےتحت منعقدہ پریس کانفرنس سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے سربراہ ایم ڈبلیوایم علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے آرمی کی طرف سے کیے گئے اقدامات لائق تحسین ہیں۔ انتخابات جس طرح کی آرمی نگرانی میں ہونا ضروری تھا نہیں ہو سکا۔ میڈیا میں آرمی کی مکمل نگرانی میں انتخابات کا ڈھونگ تو رچایا گیا لیکن حقیقت اس کے برخلاف تھی اور انہیں اٹارنی پاور دئیے بغیر صرف سیکیورٹی اقدامات کے لیے بلایا گیاتھا۔ گلگت بلتستان میں پولنگ کے دوران ہم نے ہی آواز بلند کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ پولنگ کے دوران ہونے والی سست روی کے عمل کو روکا جائے کیونکہ پولنگ میں تعطل اور سست روی آر اوز کی بدنیتی اور دھاندلی ہے ۔ مجلس وحدت مسلمین نے انتخابات سے قبل ہی مطالبہ کیا تھا کہ نتائج میں تاخیر نہ کی جائے لیکن جان بوجھ کر نتائج میں تاخیر کی گئی اور اسکردو حلقہ تین ، روندوحلقہ چاراور ہنزہ نگر چار میں مجلس وحدت کی برتری کو منظم انداز میں ختم کیا گیا اور عوامی مینڈیٹ کو چوری کرنے کی کوشش کی گئی۔گلگت بلتستان میں پرامن مگر دھاندلی زدہ انتخابی نتائج کو قبول کرنے لیے تیار نہیں ہیں، منظم دھاندلی کے تحت وفاقی ، صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن ایم ڈبلیوایم کے خلاف برسر پیکار ہیں ، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شفقت شیرازی ، ڈویژنل سیکریٹری جنرل علامہ آغا سید علی رضوی، علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین ، علامہ مرزا یوسف حسین ، نومنتخب رکن گلگت بلتستان اسمبلی کاچو امتیاز حیدر خان اور امیدوار حلقہ 4روندو راجہ ناصرعلی خان بھی موجود تھے،

انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومت آر اوز کے ذریعے اس الیکشن کی نگرانی کرتی رہی بلخصوص ہنزہ نگر دو جی بی ایل چار کے امیدوار کی فتح کے بعد راتوں رات نتائج کو بدلنا نہ صرف حیران کن بلکہ ناقابل برداشت ہے۔ اسی طرح اسکردو حلقہ تین میں مسلم لیگ کے حکام کی ایما پر انتخابات کے نتائج کے اعلان میں جان بوجھ کر 48گھنٹے تک تاخیر کی گئی۔ اسکردو حلقہ چار میں ایم ڈبلیو ایم کی گزارش پر ہونے والی دوبارہ گنتی کو چیف الیکشن کمشنر کی مداخلت سے روکنا سوالیہ نشان اور شفاف الیکشن کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے دوبارہ گنتی کے عمل کو روکنا اس بات کی دلیل ہے کہ الیکشن کمشنر مکمل جانبدار ہے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے خواہاں ہیں ، مجلس وحدت مسلمین تمام دھاندلی زدہ حلقوں کے نتائج کو ہر فورم پر چیلنج کرے گی اور قبول نہیں کرے گی۔

مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان انتخابات کے حوالے سے متعدد بار قبل ازانتخابات ہونے والی دھاندلی پر آواز بلند کرتی رہی لیکن ارباب اختیار خاموش تماشائی بنی رہی اور عوامی مینڈیٹ کو 46 ارب روپے اور کروڑوں کے منصوبہ جات اور وزیراعظم کے دورہ جات کے ذریعے چرانے کی کوشش ہو تی رہی۔ گلگت بلتستان کی حساسیت کو پس پشت ڈال کر اس خطے کے حقیقی اور نظریاتی شہریوں کو بند گلی میں لے جانے کی کوشش کی گئی جبکہ دہشتگردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں اور پاک آرمی کے شہداء کی تضحیک کرنے والوں کو ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی بخشنے کا اصول لمحہ فکریہ ہے۔نواز حکومت نے ملک بھرکی طرح گلگت بلتستان میں بھی دھاندلی کی توسیع کی ہے۔پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے تجارتی شراکت دار نواز حکومت کو گلگت بلتستان جیسے حساس دفاعی خطے میں جگہ ملنا ملکی سا لمیت کے لیے خطرہ ہے اور ساتھ ہی معرکہ کرگل کی فتح کو شکست میں تبدیل کرنے کی پالیسی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی مجرم حکومت گلگت بلتستان میں اس جیسی صورتحال دوبارہ پیدا کر سکتی ہے ۔ ہم گلگت بلتستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے امین ہیں اورپاکستان کے بنانے ، گلگت بلتستان کو آزاد کرانے میں ہمار ا ہی ہاتھ ہے اور ہم ہی پاکستان کو بچائیں گے، پاکستان کی ریاست پر، پاکستان کی فوج پر اور آئین پر ہونے والے ہر حملوں کا دفاع کرتے رہیں گے چاہے وہ حملہ سیاسی ہو، نظریاتی ہو یا معاشی ہو۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) گلگت بلتستان میں عام انتخابات کا کافی چرچا تھا، گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت اور وہاں پر بسے شیعیان حیدر کرار کی بنا پر اس خطے کی اہمیت اور وہاں ہونے والے انتخابات کی اہمیت دگنی تھی، گلگت بلتستان کے عوام کی پاکستان سے بے لوث محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد جب یہاں کے عوام نے ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کرکے پاکستان کے ساتھ غیر مشروط الحاق کا اعلان کیا تھا، اس کے بعد سے اس خطے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، لیکن اس کے باوجود یہاں کے غیور عوام نے پاکستان سے اپنی محبت و وفاداری میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔

قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں عوامی جوش و خروش دیدنی تھا، عورتیں، بچے، مرد، بزرگ، جوان ہر کوئی انتخابات میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے بیتاب نظر آتا تھا، پارٹی پرچموں، بینرز اور پوسٹرز کی بہار آگئی تھی۔ لیکن اس بار کے انتخابات میں کچھ چیزیں بالکل انہونی تھیں۔۔۔۔۔اس بار عوام چاہ رہے تھے کہ وہ اپنی ووٹ کی طاقت سے اپنے مقدر کو سنواریں، وہ چاہ رہے تھے کہ گلگت بلتستان کی سونا اگلتی زمین کے سینہ کو چیر کر ان پارٹیوں اور افراد کو دفن کر دیں، جنہوں نے ووٹ تو ہمیشہ لیا لیکن اس خطے کے عوام کو بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا۔

گلگت بلستان کے عوام کے بارے میں یہ رائے مشہور تھی کہ یہاں کے عوام پیپلز پارٹی کے دیوانے ہیں، لیکن اس بار یہاں پیپلز پارٹی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی، مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن تو پیپلز پارٹی سے بھی بد تر نظر آئی، پاکستان تحریک انصاف جسے تیسری بڑی قوت سے یاد کیا جانے لگا ہے، اس خطے میں اسکی مقبولیت کا گراف بھی قابل ذکر نہیں نظر آیا۔ گلگت بلستان کی عوام کے بدلتے نظریات کے پیچھے سانحہ کوہستان، سانحہ چلاس اور سانحہ بابو سر کا بڑا کردار ہے، ان سانحات میں ملوث قوتوں اور انکے پشت پناہوں سے نفرت ایک فطری امر ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ساتھ ہی ساتھ جن پارٹیوں نے سالوں حکومت کرکے یہاں کے عوام کا صرف استحصال کیا، انہیں یہاں کے عوام اب قبول کرنے کو تیار نہیں نظر آتے۔

گلگت و بلتستان میں سفر کے دوران کہیں زرداری صاحب کی رہبر معظم سید علی خامنہ ای کیساتھ تصاویر آویزاں ہیں تو کہیں نواز شریف اور رہبر معظم کی تصاویر نظر آرہی ہیں، غرض وہ جو پورے پاکستان میں شیعہ دشمن قوتوں کے پشت پناہی کرتے ہیں، یہاں ان تصاویر کی تشہیر سے گلگت بلتستان کی عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے کمر بستہ نظر آئے اور تو اور کچھ نے تو اپنے آپ کو براہ راست ولی فقیہ کا نمائندہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا، تاکہ عوام انہیں ووٹ دیں، وہ پارٹیاں اور شخصیات جو 67سالوں میں گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ نہ بنا سکیں، وہ بھی آئینی صوبہ بنانے کا راگ الاپتے نظر آئے، وہ جنہیں سانحہ کوہستان، چلاس و بابو سر میں اتنی بھی توفیق نہ ہوئی کہ وہ گلگت بلستان کے عوام کے آنسو پونچھتے، آج بے غیرتی کے ساتھ ووٹ مانگتے نظر آئے، جب گلگت بلتستان کے عوام کے منہ سے نوز شریف کی حکومت نے نوالہ چھیننے کی کوشش کی اور گندم پر سبسڈی ختم کی تو یہ جماعتیں اس وقت بھی یہاں کے عوام کے حق کیلئے نہیں اٹھیں ۔۔۔۔۔گلگت بلتستان کے عوام یہ سب کیسے بھول سکتے تھے۔

دوسری جانب گلگت بلتستان میں مجلس وحدت مسلمین کا انتخابی دوڑ میں اضافہ نہ صرف کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا بلکہ کوئی ایم ڈبلیو ایم کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھا لیکن عوامی حلقوں میں ایم ڈبلیو ایم کی پذیرائی دیدنی تھی، عورتیں ہوں یا مرد، بزرگ ہوں یا بچے، ہر کوئی نعرے لگاتا نظر آیا کہ ووٹ کیا چیز ہے، جان بھی قربان ہے، ایم ڈبلیو ایم کی پذیرائی کے پیچھے سانحہ کوہستان، چلاس و بابو سر کے بعد گلگت بلتستان کے عوام کیلئے ملک گیر تحریک اور گندم سبسڈی ختم کئے جانے پر عوامی احتجاج اور گندم سبسڈی کی بحالی جیسے اقدامات کار فرما رہے، ساتھ ہی ساتھ ایم ڈبلیو ایم کی قیادت نے اس خطے کے عوام کی بے لوث خدمت کرکے یہاں کے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔

دور دراز کے گائوں ہوں یا شہر ۔۔۔۔۔ہر جگہ ایم ڈبلیو ایم کے پرچم گھروں پر لہراتے نظر آئے، یہاں کی دشوار گزار ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے سڑک کے کنارے بچے ایم ڈبلیو ایم کے پرچم ہاتھوں میں اٹھائے راجہ ناصر قدم بڑھائو ، ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگاتے نظر آئے، غریب عوام کی آنکھوں میں مجلس وحدت مسلمین زندہ باد کے نعروں کے ساتھ امید کی روشنی دیکھنے کو ملی، خوشحالی کی امید نے گلگت بلتستان کی عوام کے دلوں میں ایک ایسا جوش و خروش پیدا کر دیا ہے کہ جس کے ذریعے وہ کسی بھی قوت کو اپنی ووٹ کی طاقت سے سرنگوں کرنے کو تیار ہیں، گلگت بلتستان کے عوام اپنی محرومیوں اور زیادتیوں کا بدلہ اپنے ووٹ سے لینگے۔ یہ امید، جوش، خوشحال و با اختیار گلگت بلتستان کا حقیقی تصور ایم ڈبلیو ایم نے یہاں کی عوام کو دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کا مقابلہ کسی ایک جماعت سے نہیں بلکہ تمام سیاسی پنڈتوں اور استحصالی قوتوں سے ہے، یا دوسرے الفاظ میں اس باری انتخابات میں گلگت بلتستان کے عوام کا مقابلہ تمام استحصالی قوتوں سے ہے اور عوام کو اس فیصلہ کن جنگ کا حوصلہ ایم ڈبلیو ایم نے دیا ہے۔ اسی لئے ہر کوئی یہی کہتا نظر آتا ہے کہ ووٹ کیا چیز ہے راجہ ناصر، جان بھی قربان ہے۔ انتخابات میں کیا نتیجہ آتا ہے، ابھی کسی کو نہیں پتہ، لیکن یہاں کی عوام نے نتیجہ دے دیا ہے کہ ایم ڈبلیو ایم جیت گئی ہے۔

تحریر۔۔۔۔۔ سید رضا نقوی

Page 3 of 17

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree