وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو اپنے خصوصی انٹرویو میں مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری امور سیاسیات سید ناصرعباس شیرازی کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین کا نون لیگ سمیت بیک وقت کئی جماعتوں سے مقابلہ تھا، ایم ڈبلیو ایم اس الیکشن میں ووٹوں کے حساب سے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، ہم نے لوگوں کے دل جیتے ہیں، پاکستان میں سیاسی کردار ادا کئے بغیر ریاستی امور سے متعلق کئے جانے والے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوا جاسکتا، گلگت بلتستان میں اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے دلوں پر حکمرانی کریں گے۔ اگر علامہ ساجد نقوی صاحب کی جماعت ان جگہوں پر جہاں ان کے امیدوار کھڑے نہیں تھے یا دوسروں کے حق میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کیا اگر وہاں پر ہمیں سپورٹ کیا جاتا تو ان کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوتا اور داخلی وحدت بھی پروان چڑھتی۔ اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا حق تھا، جو انہوں نے استعمال کیا۔
 

سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مشرق وسطٰی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کو خاطر خواہ نشستیں نہ ملنے، آغا راحت کے الیکشن فارمولے کی ناکامی، مسلکی سیاست اور ملی حقوق کی بازیابی سے متعلق اہم اور تلخ سوالات پر مشتمل ایک تفصیلی انٹرویو کیا گیا ہے، اسلام ٹائمز کی جانب سے کوشش کی گئی ہے کہ عام افراد کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کو انٹرویو کا حصہ بنایا جائے، اس حوالے سے مخصوص فورم پر اٹھائے گئے سوالات کو بھی انٹرویو میں شامل کیا گیا ہے، جو پیش خدمت ہیں۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان انتخابات سے پہلے اور الیکشن کمپیئن کے دوران میں آپکو حاصل شدہ نتائج کی توقع تھی۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں اس کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ یہ جانتے ہوئے کہ گلگت بلتستان ایک حساس علاقے ہے، جہاں عوام کو آئینی حقوق نہیں ملے اور پاکستان میں بھی انہیں مین اسٹریم میں شامل نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے وہاں پر عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ کشمیر کی طرح جو بھی وفاق میں حاکم ہوتا ہے، وہی گلگت بلتستان میں بھی حکومت کرتا ہے اور وہی کشمیر میں بھی حاکم ہوتا ہے، طول تاریخ میں کسی حد تک یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی ہے، یہ نظریہ کسی حد تک ابھی موجود تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم نے اس نظریہ کے مقابلے میں بھی اسٹینڈ لینا تھا، ظاہر ہے ہم یہاں کبھی حکومت میں نہیں رہے، حکومت میں نہ رہنے کی وجہ سے جو حکومت میں رہتے ہوئے لنکس بنتے ہیں، وسائل دستیاب ہوتے ہیں تو یہ ساری چیزیں ہمارے پاس نہیں تھیں، کوئی ایسا بندہ نہیں تھا جو کہتا کہ مجلس وحدت مسلمین نے انہیں نوکریاں دی ہیں جبکہ جو حکومتیں کرچکی ہیں وہ جماعتیں یہ کہتی ہوئی نظر آئیں، یہ جماعتیں نوکریوں سے لیکر احسانات کی لمبی لسٹ گنواتی تھیں، یہ علاقہ مذہبی علاقہ ہے، لیکن ہم بنام مذہب اور مسلک چیزوں کو آگے نہیں بڑھانا چاہ رہے تھے، ہم ایسی کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہ رہے تھے کہ فلاں کو ووٹ دینا حرام ہے فلاں کو مستحب ہے، مذہب نے جو اقدار متعارف کرائی ہیں، جن میں ڈیلور کرنا، لیاقت، قابلیت اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہ رہے تھے اور ہماری پوری الیکشن کمپیئن اس بات کی غماز ہے۔

ہم اپنے امیدواروں کی تعلیمی قابلیت، ان کا سابقہ کردار اور علاقے میں ان کی نیک نامی، اپنے منشور اور اپنے پروگرام کے مطابق آگے بڑھنا چاہ رہے تھے اور آگے بڑھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک چیلنج تھا، کیونکہ اس سے پہلے مذہبی اور سیکولر دونوں جماعتوں کے تجربات ہوچکے ہیں اور دونوں نے عوام کو ڈیلور نہیں کیا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک جماعت نے پہلے آٹھ نشستیں حاصل کی تھیں، بعد میں چار پر آگئی اور اس بار ان کی سیاسی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی اور آج اس الیکشن میں عوام نے انہیں ٹھکرا دیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ گذشتہ دو الیکشنز کے دوران کوئی مذہبی جماعت براہ راست گلگت بلتستان کے الیکشن میں وارد نہیں تھی، جو تقریباً پندرہ سال کا وقفہ بنتا ہے تو اس بار ہم پہلی دفعہ مذہبی جماعت کے ٹائٹل سے داخل ہوئے، تاہم ہماری تمام تر کوشش اپنی لیاقت، استعداد، پڑھے لکھے بے عیب امیدواروں اور اپنے منشور کی بنیاد پر جانا تھا۔ ہمیں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا تھا، اس لئے جب ہم کامیابی اور ناکامی کی بات کریں گے تو ان چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے کریں گے۔ ہمیں پہلے دن سے اندازہ تھا کہ ہم جس جماعت کیخلاف الیکشن لڑنے جا رہے ہیں وہ مسلم لیگ نون ہے، یعنی وفاق میں موجود جماعت کے پنجاب میں پنتیس پنکچر کے تجربات موجود ہیں، وہ ٹیکنکل دھاندلی کرنے کی ماہر ہے، یہ جماعت ٹھپوں سے زیادہ ٹیکنکل اندازہ میں دھاندلی کراتی ہے اور اس میں مہارت رکھتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ نون لیگ نے بارہ نگران وزراء تعینات کئے جو ایک تاریخ رقم کی گئی، آج تک اتنے وزراء مقرر نہیں کئے گئے، لیکن نون لیگ نے الیکشن جیتنے کیلئے تمام تر ریکارڈ توڑ ڈالے، آئینی لحاظ سے جہاں دس سیٹیں ہوں وہاں ایک وزیر تعینات کیا جاسکتا ہے، اس لئے گلگت بلتستان میں چوبیس سیٹیں تھیں تو یہاں تین وزراء کی گنجائش بنتی ہے، لیکن انہوں نے تمام جماعتوں کے تحفظات کے باوجود ان کی تعداد ہر حال میں بارہ رکھی۔ ایک وزیر کو دو حلقے دیئے گئے، تاکہ وہ وزیر نون لیگ کیلئے سیاسی اہداف حاصل کرسکے۔ اسی طرح نگران وزیراعلٰی نون لیگ کا تھا، جس پر تمام جماعتیں اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کرچکی تھیں۔ اسی طرح نون لیگ نے ایک غیر مقامی شخص کو گورنر تعینات کیا، جو اس کیلئے کام کرسکے اور ہر حال میں حکومت سازی کیلئے الیکشن پر اثر انداز ہوسکے۔ چیف سیکرٹری جس نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی، اسے تبدیل کر دیا گیا۔ لہٰذا ہمیں اندازہ تھا کہ ہمارا حکومتی وسائل اور نون لیگ کی دھاندلی کیخلاف الیکشن ہے، سب جانتے ہیں کہ الیکشن سے چند دن پہلے وزیراعظم نے وہاں کا دورہ کیا اور اربوں روپے کے پروجیکٹس کا اعلان کیا، یہ بنیادی طور پر ایک رشوت تھی جس کا اعلان کیا گیا، یہ فقط الیکشن کی تاریخ سے دو دن پہلے اعلان کیا گیا۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ اس سارے منظر نامے میں مجلس وحدت مسلمین ایک نئی سیاسی مذہبی جماعت تھی، جس نے ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنا تھا۔ اسی حساب سے ہم نے توقعات رکھی ہوئی تھیں، ہم نے نون لیگ کے مقابلے میں اپنے پیغام، خدمات اور اپنے منشور کے حساب سے توقعات وابستہ کی ہوئی تھیں، ہمیں معلوم تھا کہ جتنی اچھی ٹیم متعارف کرائیں گے، اتنا ہی اچھا رزلٹ ملے گا۔ ہماری توقعات تھیں کہ ہمیں چار سے چھ سیٹیں مل جائیں گی۔

جب ہماری الیکشن کمپیئن اپنے عروج پر پہنچی تو اس کا غیروں نے بھی اعتراف کیا کہ اگر کسی کی الیکشن کمپئین منظم انداز میں چلی ہے تو وہ مجلس وحدت کی ہے۔ جس انداز میں ہم نے اپنی ٹیم اتاری، جس انداز میں اپنے منشور کو بیان کیا، جس انداز میں اپنے پیغام کو لوگوں تک منتقل کیا، انٹرویوز ہوئے اس سے ہماری اور قوم کی توقعات بڑھیں، یہ یاد رکھیں کہ جب میڈیا میں جنگ چل رہی ہوتی ہے تو کہیں بھی یہ بیان نہیں کیا جاتا ہمیں چار یا چھے سیٹیں ملیں گے، کیونکہ ہم خطے کی جنگ لڑ رہے تھے، اس لئے ہم نے کہیں بھی یہ نہیں کہا ہم اتنی سیٹیں لے لیں گے۔ نہ ہی اس طرح کی چیزوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ہماری توقعات مشروط تھیں، بعض جماعتوں نے جس انداز میں اپنی الیکشن کمپین چلائی ہے، وہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ ہیلی کاپٹرز استعمال میں لائے گئے، میڈیا کی لائیو کوریج والی ڈی ایس جیز منگوائی گئیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت لوگوں میں پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا، یہ چیزیں ہمارے لئے ممکن نہیں تھا۔ اپنی گلگت بلتستان الیکشن میں پہلی انٹری کی بنیاد پر ہم دوسری بڑی جماعت ٹھہرے ہیں، ہم نے لوگوں کے دل جیتے ہیں، ہم گلگت بلتستان کے طول عرض میں چلے گئے ہیں، ہر جگہ پر ہمارا نیٹ ورک بن گیا ہے، اسٹرکچر کھڑا ہوگیا ہے، پیغام چلا گیا ہے، جن پانچ سیٹوں کی امید تھی ان میں سے ایک سیٹ پر ہمیں فقط نو ووٹوں سے ہرایا گیا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ روندو کی سیٹ پر دوبارہ گنتی نہیں ہونے دی گئی جبکہ کئی حلقوں میں ایک نہیں چار چار بار گنتی کرائی گئی۔ خود تحریک انصاف کے امیدوار کو دوبارہ گنتی کرکے ایک ووٹ سے ہرایا گیا اور اکبر تابان کو جتوایا گیا۔ ہمارا اس طرح کی ریاستی مشینری سے مقابلہ تھا، حتٰی حلقہ 3 میں بھی ہمارے ساتھ یہی صورتحال کی گئی۔ میری توقعات کے مطابق ہمیں دو سیٹیں مزید ملنی چاہیے تھیں، جو ریاستی مشینری استعمال کرکے نہیں جیتنے دی گئیں۔ ایک سیٹ پر ہمیں نو ووٹوں سے اور ایک پر ہمیں دو یا اڑھائی سو ووٹوں سے ہرایا گیا ہے، لیکن ہمارے دوبارے گنتی کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا، ہم نے اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کمپین پر کتنی رقم خرچ کی گئی، کیا اس خرچ کی گئی رقم کے مطابق اہداف حاصل کر لئے گئے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس حوالے سے بہت زیادہ پروپیگنڈے کئے گئے ہیں، لیکن میں آپ کو بتاوں کہ اگر کسی جماعت نے سب سے کم انویسٹمنٹ کی ہے تو وہ مجلس وحدت مسلمین ہے۔ چند مثالیں دوں گا، نون لیگ نے پوری ریاستی مشینری کا استعمال کیا ہے، جس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ پیپلزپارٹی نے دو ہیلی کاپٹر استعمال کئے، مرکز کی سطح پر پیپلزپارٹی کی بڑی ٹیم اس الیکشن میں اتاری گئی اور مرکز کی طرف سے تمام الیکشن کمپین کو آرگنائز کیا گیا، مرکزی ٹیم میں پیپلزپارٹی کے سابق چیئرمین سینیٹ نئیر حسین بخاری، قمر زمان کائرہ، سید خورشید شاہ، سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا، ندیم افضل چن سمیت کئی دیگر افراد کو مرکز کی طرف سے بھجوایا گیا، جنہوں نے بھرپور انداز میں الیکشن کمپین چلائی۔ آپ دیکھیں کہ ایک ہیلی کاپٹر فی گھنٹہ چار سے پانچ لاکھ روپے چارج کرتا ہے اور دو ہیلی کاپٹر چوبیس گھنٹے کئی دنوں تک پی پی پی کی الیکشن کمپین ٹیم کے پاس رہے۔ ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی سابقہ حکومت میں رہی ہے اور ان کے سابقہ تجربات بھی رہے ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان تحریک انصاف کی بات کریں تو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کے پاس بھی ہیلی کاپٹر رہا، جتنے اجتماعات ہوئے ان میں ہیلیز کے ذریعے شرکت کی گئی، حتٰی تحریک انصاف میڈیا کی ٹیمیں لیکر آئی، ان کی لائیو نشریات نشر کرنے والی ڈی ایس این جی تک الیکشن میں اتاری گئیں اور تحریک انصاف کی طرف سے میڈیا کو رہائش سے لیکر ہر طرح کی سہولت دی گئی۔ اس طرح ایک مذہبی جماعت نے گلگت بلتستان میں جی بی کے نام سے ٹی وی چینل نکالا۔ آپ کو پتہ ہے ٹی وی چینل ایک بہترین ٹول ہے جس کے ذریعے سے آپ پروپیگنڈہ کرسکتے ہیں اور اپنی بات لوگوں تک باآسانی منتقل کرسکتے ہیں، ہماری طرف سے چند سیکنڈز پر مشتمل فقط اشتہارات دیئے گئے، یا اخبارات میں اشتہارات چھپوائے گئے جبکہ دوسری طرف مذکورہ باتوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ ٹی وی چینل فقط اسی سیاسی اہداف کے لئے لگایا گیا، اس کے مقابل میں مجلس وحدت کا فنانشنل تقابل بنتا ہی نہیں ہے، ہمارے کیخلاف پروپیگنڈہ اس لئے زیادہ کیا گیا ہے کیونکہ ہمارا ہیومن ریسورس زیادہ استعمال ہوا ہے، اس لئے نون لیگ یا سابقہ حکومت کرنے والی جماعت پیپلزپارٹی کیلئے مسئلہ مجلس وحدت تھی، سب کو چیلنج دیا ہوا تھا اور سب کی توپوں کا رخ بھی مجلس وحدت مسلمین ہی کی طرف تھا، اور ظاہر ہے کہ ہم نے ان سب کو چیلنج کیا ہوا تھا، اس لئے یہ پروپیگنڈا فطری تھا۔ آپ دیکھیں کہ مجلس وحدت مسلمین واحد جماعت تھی جس کی تمام لیڈرشپ بائی روڈ گئی ہے اور آئی ہے۔ علامہ ناصر عباس اور علامہ امین شہیدی تک لوگ بائی روڈ واپس آئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اتحادی صاحبزادہ حامد رضا بھی بائی روڈ آئے ہیں اور گئے ہیں، انہیں بائی ائیر سفر نہیں کرایا گیا۔ اسی طرح ہم نے جو ٹیم پولیٹکل ایجنٹس کی تربیت کیلئے منگوائی تھی، وہ بھی بائی روڈ آئی اور گئی ہے۔ مرکزی کابینہ سے لیکر مہمانان گرامی تک تقریباً 99 فی صد لوگ بائی روڈ آئے اور گئے ہیں، اِکا دُکا افراد کو چھوڑ کر۔ ہماری پوری ٹیم سوائے مہمانان گرامی کے سب کسی نہ کسی تنظیمی دوست کے گھر ٹھہرے ہیں یا انہیں ایک مکان مینیج کرکے رہائش کا بندہ بست کیا گیا ہے، ہماری ٹیم کے لوگ فرشوں پر سوتے رہے ہیں، سوائے چند مہمانان کہ جیسے حامد رضا اور تربیتی ٹیم کے سب دوستوں کے، ہمارے دفاتر اور دوستوں کے گھر رہائش کے طور پر استعمال ہوئے ہیں، جس کی گواہی وہاں کے لوگ بھی دیں گے، اس حوالے سے کوئی لگژری اہتمام نہیں کیا گیا تھا۔

ہمارے جتنے بھی دوست باہر سے آئے تھے، انہیں ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ اپنی گاڑیاں ہمراہ لائیں گے۔ ہم نے اس طرح سے چیزوں کو مینج کیا ہے، کیونکہ ہماری موومنٹ بڑی تھی، اس کا سکیل بڑا تھا، موومنٹ کا انداز اچھا تھا، اس کے والیم کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بڑی عوامی موومنٹ تھی۔ لیکن یہاں واضح کر دوں کہ یہ ساری موومنٹ رضاکارانہ تھی، لوگ اپنی گاڑیاں لیکر شریک ہوئے۔ ایک مثال دوں گا کہ اسکردو میں علامہ ناصر عباس جعفری کے استقبال میں آنے والی ریلی میں کسی ایک بندے کو ایک لیٹر تک پیٹرول نہیں دیا گیا، نہ ہی کسی کو گاڑی فراہم کی گئی، یہ عوام کی محبت تھی، ان کا جذبہ تھا اور مجلس کی قیادت کیساتھ والہانہ عشق تھا۔ لہٰذا اس سائز کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ پیسوں کی بنیاد پر ایسا تھا تو ایسا نہیں تھا۔ ہم نے تمام صوبوں کے دفاتر کے فنڈز کو منجمد کرکے اور تمام سرگرمیوں کو ترک کرکے الیکشن کمپین چلائی، ہم نے واجبی چیزیں کی تھی جس میں عوام کی شرکت بہت زیادہ تھی، عوام کا جوش بہت زیادہ تھا، اس لئے لوگوں کو یہ تاثر ملا جیسے یہ سب پیسے کی بنیاد پر ہو رہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے پانچ پانچ ہزار روپے کے عوض ووٹ کی بولی لگائی، جس کے ہمارے پاس شواہد موجود ہیں۔ ظاہر ہے ہمارے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے، اگر ہوتے بھی تو ہم ایسا کام کبھی نہ کرتے، کیونکہ ہماری جنگ ہی اس چیز کیخلاف تھی۔ مجلس کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے پیسے اور وسائل کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا، اس کے باوجود مجلس وحدت کو جو مینڈیٹ ملا ہے وہ معجزہ ہے، اس لئے یہ تقابل نہیں بنتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے عوامی خدمات جاری رکھیں تو عوام پر اپنا اعتماد بحال رکھیں گے اور آئندہ ایک بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھریں گے۔ اس وقت ووٹوں کی تعداد کو سامنے کر رکھا جائے تو مجلس وحدت گلگت بلتستان میں دوسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے۔ پچھلے سوال کے جواب میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اخراجات کے تناظر میں کامیابی کا سائز بہت بڑا ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات سے کیا نتائج اخذ ہوئے، یعنی عوام کی فکری سطح، مذہبی جماعتوں کا عوام میں رسوخ، آئندہ کی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا کردار وغیرہ۔ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں یہ سمجھتا ہوں کہ جسے ہم مفروضہ سمجھتے تھے وہ حقیقت ثابت ہوا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت کا گلگت بلتستان کے الیکشن میں عمل دخل زیادہ ہوتا ہے، یہ عمل دخل کم ہوجائیگا اگر کبھی گلگت بلتستان الیکشن بھی پاکستان میں ہونے والے عام الیکشن کے دنوں میں ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے مذہب کو رد کیا ہے، گذشتہ دس پندرہ سال سے شیعہ جماعتیں گلگت بلتسان میں ایکٹو نہیں رہیں، اس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا تو ان سیاسی جماعتوں نے اس خلا کو پُر کیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین نے آکر دوبارہ لوگوں کو مذہب اور مذہبی جماعت کے طرف رجوع کرایا ہے اور یہ ایک تبدیلی لائی ہے۔ اگر گذشتہ الیکشن میں مذہبی جماعتوں کے پاس ایک بھی سیٹ نہیں تھی اور اس الیکشن میں ان کے پاس چار سیٹیں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ چیزیں واپس اپنے مقام کی طرف آرہی ہیں اور لوگوں نے مذہب کی طرف اپنے لگاو کا اظہار کیا ہے۔ اگر منتخب افراد نے خدمت کی تو یہ عامل مزید پختہ ہوگا اور لوگ مذہبی جماعتوں سے انس رکھیں گے اور ساتھ دیں گے۔ لوگوں نے یہ دیکھا ہے کہ خدمت کی یا نہیں، اگر خدمات نہیں کی تو لوگوں نے پیپلزپارٹی کو بھی رد کر دیا ہے۔ اسی طرح آپ دیکھیں کہ مذہب کا عنصر اتنا گہرا ہے کہ مسلم لیگ نون کے امیدوار بھی اپنے انتخابی پوسٹرز پر رہبر معظم کی تصاویر لگانے پر مجبور ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں نے مذہب کو رد نہیں کیا۔ مذہبی عنصر اپنی جگہ قائم ہے، اگر مذہبی جماعتیں وہاں اچھا اور بہتر رول ادا کریں گی تو اس سے نہ صرف ان کا اپنا چہرہ اچھا ہوگا بلکہ مذہب کی خوبصورت تصویر سامنے آئیگی۔ لوگوں کو پتہ چلے گا کہ مذہبی لوگ ڈیلور کرسکتے ہیں، جس طرح بلوچستان اسمبلی میں ہمارے آغا رضا نے ایک ممبر ہونے کے باوجود کئی ایسے کام کئے ہیں جس پر وہ لائق تحسین ہیں۔ ایوان میں بہت ساری تبدیلی لیکر آئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں 2013ء اور اب گلگت بلتستان میں انتخابی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کو کیا بنیادی اقدامات کرنے چاہیں کہ وہ مین اسٹریم جماعتوں میں وارد ہوسکے اور عوام کا اعتماد حاصل کرسکے۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں پہلے تو یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی جماعت جب ایک پراسس میں جاتی ہے تو اس سے کچھ نہ کچھ غلطیاں، کوتاہیاں اور کچھ نہ کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اچھی مینجمنٹ کی نشانی یہی ہوتی ہے کہ کوتاہیوں کو کم کرکے جو اچھے اقدامات ہوئے ہوتے ہیں انہیں آگے بڑھایا جائے۔ دو ہزارہ تیرہ کے الیکشن میں ہم سے پہلے عمومی تاثر یہ پیدا کر دیا گیا تھا کہ پاکستان میں فقہ جعفریہ کا سروائیول یا تو نون لیگ میں ہے یا پھر پیپلزپارٹی کے اندر، یا دیگر سیاسی جماعتوں کے اندر، اس کے نتیجے میں لوگ اپنی شناخت اور حمیت کھو بیٹھے تھے۔ ایسے میں ہم نے لوگوں کو شناخت بھی دی اور حمیت کا حساس بھی دلایا۔ ایک ایسی فضا میں جب مذہبی شناخت والی جماعتیں لوگوں کو سیاسی جماعتوں کی طرف رجوع کرا رہی تھیں، ایسی صورت میں مجلس وحدت نے پرچم بلند کرکے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں، ہم اپنے سیاسی سفر کے نتیجے میں سیاسی اہداف حاصل کریں گے۔ اگر تقابل کریں کہ عمران خان جس کی ایک کرکٹر کے شناخت تھی وہ سیاست میں آتا ہے، اچھے خاصے وسائل صرف کرتا ہے لیکن اسے پہلے الیکشن میں کوئی سیٹ نہیں ملتی، پانچ سال بعد دوسرا الیکشن لڑے تو وہ بھی فقط ذاتی سیٹ لینے میں کامیاب ہوئے، اب 20سال بعد وہ اس سفر پر پہنچے ہیں۔

مجلس وحدت کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ پہلی بار کھڑی ہوئی تو ایک سیٹ حاصل کی، بعض سیٹوں پر رنر اپ رہی رہی اور بعض پر اچھا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب رہی۔ اسی طرح گلگت بلتستان الیکشن میں ہمارا ان کے ساتھ مقابلہ تھا جن کے پاس سرکاری وسائل تھے، جن کی صوبوں اور مرکز میں حکومتیں تھیں، اوپر مذکورہ تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے دو سیٹیں نکالنا بھی ایک کامیابی ہے اور ایک سیاسی طاقت کے طور پر ابھرے ہیں اور یہ سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ہمیں جن کوتاہیوں کا احساس ہوا ہے، اگر ہم نے انہیں دور کرلیا تو انشاءاللہ پاکستان میں فیصلہ کرنے والی جگہوں پر ہمارا رول نظر آئیگا اور ہمارا وہاں نقش موجود ہوگا۔ جب ہم نے شروع میں الیکشن میں وارد ہوئے تھے تو ہم اچھے الکٹیبلز نہیں دے پائے تھے، اب اچھی تعداد سامنے لیکر آئے ہیں، ان علاقوں میں اب ہمیں یونین کونسل کی سطح تک تنظیم کو لیکر جانا پڑیگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یونین کونسل سطح سے لیکر اوپر تک تنظیمی ڈھانچہ ہوگا تو ہم ملکی سطح پر کوئی سیاسی کردار ادا کرسکیں گے۔ اب ہمیں سیاسی انداز بھی اختیار کرنا ہوگا، میرا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات مذہبی جماعتیں فقط مذہبی امور پر اسٹینڈ لیتی ہیں، لہٰذا اب ہم معاشرے میں ہونے والے ہر ظلم پر  آواز اٹھائیں گے، ہر معاشرتی معاملے پر آواز اٹھائیں گے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ ہم نے یمن کے معاملے پر میڈیا سے لیکر ہر محاذ پر سیاسی کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں فوج کو یمن جنگ کا حصہ بننے سے روک دیا گیا، یہ ایک فیصلہ کن کردار ہے، جسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں مذہبی یا مسلکی عنوان سے سیاست کرنے میں کیا دشواریاں حائل ہیں، ان کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے، مذہبی یا مسلکی گروہ ملکی سیاست میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: اس کو عمومی کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے، پاکستان جس کی اساس مذہب ہے اور مذہب کی بنیاد پر ایک الگ ملک حاصل کیا گیا، شروع سے لیکر اب تک پاکستان میں مذہبی جماعتیں اسٹیک ہولڈر کے طور پر کام کرتی رہی ہیں، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان میں عوام تک کچھ ڈیلور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں، جیسے جے یو آئی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کا ایک بڑا رول رہا ہے، جب وہ اپنا رول ادا کرنے میں کامیاب نہیں رہیں تو اس خلا کو دیگر جماعتوں نے پر کیا ہے، لیکن پھر بھی ان کا رول اور نقش نظر آتا ہے۔ یہ اہم سوال ہے کہ ہمیں کیوں مسلکی سیاسی رول ادا کرنا چاہیے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم نے گذشتہ پندرہ بیس سال میں کوئی مذہبی و مکتبی سیاست نہیں کی اور یہ میدان خالی چھوڑا ہے۔ اس عرصے کے دوران ہمارا سیاسی کردار نہیں رہا، ہم کسی نہ کسی سیاسی جماعت کیساتھ ملکر سیاسی کردار ادا کر رہے تھے، حتٰی تشیع سے مربوط امور تھے یا ملک سے متعلق امور وہ تشنہ تھے، ہمارا استحصال بڑھتا جا رہا تھا۔ میں مثالیں پیش کرنا چاہوں گا کہ حکومتی سرپرستی میں طالبان کو پالا گیا، فارن پالیسی میں واضح تبدیلیاں کی گئیں، دہشتگردوں کو سپورٹ کرنے کا عنصر غالب آنا شروع ہوگیا، پھر یہی عنصر پاکستان کو لگنا شروع ہوگیا، ریاست پر حملے ہونا شروع ہوگئے، اس دوران دو چیزوں کو خطرہ لاحق ہوگیا، پاکستان بطور وطن اور دوسرا مکتب اہل بیت ؑ کے لوگوں کو خطرہ درپیش ہوگیا، ان لوگوں کو ایک خاص سوچ کے تحت پالا گیا تھا اور وہ سوچ تکفیر پر مرتکز ہوئی، اس چیز کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاست میں حصہ لیا جائے اور ان چیزوں کو وہاں سے روکا جائے، جہاں تکفیری بنانے اور طالبان بنانے کے فیصلے کئے جاتے ہیں، وہاں پر ہونے والے فیصلوں پر اثرانداز ہوا جائے، اب ظاہر ہے یہ سارا عمل سیاسی عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ جب آپ سیاست میں جاتے ہیں تو پھر براہ راست چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے مجلس وحدت مسلمین کو کرنا پڑ رہا ہے، ہماری ذمہ داری ہوگی کہ ہم جہاں اپنے مکتب کا استحصال نہ ہونے دیں وہی دیگر مکاتب فکر کا استحصال بھی نہ ہونے دیں، یہ ہماری شرعی ذمہ داری ہوگی، لیکن جب آپ کی کوئی سیاسی شناخت ہی نہیں ہوگی تو آپ کیسے کسی دوسرے مظلوم کے سر پر دست شفقت رکھ سکیں گے۔

سیاسی طاقت بنے بغیر کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں، خاص طور پر وہاں، جہاں ریاست سے متعلق فیصلے ہوتے ہوں۔ لہٰذا یہ کام کرنا ہوگا، سیاسی طاقت بننا ہوگا، یہ قائد شہید کی دلی آرزو تھی کہ ہم اتنے طاقتور ہوں کہ ریاستی فیصلے ہماری مرضی و منشا کے بغیر نہ ہوسکیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب آپ سیاسی جدوجہد کرتے ہیں تو آپ کے راستے میں مخالف جماعت کھڑی کر دی جاتی ہے جو تکفیر کی قائل ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ہم امت کی وحدت کے قائل ہیں، تمام سنی جماعتوں کو جمع کیا ہے، اکٹھے اجتماعات کئے ہیں۔ صاحبزادہ حامد رضا کا خود ہماری الیکشن کمپین میں آنا ثابت کرتا ہے کہ کس حد تک کام ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم ایک مسلک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن فرقہ پرست نہیں ہیں، اسی لئے سیاسی سطح پر شیعہ سنی وحدت کیلئے کام کیا ہے، جس کے نتیجے میں ہم نے سیاسی فوائد حاصل کئے ہیں، جیسے طالبان کیخلاف ایک محاذ بنانا، یمن کا معاملہ اور دیگر امور۔ آپ دیکھیں کہ جماعت اسلامی پنجاب میں ایک سیٹ سے زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر پاتی، مولانا فضل الرحمان کی جماعت پنجاب میں ایک سیٹ تک حاصل نہیں کرسکتی، لیکن وہ اہم فیصلہ جات میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا اپنا ایریا ڈیلوپ ہے، خاص جگہوں پر کام کیا ہے، آج وہ سیاسی قوت ہیں۔ انہوں نے اپنا سیاسی حَب بنا لیا ہے، لیکن افسوس کہ ابھی تک ہم نے کوئی اپنا سیاسی حَب نہیں بنایا۔ جب ہم ایسا کرلیں گے تو ہم بھی اس طرح مین اسٹریم پولیٹکس میں آجائیں گے۔ آپ دیکھیں کہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی پورے پاکستان میں الیکشن میں حصہ لیتے ہیں، خواہ کم ووٹ ہی کیوں نہ پڑیں، ان کا سیاسی کردار پورے ملک میں ہوتا ہے۔ ہم نے دو صوبوں میں اپنی سیاسی شناخت بنا لی ہے، انشاءاللہ آئندہ دیگر صوبوں میں بھی آپ کو سیاسی رول ہوتا نظر آئیگا۔ اگر ہم ہر صوبے میں اپنا سیاسی حَب بنا لیں تو ہم بھی اہم فیصلوں میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہر راستے میں دشواریاں ضرور ہیں، لیکن ہر مشکل کا حل بھی موجود ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک پاکستان کے دوستوں کا خیال ہے کہ گلگت کی تین سیٹیں نون لیگ کو مجلس وحدت مسلمین کی وجہ سے ملی ہیں، آغا راحت کے فیصلے یا فارمولے کو مان لیا جاتا تو نون لیگ گلگت سے ایک سیٹ بھی نہیں لے سکتی تھی۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پہلی بات یہ ہے کہ یہ مفروضہ درست نہیں ہے، جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہماری وجہ سے یہ سیٹیں نون لیگ کو ملی ہیں، وہ لوگ تو مائنس نون لیگ کے فارمولے کو تسلیم ہی نہیں کرتے، اس کے تمام شواہد موجود ہیں۔ وہ ملاقات جس میں آغا راحت موجود تھے، علامہ ساجد نقوی صاحب، علامہ ناصر عباس جعفری، پیپلزپارٹی کی جانب سے ندیم افضل چن، فیصل رضا عابدی، صاحبزادہ حامد رضا بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ اس ملاقات میں مائنس نون لیگ کو تسلیم نہ کرنا ہی ہے نون لیگ کی گلگت بلتستان میں بقاء کا ضامن بنا ہے۔ اس ملاقات میں بندہ حقیر بھی موجود تھا، وہاں حلقہ نمبر 2 کے لئے باقاعدہ طور پر طے پایا اور مجلس وحدت مسلمین آغا راحت کے کہنے پر دستبردار ہوگئی۔ ہم نے واضح کہا ہے کہ ہم کسی جماعت کے حق میں نہیں بلکہ آغا راحت کے کہنے پر دستبردار ہوئے ہیں۔ آغا راحت کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے بعد جب آپ باہر نکلیں گے تو یہ بات کہیں گے کہ ابھی معاملات چل رہے ہیں اور گفت شنید کا سلسلہ جاری ہے، تاکہ دشمن کو پیغام جائے کہ یہ حلقہ دو کے حوالے سے متحد نہیں ہوئے، ورنہ خود دشمن متحد ہو جائیگا۔ لہذا اس حکمت عملی کے تحت یہ اختیار آغا راحت کو دے دیا گیا تھا کہ وہ جب چاہئیں اس کا اعلان کر دیں۔ آغا راحت بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ان کے اختیار میں تھا کہ وہ جب چاہیں گئے مناسب وقت پر اس کا اعلان کردیں گے، لیکن یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ حلقہ 2 میں سب کے دستبردار ہونے کے باوجود سیٹ نون لیگ لے گئی ہے۔

حلقہ نمبر 1 میں ہم نے پہلے دن سے نشاندہی کی تھی کہ نومل سے کھڑا ہونے والا امیدوار بنیادی طور پر مسلم لیگ نون نے کھڑا کیا ہے، وہ آزاد حیثیت سے کھڑا تھا اس لئے ہمیں مل کر اس کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے تھا اور اس پر اگر اچھا رول پلے کیا جاتا تو نومل کے ان صاحب کو ووٹ نہیں ملتے۔ آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی الیکشن ختم ہوا تو اس کے فوراً بعد حفیظ الرحمن پہلے وہاں گئے اور اس کے بعد جعفراللہ نومل آئے اور باقاعدہ طور پر سید نظام الدین نے نون لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ یہ آزاد میدوار تھے جسے نون لیگ نے کھڑا کیا ہوا تھا، اگر نظام الدین کھڑا نہ ہوتا تو یہ سیٹ ہر حال میں مکتب اہل بیت کے پاس جانی تھی۔ اس نشست پر شکست کا سبب نظام الدین بنے۔ نظام الدین کو آغا راحت نے کہا تھا لیکن وہ ان کے کہنے پر دستبردار نہیں ہوئے۔ آغا راحت نے حلقہ نمبر 2 میں مجلس وحدت مسلمین کے مضبوط امیدوار کے دستبردار ہونے کے بعد حلقہ نمبر 1 سے امجد ایڈووکیٹ جو کہ پی پی پی کے امیدوار تھے ان کے گھر گئے، یہ بات خود آغا راحت سے کنفرم کی جاسکتی ہے، لیکن امجد ایڈووکیٹ نے آغا راحت کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ حتٰی آغا راحت نے امجد ایڈووکیٹ کو ٹیکنو کریٹ کی سیٹ تک دینے کی آفر کی لیکن وہ نہیں مانے۔ دوسرا ایک بنیادی اصول بھی ہے کہ اگر ایک سیٹ پر آپ کو فیور مل گئی ہے تو دوسری سیٹ پر آپ نے فیور دینی ہے، اگر مجلس کو فیور مل جاتی تو یہ سیٹ نکل آتی۔ حلقہ دو میں نظام الدین اور حلقہ ون میں امجد ایڈووکیٹ رکاوٹ کا باعث بنے۔

اسلام ٹائمز: آغا راحت الحسینی نے کیا فارمولا دیا تھا؟
ناصر عباس شیرازی: آغا راحت الحسینی نے جو فارمولا دیا تھا، وہ یہ ہے کہ حلقہ نمبر 1 سے صرف پیپلز پارٹی دستبردار ہو، حلقہ نمبر 2 سے MWM دستبردار ہو اور حلقہ نمبر 3 سے اسلامی تحریک کے امیدوار کو سپورٹ کیا جائے۔ عملی طور پر پیپلزپارٹی نے ہاتھ کھڑے کر دیئے اور کہا کہ وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنے کسی امیدوار کو بیٹھا دے۔ یوں اس فارمولے کی ناکامی میں پیپلزپارٹی کا بھی ہاتھ تھا۔ اس طرح حلقہ نمبر 3 کی بھی میں بات کرنا چاہوں گا کہ اس حلقہ کی شخصیت کپٹن ریٹائرڈ شفیع اسلامی تحریک کے امیدوار تھے، وہ آخری لمحے تک مجلس وحدت کے امیدوار بننا چاہ رہے تھے، آخری لمحہ میں خود ان کی ٹیم میرے پاس موجود تھی اور کہا کہ اگر آپ ہمیں ٹکٹ دے دیں تو ہم ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت کرلیں گے، لیکن چونکہ مشکل یہ تھی کہ انہوں نے قبائلی عصبیت کی بنیاد پر اپنی موومنٹ کا آغاز کیا تھا، جو دین کے اوپر ایک کاری ضرب تھی اور وہ اس روش کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اسی وجہ سے مجلس وحدت مسلمین نے ان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقت پسندانہ طور پر ان چیزوں کا جائزہ لینا چاہیئے، بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کی ہٹ دھرمی اور نون لیگ کی اس پلاننگ کہ جس کے نتیجے میں انہوں نے شیعہ قلب کے اندر اپنے امیدوار کھڑے کر دیئے، ہماری حکمت عملی کی ناکامی کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب ملکر بھی نظام الدین جیسے بندے کو نہ بٹھا سکے، مجلس وحدت مسلمین کو اس کا سبب قرار دینا سراسر زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: جی بی پر شیعہ جماعتوں کا اگر آڈٹ کرایا جائے تو کیا آپ تعاون کریں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: پہلے تو میں عرض کروں گا کہ مجلس وحدت مسلمین کے تمام شعبوں کا آڈٹ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاسی شعبے کا ماہانہ آڈٹ ہوتا ہے، سہہ ماہی اور سالانہ آڈٹ بھی ہوتا ہے، پروجیکٹ بیس آڈٹ بھی ہوتا ہے اور وہ ماہر آڈیٹر کی نگرانی میں ہوتا ہے، جس کی باقاعدہ رپورٹ مرتب ہوتی ہے۔ ایک چیز واضح کر دوں کہ ایم ڈبلیو ایم کا فنانس ڈیپارٹمنٹ اس وقت تک حرکت میں نہیں آتا جب تک اسے گذشہ ماہ کی رپورٹ جمع نہ کرائی جائے۔ الحمدللہ احتساب کا نظام موجود ہے اور شفافیت کے بنیاد پر آڈٹ کیا جاتا ہے۔ تمام ادارے اس کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں اگر مجلس وحدت مسلمیں کے ادارے مناسب سمجھیں تو آڈٹ رپورٹ بھی پبلک کی جاسکتی ہیں، اگر کسی نے آڈٹ کرنا ہے یا چیک کرنا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔

اسلام ٹائمز: کراچی کے ضمنی الیکشن میں آپکی جماعت نے تحریک انصاف کو سپورٹ کیا، بدلے میں آپکو گلگت بلتستان میں بھی کوئی حمایت ملی۔؟
ناصر عباس شیرازی: کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ وہاں کے رہنماوں نے کیا تھا، یہ فیصلہ کراچی کے پانچوں اضلاع کا متفقہ فیصلہ تھا، اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں، اس میں سیاسی شعبے نے اضلاع اور صوبوں کو اختیار دیا ہوا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی صورتحال دیکھ کر فیصلہ کریں، اگر کہیں کوئی مشکل ہو تو اضلاع یا صوبے کو اس فیصلے سے متعلق تحفظات سے آگاہ کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کے لوکل فیصلے کی ہم نے توثیق کی تھی، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک درست فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ اس سیاسی جماعت کیخلاف تھا، جس کے ہاتھ مکتب اہل بیت کے بیٹوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہ فیصلہ دراصل ان کیخلاف اظہار برات تھا۔ کراچی کے فیصلے کا گلگت بلتستان کے الیکشن سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تحریک انصاف کیساتھ ہماری کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں تھی، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے دو سے تین امیدوار ہمارے حق میں دستبردار ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے جی بی الیکشن کیلئے اپنے کام کا آغاز کب کیا، دوسرا وہ کیا فلاحی و سیاسی اقدامات تھے جنکی بنیاد پر اس الیکشن میں آپ کامیابی کی امید لگائے بیٹھے تھے۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں، اس موضوع پر کلیئر ہیں کہ مجلس وحدت مسلمین کبھی خطے میں حاکم جماعت نہیں رہی اور یہ بھی کلیئر ہے کہ پورے پاکستان کے کسی علاقے میں حکومت ہمارے پاس نہیں رہی۔ لٰہذا مجلس وحدت مسلمین کے پاس وہ وسائل اور ساری چیزیں اس خطے کے اندر موجود نہیں تھیں، جس کی بنیاد پر کوئی سیاسی جماعت اپنی انٹری ڈالتی ہے، لیکن ہماری جماعت کے پاس اپنی خدمات کی ایک لسٹ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے سیاسی سفر کو مکمل طور پر دو سال اور کچھ ماہ ہوئے ہیں، جبکہ عملی طور پر الیکشن 2013ء کے الیکشن میں ہم پہلی بار آئے تھے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں گلگت بلتستان کے ہر اہم مسئلہ پر ہم وہاں کے عوام کی آواز بنے ہیں، لالوسر کا مسئلہ ہو یا چلاس کا سانحہ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوں یا گندم سبسڈی کا مسئلہ، آپ کو ایم ڈبلیو ایم کی موجودگی نظر آئیگی، ہم نے عوامی مسائل پر اسٹینڈ لیا اور مظلوموں کی آواز کو میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ حتٰی پورے ملک سمیت پارلیمنٹ کے سامنے ایک ہفتہ تک دھرنے دیئے بیٹھے رہے اور احتجاجی کیمپ لگائے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو پیغام دیا کہ آپ کی آواز کو دبنے نہیں دیں گے، اس آواز کو ہم نے دنیا بھر تک پہنچایا۔ انہیں ہم نے احساس تنہائی سے نکالا، ہمارے یہ وہ کام تھے جس کی بنیاد پر ہم گلگت بلتستان میں وارد ہوئے اور وہاں کے عوام نے ہم پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا، جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ ووٹوں کے لحاظ سے ہم دوسری بڑی جماعت ہیں۔ یہ ہماری ہی جماعت ہے جس نے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کیلئے آواز اٹھائی، جس کے بعد باقی جماعتیں بھی اس ایشو پر بولی ہیں۔ ہم نے گلگت بلتستان کی آئینی شناخت کیلئے مشترکہ منشور پر دستخط کرائے ہیں، جس میں پاکستان مسلم لیگ قاف، پاکستان عوامی تحریک، سنی اتحاد کونسل، سنی تحریک اور بعض دیگر جماعتیں شامل ہیں۔

جمیعت علماء پاکستان کیساتھ اتحاد ہو یا ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ میں شرکت یا عمران خان کیساتھ بیٹھے ہیں، ہر جگہ گلگت بلتستان کے عوام کو یاد کیا ہے اور ان جماعتوں سے ان کے لئے آواز بلند کرائی ہے۔ ہم ان کیلئے پارلیمنٹ میں نمائندگی کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، آپ ہمارے ماضی کے مشترکہ جلسوں کی تقاریر اٹھا کر دیکھیں کہ ہم نے کہاں کہاں اور کیسے آواز بلند کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ طالبانائزیشن اور طالبان سے مذاکرات کے خلاف گلگت میں سب سے پہلا جو بڑا عوامی پروگرام کرایا، جس کے مقابلے میں آج تک کوئی مذہبی و سیاسی جماعت نہیں کرسکی، عوام میں شعور بیدار کیا، اسی طرح بلتستان میں تاریخی پروگرام کرایا، ہم سمجھتے ہیں گلگت بلتستان کے عوام کی صحیح خدمت ہماری جماعت کرسکتی ہے، ہم ان کے مسائل سے خوب آشناء ہیں، ہماری جماعت کی ہی قیادت ایک ماہ سے زائد گلگت بلتستان میں موجود رہی، ہم سے بڑھ کو ان کے مسائل کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے پورے پاکستان میں ملت کے مسائل کے حق کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور انشاءاللہ کرتے رہیں گے۔ شکارپور سے لیکر کوئٹہ اور کراچی سے لیکر گلگت بلتستان تک ہر مشکل کی گھڑی میں اگر کوئی جماعت اپنی ملت کسیاتھ کھڑی رہی ہے تو وہ مجلس وحدت ہے۔ اس وقت بھی ہمارے کئی برادران جیل میں قید ہیں، جنہیں گلت میں فقط مظلوموں کے حق میں ریلی نکالنے پر سیاسی کیسز بنا دیئے گئے، برادر عارف قمبری ابھی بھی جیل میں ہیں۔ ان کیسز کا مقصد فقط ہماری فعالیت کو روکنا تھا۔ ہمارے فلاحی شعبے نے فلاحی میدان میں اپنی توان سے بڑھ کر کام کیا ہے، تقریباً ان دو برسوں میں ہم گلگت بلتستان میں پانچ کروڑ روپے سے زائد کے منصوبے مکمل کرچکے ہیں، جن میں ایتام، پانی کے مسائل، ڈسپنسری اور اسپتال کے قیام اور مساجد کا قیام شامل ہے۔ حتٰی عطا آباد جھیل کے متاثرین کیلئے رہائشی کالونی تک بنائی ہے۔ اس کے علاوہ کئی پروجیکٹ ہیں جو چل رہے ہیں، اسکردو میں بچوں کا اسپتال بنوا رہے ہیں۔ یہ تمام کام بغیر حکومت میں رہتے ہوئے کئے ہیں، ہم خدمت کو اپنا شعار سمجھتے ہیں اور یہ کام کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: سیاسی محاذ آرائی میں آپ لوگوں کی توجہ ان معاملات سے کیوں ہٹ گئی، جس کی وجہ سے آپ نے شہرت پائی تھی۔ جیسے دہشتگردی کیخلاف آواز بلند کرنا۔؟
ناصر عباس شیرازی: وہ مسائل جن پر مجلس وحدت مسلمین نے شہرت حاصل کی اور عوام میں مقبول ہوئی، اس پر ہماری جماعت نے شہرت کی خاطر نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی رضا اور عوام کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے اپنا شرعی وظفیہ انجام دیا۔ ہماری طرف سے ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ انہی مسائل کو اجاگر کیا جائے اور عوام کے ایشوز سے غافل نہ رہیں، ممکن ہے کہ کہیں سہواً کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو۔ ایک چیز پر غور کریں جب گلگت بلتستان الیکشن کا بھی اعلان کر دیا گیا ہو، بلدیاتی الیکشن بھی سر پر ہوں، اس کے باوجود گذشتہ چند ماہ میں جتنے بھی اہم واقعات ہوئے ہیں، اس میں ایم ڈبلیو ایم صف اول میں رہی ہے۔ اب اگر آپ نے تقابل کرنا ہے تو پھر چارٹ بنائیں اور ان واقعات کی روشنی میں مجلس وحدت کا کردار دیکھیں اور دوسروں سے تقابل کریں۔ سانحہ شکار پر مجلس وحدت کا کردار، اسی طرح دیگر واقعات ہیں۔ شکارپور واقعہ پر پہلی بار تمام جماعتوں نے مجلس وحدت مسلمین کی شٹرڈوان ہڑتال کی کال کی حمایت کی اور پورا سندھ بند ہوگیا، ہم نے تاریخی لانگ مارچ کیا، جس میں تمام جماعتوں نے حمایت کی اور مظلوموں کی آواز کو بلند کیا۔ شہداء کمیٹی بنائی، جس نے شہداء کے خاندانوں کے دکھوں کا مدوا کیا۔ شکار سانحہ کیخلاف احتجاج میں ایم ڈبلیو ایم کی پوری قیادت شامل ہوئی ہے، اس کو عوامی سطح پر لیکر آئی ہے۔ اسی طرح کوئٹہ کے واقعات ہوئے، اس میں مجلس وحدت کا کردار واضح ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیئے کہ جس بھی ایشو پر آپ سیٹنڈ لیتے ہیں، اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس طرح اس وقت ہمیں اسراء کا چیلنج درپیش ہے، اکثر اضلاع میں ہمارے دوست جیلوں میں ہیں، کئیوں کے نام شیڈول فور میں ڈال دیئے گئے، اسی طرح بھکر میں اس وقت اسیروں کی رہائی کیلئے معاملات چل رہے ہیں، ہمارے دوست اس ایشو کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ چیزیں بذات خود قیمت ہیں جسے ہم ادا کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: قومی فلاحی امور میں آپکی کارکردگی اسلامی تحریک سے مختلف نظر نہیں آتی۔ کیا یہ آپکی ترجیحات میں نہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: میں اسلامی تحریک پاکستان کیساتھ تقابل نہیں کرنا چاہوں گا، مجھے نہیں معلوم کہ ان کی فلاحی امور میں کیا خدمات چل رہی ہیں، اس کا جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں۔ قوم کی جانب سے ہم سے توقع کی جا رہی ہے کہ کالجز بن رہے ہوں گے، اسکولز کا قیام ہو رہا ہوگا، ادارے بن رہے ہوں گے، فلاحی امور چل رہے ہونگے اور یہ توقعات بےجا نہیں ہیں۔ ہر معاملہ کا تعلق دستیاب وسائل ہیں، ان وسائل میں ہیومن ریسورس، مالی وسائل اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ میں ایک مثال دوں گا کہ اگر اس وقت گھر کے فرنٹ پر آگ لگی ہوئی ہے تو پہلے کام آگ بجھانا ہے، اگر ملت کا مورال ڈاون ہے، دہشتگردی جیسے واقعات ہو رہے ہیں اور انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، تو ہمارا فرض ہے کہ پہلے ان امور سے نمٹیں۔ فلاحی شعبہ کی خدمات گنوا چکا ہوں، جن میں اسپتال، ڈسپنسریاں، مساجد کا قیام، ایتام سے متعلق امور سمیت دیگر امور شامل ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکی ہر ناکامی کے ذمہ دار علامہ ساجد علی نقوِی ہیں؟ کیا خود احتسابی کا بھی کوئی کلچر فروغ دینگے۔؟
ناصر عباس شیرازی: ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ ہم ناکام ہوئے ہیں، کامیابی کے ہمارے معیارات کچھ اور ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ کہ ہم نے چیلنجز کی درست تشخیص کی یا نہیں۔ جواب ہے کی۔ آیا اس تشخیص کے بعد اپنا وظیفہ انجام دیا یا نہیں۔ کیا ہم نے درپیش چیلنجز کو مواقعوں میں بدلنے کی کوشش کی یا نہیں۔ جواب ہے کی۔ ہم نے اپنا وظیفہ ادا کیا ہے، اس لئے ہماری نگاہ میں اپنے وظیفے کی انجام دہی ہے، ہمیں ہماری کوششوں کے نتائج کتنے ملے یا نہیں ملے یہ الگ بحث ہے۔ جہاں تک آپ نے علامہ ساجد نقوی صاحب کی بات کی ہے تو اس پر اتنا کہوں گا کہ وہ ایک جماعت کے سربراہ ہیں، ان کی جماعت کی ایک حکمت عملی ہے اور ان کا مسائل کے حل کے بارے میں تجزیہ و تحلیل کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے، جس کا انہیں پورا پورا حق ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی حکمت عملی کا بلواسطہ یا بلا واسطہ ہمیں نقصان ہوتا ہو، لیکن انہیں مکمل طور پر حق ہے کہ وہ اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق چلیں اور کام کریں۔ اسی طرح ہمیں بھی حق حاصل ہے۔ آپ کی بات اگر گلگت بلتستان الیکشن کے تناظر میں ہے تو میں اتنا کہوں گا کہ اگر ان کی جماعت ان جگہوں پر جہاں ان کے امیدوار کھڑے نہیں تھے یا دوسروں کے حق میں اپنے امیدواروں کو دستبردار کیا، اگر وہاں پر ہمیں سپورٹ کیا جاتا تو ان کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوتا اور داخلی وحدت بھی پروان چڑھتی۔ اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کا حق تھا جو انہوں نے استعمال کیا۔ وہ اپنے فیصلوں کا خود کا دفاع کریں گے، اس پر مزید کچھ نہیں کہوں گا۔ گلگت بلتستان الیکشن کے حوالے سے ابھی ہم نے کور کمیٹی کا اجلاس بلایا تھا اور الیکشن سے متعلق تمام امور پر غور کیا ہے اور اپنی کمزوریوں کا جائزہ لیا ہے، جس پر آپ کو اگلے چند ماہ میں وہاں تبدیلیاں نظر آئیں گی۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) اپنے خصوصی انٹرویو میں ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری سیاسیات کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں ہمارا دیگر جماعتوں سے منشور، پروگرام اور اہلیت کی بنیاد پر مقابلہ ہے، ہم بہت پرامید ہے، یہ یاد رکھیں کہ ہم بے وسائل ہیں، ہمارے مقابلے میں صوبائی و وفاقی حکومت ہے، بیرونی سرمایہ لگ رہا ہے، ہمارے مقابلے میں کالعدم جماعتیں ہیں، ہمارے مقابلے میں ریاستی جبر ہے اور ہتھکنڈے ہیں، اس کے علاوہ پری پول رگینگ کی پلانگ ہوچکی ہے۔ ہم اچھے جذبے اور اُمید کیساتھ ان کے اہداف کو روکیں گے اور بہترین جماعت کے طور پر سامنے آئیں گے۔
 
سید ناصر عباس شیرازی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری سیاسیات ہیں، سرگودھا سے تعلق ہے، دو بار امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے ہیں۔ سیاسی موضوعات اور مشرق وسطٰی کے حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں۔ آجکل گلگت بلتستان الیکشن میں مصروف عمل ہیں، اسلام ٹائمز نے ناصر عباس شیرازی سے گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن کے حوالے سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمات ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور آپکی جماعت پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے جا رہی ہے۔ آخر گلگت بلتستان کے لوگ آپکو کیوں ووٹ دیں اور کیا آپ ڈیلو کرسکتے ہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی بہت اہم سوال ہے کہ مجلس کیا ڈیلور کرسکتی ہے اور لوگ ہمیں ہی کیوں ووٹ دیں۔ اس سوال کے جواب سے پہلے آپ یہ ضرور سوچیں کہ سابق مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے حکومت میں ہونے کے باوجود کیا رول پلے کیا؟ مجلس وحدت مسلمین کا منشور کیا ہے، مستقبل کا پلان کیا ہے؟، مجلس اس وقت دوسری جماعتوں سے کیسے ممتاز ہے، ان تمام سوالوں کا جواب دیتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ ہم نے سب سے پہلے اخبارات میں اشتہار دیا اور امیدواروں سے رنگ نسل، فرقہ اور ہر چیز سے بالاتر ہوکر ان سے درخواستیں مانگیں، مجلس وحدت مسلمین ہی وہ واحد جماعت ہے جس نے امیدواروں کی سکروٹنی کی اور سب سے پہلے انٹرویوز کئے، ہم نے تمام ان امیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں جو انٹرویو کے پراسس سے گزرے ہیں، کسی ایک کو بھی بغیر انٹرویو کے ٹکٹ نہیں دیا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم نے انہی کو ٹکٹ دیئے ہیں جنہوں نے باقاعدہ ٹکٹ کیلئے درخواست دی تھی، جن افراد کو ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں وہ سب سے اہل ترین لوگ ہیں، ان میں سے کسی ایک پر بھی کرپشن کا الزام نہیں ہے، یہ پروفیشنل اور اہل لوگ ہیں اور ڈیلور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بعض اوقات بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں لیکن وہ ڈیلور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہم نے اپنے دروازے سب کیلئے کھول دیئے کہ وہ درج ذیل اہلیت کی بنیاد پر ٹکٹ کیلئے درخواست کرسکتے ہیں، ہم نے مذہب، ذات اور فرقے سے بالاتر ہوکر انہیں درخواست جمع کرانے کا کہا اور سب کی طرف سے ہمیں درخواستیں موصول ہوئیں۔ ایم ڈبلیو ایم نے جو نعرے دیئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی فرقہ وارنہ شعائر نہیں ہے، گلگت بلتستان کی ترقی، گڈگورننس، ایسے امور کو لیکر آئے ہیں جو گلگت بلتستان کے عوام کی دلوں کی آواز ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس نے اپنے منشور میں عوام کو کیا پروگرام دیا ہے، کیا لوگ فقط مذہبی نعروں کی بنیاد پر ووٹ دیں یا پھر آپ نے انہیں کوئی شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پروگرام بھی دیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی، ایم ڈبلیو ایم واحد جماعت ہے جو اپنا 5 سالہ پروگرام بھی لیکر آئی ہے اور 20 سالا پروگرام بھی لیکر آئی ہے۔ بیس سالانہ پروگرام کلیات پر مبنی ہے، جس کے تحت گلگت بلتستان آئندہ دو دہائیوں میں مرکز کا محتاج نہیں رہے گا اور اپنے وسائل میں خود کفیل ہوچکا ہوگا کہ یہ خود وفاق کو کچھ دے سکے گا۔ ہمارے 5 سالہ پروگرام میں ہم نے گلگت بلتستان میں گڈگورننس دینی ہے، کیونکہ سابق جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں، انہوں نے ایک بھی چیز گڈ گورننس کی متعارف نہیں کرائی، انہوں نے کرپشن کے بازار گرم کئے رکھے اور عوام تک ایک بھی چیز نہیں پہنچائی، ہم چیزیں نچلی سطح پر پہنچائیں گے اور چیک اینڈ بیلنس کا بہترین نظام متعارف کرائیں گے۔ اس وقت گلگت بلتستان میں توانائی کا بحران ہے، جسے پانچ برسوں میں ہم نصف سطح پر لائیں گے، یعنی اگلے پانچ برسوں میں پچاس فیصد انرجی کرائسز ختم کریں گے۔ سمال اور بڑی انڈسٹری کا پلان دیا ہے، ہم نے اقتصادی کوریڈور کے اندر اقتصادی زون کا پلان دیا ہے، یہ (وفاق) اگر نہیں دیں گے تو یہی سے مسئلہ پیدا ہوگا۔ ہم نے گندم سبسڈی کو جاری رکھنے اور فراہم کرنے کا پلان دیا ہے، معدنی ترقی کا پلان دیا ہے اور اس حوالے ایک ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں ریسرچ بھی ہوگی اور پروڈکش بھی شامل ہوگی، جس میں ہم ایسا میٹریل پیدا کرسکیں گے جس سے اسٹون کو یہی پالش کرکے دنیا بھر میں برآمد کیا جاسکے گا۔ یہاں کے وسائل یہی صرف ہوں گے اور انہیں بااختیار کریں گے۔ اس طریقے سے جابز کا پروگرام لیکر آئیں گے۔ انہیں جو جابز پنجاب اور دیگر صوبوں میں مہیا ہوں گی، وہی گلگت بلتستان میں فراہم کی جائیں گی۔ لوکل سیٹ اپ مقامی لوگوں پر مبنی ہوگا، یعنی مانگے تانگے لوگوں پر مبنی سیٹ اپ نہیں بنائیں گے، اس کے علاوہ ہم نے ویلفیئر پروگرام میں ایک یونیورسٹی کا قیام اور انتطامی اصلاحات پروگرام شامل کیا ہے، ایسی یونیورسٹی جہاں معنوی اور تعلیمی دونوں اقدار کو محفوظ بنائیں گے، روڈ انفراسٹرکچر اور ایئرپورٹ کو بہتر بنانے کا پروگرام ہے، کیونکہ بیرون ملک سے سرمایہ کاری تبھی آسکتی ہے جب آپ کا انفراسٹرکچر بہتر ہو۔ ہمارا یہ پروگرام ہے کہ گلگت یا بلتستان میں سے کسی ایک جگہ سے انٹرنیشنل فلائٹ شروع ہوں، تاکہ یہاں کا ائیرپورٹ انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا درجہ حاصل کرسکے، سیاحت کو فروغ ملے اور یہ ٹورازم کا حب کہلائے۔

ہم نے مندرجہ بالا پلان کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے پاس کوئی پلان نہیں ہے، انہوں نے ان لوگوں کو ٹکٹ دیئے جو سب سے زیادہ کرپٹ ہیں، حتٰی کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے بھی ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیئے ہیں جنہیں عوام پسند نہیں کرتے۔ مجلس وحدت نے یہ نہیں دیکھا کہ کس کو ٹکٹ دینے سے الیکشن جیت سکتے ہیں بلکہ میرٹ کو ترجیح دی ہے اور حقیقی تبدیلی کو متعارف کرایا ہے، ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو چیلنج دیا ہوا ہے کہ ان کی قیادت 10 دن گلگت بلتستان کے عوام کیساتھ آکر گزاریں، لیکن علامہ ناصر عباس تمام سیاسی جماعتوں میں واحد شخصیت بنے ہیں جو ایک ماہ کیلئے گلگت بلتستان کے دورے پر نکلے ہیں اور کامیاب دورے کر رہے ہیں۔ یہ ایم ڈبلیو ایم ہی ہے جو آپ کے ساتھ چل سکتی اور اچھے برے وقت میں ساتھ دیتی ہے، اس طرح دیگر کوئی جماعت نہیں۔ ہم نے ڈیلور کرکے دکھایا ہے، ہم نے ویلفیئر کے کاموں میں ڈیلور کرکے دکھایا ہے، فلاحی شعبے خیر العمل فاونڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ابتک مجلس وحدت مسلمین پانچ کروڑ روپے سے زائد مختلف پروجیکٹس مکمل کرچکی ہے جبکہ دیگر جماعتیں فقط نعرے اور دعوے کر رہی ہیں، لیکن ہم نے کرکے دکھایا ہے۔

ہم نے دہشتگردی کے واقعات کے دوران جب ہر طرف سے خاموشی چھائی ہوئی تھی، اس وقت ان مظلوم لوگوں کی آواز بن کے دکھایا ہے، انہیں حوصلہ دیا ہے، انہیں سمت دی ہے، انہیں راستہ دکھایا ہے، پورے پاکستان میں ان کی حمایت میں ریلیاں نکالی ہیں، انہیں تنہائی سے نکالا ہے اور اپنا شرعی وظیفہ انجام دے کر دکھایا ہے، کہیں پر ان کی آواز کو بیٹھنے نہیں دیا۔ واحد مذہبی سیاسی جماعت ایم ڈبلیو ایم ہے جس نے گندم سبسڈی بحال کر دکھائی ہے، یہ معروف ہے کہ بھٹو کی گندم سبسڈی ختم ہوگئی ہے اور ایم ڈبلیو ایم کی شروع ہوگئی ہے۔ ہماری طرف سے سکردو میں پہلا چالڈ ائند مدرکئیر کا اسپتال شروع ہوجائیگا۔ یہ واضح رہے کہ ابھی ہم حکومت میں نہیں ہیں لیکن ہم نے بہت کچھ ڈیلور کر دکھایا ہے، ہم اپنی بہترین ٹیم کے بل بوتے پر ڈیلور کرکے دکھائیں گے، یہ جو مذہبی جماعتوں کا چہرہ داغ دار ہوا ہے، ہم اس داغ کو دھو کر دکھائیں گے، ہم مذہبی جماعت پر لوگوں کے اعتماد کو بحال کرکے دکھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کی بحالی کی بات کرتی ہے جبکہ دیگر جماعتیں بھی یہی کہتی ہیں، دونوں میں فرق کیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: یہ یاد رہنا چاہئے کہ جس جماعت نے گلگت بلتستان کے آئینی حقوق بحال کرنے کے دعوے کئے تھے، انہوں نے اپنی پانچ سالہ حکومت میں ایک بھی قرارداد منظور نہیں کرائی، جبکہ مجلس وحدت مسلمین نے جتنے بھی قومی اتحاد کئے ہیں، ان میں گلگت بلتستان پہلا یا دوسرا نکتہ ہوتا تھا، جس میں ہمارا واضح مطالبہ ہوتا تھا کہ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق دیئے جائیں، چاہیے وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کسیاتھ اتحاد ہو یا مسلم لیگ قاف سے یا پھر سنی اتحاد کونسل سے۔ ابھی بھی ہم ہر اس جماعت کیساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے تیار ہیں جو جماعت اپنے منشور میں یہ لکھے کہ ہم گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دلانے کیلئے تیار ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے ایک پریشر پیدا کر دیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم بے وسائل ہیں، جن کے پاس نہ تو صوبے کی حکومت ہے اور نہ ہی وفاق میں، ہم خدائی تائید و حمایت کیساتھ گلگت بلتستان کے مظلوم کی عوام کی جنگ لڑ رہے ہیں اور انشاءاللہ یہ جنگ جیت کر دکھائیں گے۔ یہ بتاتا چلوں کہ اکثر حلقوں میں یہ بات چل رہی ہے کہ اصل مقابلہ نون لیگ اور مجلس وحدت مسلمین کے درمیان ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان تحریک انصاف اور ایم ڈبلیو ایم کے درمیان اتحاد کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: ہم نے تحریک انصاف سے درخواست کی ہے کہ جن حلقوں میں مجلس کی اکثریت ہے اور جیتنے کے چانسز زیادہ ہیں وہاں یہ ہمیں سپورٹ کریں، تاکہ ہم یہ سیٹیں جیت جائیں۔ ہم نے تحریک انصاف کی قیادت سے گزارش کی ہے کہ آپ گلگت بلتستان میں ہمیں سپورٹ کریں، تاکہ ہم نون لیگ کو شکست دے سکیں۔ اس پر انہوں نے مشاورت کیلئے وقت مانگا ہے، ہم نے واضح کر دیا ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کا کوئی بھی نمائندہ کسی کے حق میں دستبردار نہیں ہوگا۔ مگر یہ کہ استور، گھنچے، ہنزہ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان موجود ہے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں پر کیسز بنا دیئے گئے ہیں، اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: دیکھیں، نون لیگ کے صوبائی سربراہ نے ایک جگہ کہا ہے کہ جو لوگ اسٹیٹ کیخلاف نعرہ لگائیں گے، ان کو نتائج بھگتنے پڑیں گے، ہم سمجھتے ہیں یہ تمام کیسز سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں، ابھی تک عارف قنبری صاحب کا چالان تک پیش نہیں کیا گیا، جان بوجھ کبھی وکیل پیش نہیں ہوتا تو کبھی کوئی اور مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں، یہ جان بوجھ کر اس مسئلہ کو طویل کر رہے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ ہم نے فوج کی حمایت اور پارلیمنٹ کی قرارداد کی حمایت میں ریلی نکالی ہے اور کہا ہے کہ ہماری فوج کو پرائی جنگ میں نہیں جانا چاہیے، جبکہ نون لیگ نے فوج کی حمایت میں ہمارے کیخلاف مقدمات بنائے ہیں۔ انہوں نے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ایف آئی آر درج کرائی ہے، جبکہ نون لیگ کی مرکزی قیادت کیخلاف سانحہ ماڈل ٹاون جس میں پندرہ افراد شہید اور 90 کے قریب زخمی ہوئے، اس کیخلاف براہ راست ایف آئی آر ہوئی، لیکن تاحال اس پر کچھ نہیں ہوا۔ یہ خود ان مقدامات میں ملوث ہیں لیکن ہمارے خلاف مقدمات بنا رہے ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف کی پارلیمنٹ میں فوج کیخلاف توہین آمیز تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے، اس کے علاوہ کئی دیگر رہنماوں کی تقریریں موجود ہیں، جبکہ یمن کے معاملے پر ہونے والی ریلی میں کوئی ایسی تقریر نہیں کی گئی، یہ سیاسی کارروائی ہے، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں، نون لیگ ایم ڈبلیو ایم کی مقبولیت سے خائف ہے اور وہ ہمیں اس کی قیمیت ادا کرانا چاہتی ہے اور ہم یہ قیمت ادا کریں گے۔ انہیں اپنے اندر بیٹھے گھس بیٹھئے کو سزا دینی چاہیے، انہیں سزا دینی چاہیے جو ریاست مخالف طالبان کی حمایت کرتے تھے اور مذاکرات کا راگ الاپتے تھے جبکہ مجلس وحدت وہ واحد جماعت تھی جو طالبان کیخلاف آپریشن کا مطالبہ کرتی تھی۔ ہمارے خلاف مقدمات کے اندراج پر کہہ سکتا ہوں کہ نواز حکومت نے سعودی اور ہندی مفاد پر ہمارے کیخلاف مقدمات بنائے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نون لیگ کی صوبائی قیادت ایم ڈبلیو ایم پر بیرون ملک سے مالی امداد کا الزام عائد کر رہی ہے۔ اس پر کیا کہیں گے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی ہمارے اوپر فقط الزامات عائد کئے جا رہے ہیں لیکن یہ تو خود تسلیم کرچکے ہیں کہ ہم نے سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر لئے ہیں، لیکن یہ بھی نہیں بتایا کہ کس مد میں لئے ہیں، یہاں تک کہ پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پہلے انہیں اس رقم کے بارے میں قوم کو بتانا ہوگا کہ اس کے بدلے انہوں نے قوم کی کونسی چیز فروخت کی ہے۔ یہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات ہے، یہ بتائیں کہ جب یہ سعودی عرب گئے تھے تو خالی ہاتھ تھے، یہ واپس آئے تو ان کی وہاں پر اربوں روپے کی ملیں کیسے لگ گئیں۔ سعودی عرب کے سفیر اور امام کعبہ پاکستان میں کیا کر رہے ہیں، یہ کالعدم جماعتوں کے رہنماوں سے ملاقاتیں اور 50 ہزار جنگجو بھیجنے کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں، یہ سعودیہ کو کس نے اجازت دی ہے کہ وہ پاکستان میں اس طرح کی سرگرمیاں کریں۔ انہوں پاکستان کو سعودیہ اور عربوں کی چراگاہ بنا دیا ہے۔ یہ پاکستان کی سالمیت کیساتھ کھیل رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا الیکشن میں کوئی بڑا اتحاد نظر آرہا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: مجھے الیکشن کے بعد کوئی بڑا اتحاد نظر آرہا ہے، اس سے پہلے نہیں۔ الیکشن سے پہلے فقط کسی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ نظر آرہی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکو اپنی جماعت کی کامیابی کے حوالے سے کیا لگ رہا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی! مجلس وحدت مسلمین بہت پرامید ہے، آج کی صورت حال اور کیفیت میں لطف الہی اور عوامی تائید شامل ہے، یہ یاد رکھیں کہ ہم بے وسائل ہیں، ہمارے مقابلے میں صوبائی و وفاقی حکومت ہے، بیرونی سرمایہ لگ رہا ہے، ہمارے مقابلہ میں آل سعود لیگ ہے، ہمارے مقابلے میں کالعدم جماعتیں ہیں، ہمارے مقابلے میں ریاستی جبر ہے اور ہتھکنڈے ہیں، اس کے علاوہ پری پول رگینگ کی پلانگ ہوچکی ہے۔ ہم اچھے جذبے اور اُمید کیساتھ ان کے اہداف کو روکیں گے اور بہترین جماعت کے طور پر سامنے آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپکی ہم خیال جماعتیں ایم ڈبلیو ایم کے حق میں بیٹھ سکتی ہیں، جیسے پاکستان عوامی تحریک ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: جی ہماری صاحبزادہ حامد رضا سے بھی بات چیت چل رہی ہے اور ڈاکٹر رحیق عباسی سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ اکثر حلقوں میں یہ دوست ہمارے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے اور ہماری حمایت کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کوئی پیغام دینا چاہیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: گلگت بلتستان کے عوام سے آخر میں اپیل کروں گا کہ یہ تاریخ ساز مرحلہ ہے، جس میں آپ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں، اگر آپ اس موقع پر ایک قومی جماعت کے طور پر کوئی دوسری جماعت سے مقابلے میں پاتے ہیں، ہر شخص تنہائی کے اندر اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر تفکر کرے اور پھر فیصلہ کرے، اس نے کس جماعت کیساتھ کھڑا ہونا ہے۔ کیا مجلس وحدت سے بہتر کوئی جماعت ہے جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، کیا کوئی ایسی جماعت ہے جس نے گذشتہ پانچ برسوں میں ہر دکھ کی گھڑی میں آپ کا ساتھ دیا ہو؟، کیا جنہوں نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کئے اور اپنی جائیدادیں بڑھائیں، ان کو دوبارہ اپنے کندھوں پر بٹھانا چاہیے؟، کیا انہیں دوبارہ پانچ سال کیلئے موقع دینا چاہیے، جبکہ ہم اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار ان سیاستدانوں کو سمجھتے ہیں، کیا وقت آنہیں گیا کہ آزمائے ہوئے لوگوں کو نکال باہر کریں۔ کیا اس سے بڑھ کر ان سے انتقام لینے کا کوئی اور وقت ہوسکتا ہے۔ ان ساری چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام فیصلہ کریں، جس سے خطے میں عوام ترقی کرسکیں۔ 8 جون کو گلگت بلتستان کے عوام اچھا فیصلہ کریں۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) ایم ڈبلیوایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے اسلام ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا ایجنڈا بالکل واضح ہے کہ اس ملک کے اندر جن لوگوں نے اس خطے کے عوام سے غداری نہ کی ہو، عوام کا مال نہ لوٹا ہو، کرپشن میں ملوث نہ رہے ہوں، عوامی امنگوں کی ترجمانی کی ہو، عوامی مفادات کی حفاظت دل و جان سے کی ہو، اس خطے کے وسائل کو اس خطے کے غریب عوام پر خرچ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، چاہیے ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، ہم چاہیں گے کہ ایسے لوگوں سے مل کر اجتماعی جدوجہد کریں گے۔


 
علامہ محمد امین شہیدی گلگت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گلگت سے حاصل کی۔ کوئٹہ سائنس کالج سے میڑک کیا اور 1984ء میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے ایران چلے گئے۔ ایران میں بارہ سال تک رہے، اسی دوران پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں کچھ دوستوں سے مل کر پاکستان کا رخ کیا، اسلام آباد میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کیا اور اس کے بعد سے دینی ترویج میں سرگرم عمل ہیں، اس وقت ایک ادارہ دانش کدہ اور ایک مرکز تحقیقات علوم اسلامی کے نام سے علوم اور معارف کی ترویج کے لئے تشکیل دیا تھا۔ ان اداروں سے اب تک لگ بھگ 50 کے قریب اسلامی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ 2008ء میں ملک کو درپیش مشکلات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے فرقہ واریت کو فروغ ملا تو اس سے نجات کے لئے مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی۔ 2008ء سے اب تک علامہ امین شہیدی ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین نے قومی انتخابات میں حصہ لینے کے بعد گلگت بلتستان کی سیاست میں باقاعدہ حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، گذشتہ دنوں اسی سلسلے میں انہوں نے بلتستان ریجن کا دوہ کیا، اس موقع پر اسلام ٹائمز نے علامہ امین شہیدی سے گلگت بلتستان کی سیاست، ملکی صورتحال اور انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

 

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں انتخابات کی گہما گہمی ہے، تمام سیاسی پارٹیاں میدان میں اتر چکی ہیں، آپکا دورہ بلتستان اسی سلسلے کی کڑی ہے یا اسے صرف تنظیمی دورہ ہی تصور کیا جائے گا۔؟


علامہ امین شہیدی: یقینی طور پر آپ کی یہ بات درست ہے کہ اعلان شدہ شیڈول کے حوالے سے انتخابات میں کوئی زیادہ ٹائم باقی نہیں رہا، دیگر جماعتیں انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور میرا دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حالات کا جائزہ لینا، دوستوں اور عوام سے رابطے کو استوار کرنا، ان کے مسائل کو دیکھنا اور انتخابات کے حوالے سے اس وقت جو صورتحال ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات کو یقینی بنانا۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن کی بناء پر یہاں آنا ضروری تھا اور انہی موضوعات کو لیکر میں یہاں حاضر ہوا ہوں، مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

 

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے سیاست میں نئے چہرے لانے کا اعلان کیا ہے، گلگت بلتستان میں مناسب امیدوار نہ ملنے کی صورت میں کیا پرانے چہروں کو قبول کیا جاسکتا ہے۔؟


علامہ امین شہدی: دیکھئے مسئلہ چہرے کا نہیں بلکہ کردار کا ہے، اگر کسی بھی حلقے میں آپکو باکردار امیدورا مل جاتا ہے اور یقیناً گلگت بلتستان میں باکردار افراد کی کمی نہیں ہے، آپ ایسے باکردار لوگوں کو میدان میں اتارتے ہیں، جنہوں نے کبھی کرپشن نہ کی ہو، جن کا ماضی بے داغ ہو، جن کی امنگیں قوم کی امنگوں کی ترجمان ہوں، جن کا ویژن اس خطے کے عوام کا مستقبل روشن کرنے کا عکاس ہو اور جن کے اندر جرات و حمیت، ظلم کے مقابلے میں آواز اٹھانے کی طاقت موجود ہو تو یقینی طور پر ایسے لوگ اس خطے کے عوام کے مفادات کی حفاطت بھی کرسکتے ہیں اور قوم کو باقی اقوام، باقی سرزمینوں کے مقابلے میں برابری کے شہری حقوق دلاوا سکتے ہیں۔ لہٰذا ہماری پوری کوشش ہے کہ اس طرح کے بے داغ چہروں کو میدان میں اتارا جائے، اس حوالے سے تقریباً ورکینگ مکمل ہوچکی ہیں، اور انشاءاللہ و تعالٰی بہت جلد اعلانات بھی متوقع ہیں۔ جہاں تک سوال کا تعلق ہے کہ کوئی نیا چہرہ نہ ملے ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں پڑھے لکھے، باشعور، باکردار اور علاقے کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں، ایسا ممکن نہیں کہ ایسا امیدوار نہ ملے، لہٰذا یہ سوچنا بھی درست نہیں ہے۔

 

اسلام ٹائمز: کیا گلگت بلتستان کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی سے اتحاد ممکن ہے۔؟


علامہ امین شہیدی: جہاں تک آپ نے کچھ جماعتوں سے اتحاد کی بات کی ہے، یہ ابھی قبل از وقت ہے کیونکہ ہمارا ایجنڈا بالکل واضح ہے کہ اس ملک کے اندر جن لوگوں نے اس خطے کے عوام سے غداری نہ کی ہو، عوام کا مال نہ لوٹا ہو، کرپشن میں ملوث نہ رہے ہوں، عوامی امنگوں کی ترجمانی کی ہو، عوامی مفادات کی حفاظت دل و جان سے کی ہو، اس خطے کے وسائل کو اس خطے کے غریب عوام پر خرچ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں، چاہیے ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، ہم چاہیں گے کہ ایسے لوگوں سے مل کر اجتماعی جدوجہد کریں، تاکہ اس جدوجہد کا فائدہ قوم کو پہنچ سکے۔ اگر ان دونوں جماعتوں میں یہ خوبی ہو تو اتحاد میں کوئی حرج نہیں۔

 

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے کن کن حلقوں سے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔؟


علامہ امین شہیدی: ہمارا مقصد جیتنا نہیں بلکہ ہمارا بنیادی مقصد عوام کے اندر شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہے، عوام کو بیدار کرنا، عوام کو باشعور بنا کر گلگت بلتستان سے روایتی سیاست کے بت کو گرانا ہے، عوام کے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک لولا لنگڑا نظام دیا تھا، نواز لیگ اسے بھی چھینے کی تیاری کر رہی ہے اور نواز شریف صاحب نے سرتاج عزیز صاحب کی قیادت میں ایک کمیٹی کا اعلان کیا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ یہ کمیٹی کیا گل کھلاتی ہے، لیکن 67 سال سے وہ قوم جس نے 36 ہزار مربع میل کو اپنے زور بازو کے بل بوتے پر آزاد کرایا تھا، انہوں نے قربانیاں دی تھیں اور پاکستان سے عشق کی بنیاد پر اس سرزمین کو قائداعظم محمد علی جناح کے حوالے کیا تھا، اگر انہی مجاہد صفت محب وطن لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، انکو پاکستان کے قومی دھارے میں شامل نہ کیا جائے، ان کو حتٰی اپنی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا جائے، نہ سینیٹ میں ان کی نمائندگی ہو نہ قومی اسمبلی میں ان کا کوئی نمائندہ ہو، تو پھر اس کو ایک تاریک اور بے آئین سرزمین کے علاوہ آپ کیا کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے جو بنیادی ترین حقوق ہیں، ان کی بازیابی کے لئے جدوجہد کریں، لوگوں کو شعور دیں۔ مجلس وحدت مسلمین کی اس خطے میں پذیرائی بہت اچھی ہے، عوام کے دل ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں، اگر دھاندلی نہ ہوئی تو نواز لیگ اس وقت جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، کوشش کی جا رہی ہے جس کے لئے پنجاب سے پولیس اور بیورکرسی کے لوگ بھیجے جا رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری سے لیکر پولنگ آفیسر تک بھیجے جا رہے ہیں اور روز اول سے ہی انتخابات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ من پسند نتائج دیں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن شفاف ہو اور ان الیکشن میں عوام جن کو منتخب کریں، انہی کو اس خطے کی خدمت کا حق حاصل ہونا چاہیے، اگر عوام نے ہمیں موقع دیا تو جن حلقوں میں وہ چاہیں گے، ان حلقوں میں ہمارے نمائندے آئیں گے اور عوام کی خدمت کریں گے۔

 

اسلام ٹائمز: انتخابات میں دینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد ممکن ہے، خاص طور پر اسلامی تحریک کے ساتھ۔؟


علامہ مین شہیدی: آپ صرف دینی جماعتوں سے اتحاد کی بات کیوں پوچھ رہے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ تمام جماعتوں کے ساتھ اتحاد ممکن ہے، شرائط میں نے پہلے بیان کر دی ہیں، تو تمام جماعتیں جو اس خطے کے عوام کی خدمت کرتی ہو یا کرنے کا ادارہ رکھتی ہیں، ان کا ماضی اس حوالے سے بے داغ ہو، کرپشن نہ کی ہو، اس ملک کے خزانے کو نہ لوٹا ہو، ملازمیتیں نہ بیچی ہوں، اس خطے کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم میں ان کا ہاتھ رنگا ہوا نہ ہو، چاہے وہ کوئی بھی جماعت ہو، ہمارے دروازے اس کیلئے کھلے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ مذہبی جماعت ہو یا سیاسی جماعت، اگر اس ارادے کے ساتھ وہ میدان میں ہیں تو ہم چاہیں گے کہ ان سے اتحاد کریں اور سب کو ساتھ لیکر چلیں۔

 

اسلام ٹائمز: 2013ء کے انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم نے حصہ لیا اور کراچی میں ایم کیو ایم کو بڑا ٹف ٹائم دیا تھا، الطاف کا گھیرا تنگ ہونے اور متحدہ کے خلاف آپریشن کے بعد مجلس وحدت مسلمین کیلئے سیاسی امکانات بہتر ہوئے ہیں۔؟


علامہ امین شہیدی: دیکھیں! ابھی آپریشن جاری ہے، مجرم پکڑے جا رہے ہیں، ان میں اکثر کا تعلق ایم کیو ایم سے بتایا جاتا ہے، اب یہ معاملہ حکومت کا ہے، حکومت کے جو ادارے موجود ہیں، ان اداروں خصوصاً عدلیہ نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا تعلق کس جماعت سے ہے، کون کتنا مجرم ہے اور اس کی سزا کیا ہے۔ جب سے کراچی میں آپریشن شروع ہوا ہے، اس کے بعد سے واضح تبدیلی آئی ہے۔ دھونس، دھمکی، زبردستی اور ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، ہمارا موقف ہے کہ جماعتیں چاہیں کوئی بھی ہوں، سیاسی ذہن رکھنے والوں کو مکمل آزادی ہونی چاہیے، اگر کسی جماعت میں دہشتگرد، ٹارگٹ کلر، بھتہ خور، بلیک میلرز، اسلحے کے زور پر دوسروں کا استحصال کرنے والے غنڈے موجود ہیں تو ان کا صفایا ہونا چاہیے، کیونکہ یہ جسم کو لگے ایک ناسور ہیں، اسے کاٹے بغیر جسم کو صحت مند نہیں بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کا تعلق کسی بھِ جماعت سے ہو، آئین اور قانون کی عمل داری کا نتیجہ یہی ہونا چاہیے کہ ایسے عناصر کو ختم کیا جائے اور اگر ایسا ممکن ہوا تو اس کا خوشگوار اثر کراچی پر بالخصوص اور بالعموم پورے سندھ پر پڑے گا۔

 

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری تربیت علامہ سید احمد اقبال رضوی نے ”اسلام ٹائمز“ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم عمامے والے علماء اہل سنت کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ خود دشمنان اسلام و پاکستان کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ تکفیری قوتیں اس مارچ کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں، ان کو شیعہ سنی اتحاد اچھا نہیں لگ رہاانہوں نے اپنے انٹر ویومیں مذید کہا کہ پاکستان میں گذشتہ تیس پینتیس سالوں سے ان قوتوں کا غلبہ تھا جو پاکستان بننے کی مخالف رہی ہیں۔ وہ طبقہ جس نے پاکستان کو بنایا تھا، اسے پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے آہستہ آہستہ ہٹا دیا گیا اور اس طرح ملکی سیاسی توازن کو بگاڑا گیا۔ دہشت گردی، تشدد اور تکفیری افکار کی حامل قوتوں کو آہستہ آہستہ اوپر لایا گیا۔ طاہرالقادری، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کی جماعتوں کا مارچ میں اکٹھے ہونا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بہت بڑا ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان ان معتدل قوتوں کی جانب لوٹ رہا ہے جو ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں، پاکستان فوج کے حامی ہیں، جنہوں نے کبھی بھی پاکستان فوج اور ریاست کے ساتھ بغاوت نہیں کی۔ لیکن پاکستان میں ایسی قوتیں جو ملکی دفاع کی ضامن پاک فوج کے جوانوں کو شہید کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ قوتیں جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچایا، ان دہشت گردوں کو یہ طبقہ شہید سمجھتا ہے۔ طاہرالقادری اور دیگر شیعہ سنی جماعتوں کی پارٹنرشپ سے اس تکفیری مائنڈ سیٹ کا غلبہ ختم ہو رہا ہے۔ تکفیری قوتیں اس مارچ کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں، ان کو شیعہ سنی اتحاد اچھا نہیں لگ رہا، جیسا کہ آپ نے بھی کہا کہ اس مارچ کا سب سے بڑا نتیجہ شیعہ سنی اتحاد کا قائم ہونا ہے۔ جب ہم عمامے والے علماء اہل سنت کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ خود دشمنان اسلام و پاکستان کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔

 

دوسرے سوال کے جواب میں علامہ احمد اقبال رضوی کا کہنا تھا کہ  یہ واضح ہے کہ نواز لیگ سعودی عرب کا سرمایہ ہے۔ ظاہر ہے جہاں سعودی عرب ہے وہاں امریکہ بھی ہے۔ لہذا وہ حکومت (امریکی حکومت) جو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دیتی ہے۔ غزہ میں ظلم و بربریت جاری ہے لیکن وہ اسرائیل کا ساتھ دیتی ہے۔ وہ امریکہ جو اسرائیل کا ساتھ دیتا ہے، پاکستان میں نواز شریف کا ساتھ دیتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے کہ نواز شریف کو پانچ سال مکمل کرنے چاہییں۔ یہ واضح دلیل ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں امریکی مفادات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے تو وہ خود میدان میں کود پڑا ہے اور نواز شریف کو بچانا چاہتا ہے۔ ہماری اس موومنٹ کی صداقت کی دلیل ہے کہ امریکہ اس کی مخالفت پر اتر آیا ہے۔

 

شرکائے دھرناکے حوصلوں اور جذبے کے حوالے سے کیئے گئے سوال کے جواب میں علامہ احمد اقبال رضوی کاکہنا تھاکہ دھرنے کو دس روز گزر چکے ہیں لیکن لوگ طاہر القادری صاحب کے ساتھ صبر و استقامت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ملت تشیع جو عرصہ دراز سے دھرنوں وغیرہ کی عادی ہے، ہم کربلا والوں کے حوصلے بلند ہیں، اگر بیس دن بھی مزید بیٹھنا پڑے، لوگ بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ لوگ کشتیاں جلا کر آئے ہیں اور طاہرالقادری اور دیگر لوگوں کے لئے بھی یہ آخری چانس ہے۔

 

 احتجاجی تحریک میں ایم ڈبلیوایم کی شمولیت کے بعد پڑنے والے اثرات کے سوال کے جواب میں ان کاکہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد اور تاسیس اپنی شرعی ذمہ داری کی انجام دہی کی خاطر رکھی گئی تھی۔ جس کام میں بھی مجلس نے ہاتھ ڈالا ہے، اللہ نے اس میں برکت عطا فرمائی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مجلس کی لیڈر شپ نے مخلصانہ طریقہ سے اپنی شرعی ذمہ داری کو انجام دیا، ہم نے نتیجہ کی کبھی پروا نہیں کی۔ لہذا آج تک اللہ تعالٰی نے ہمیں کامیابی عطا کی۔ انشاءاللہ اس نئے سیاسی فیز میں اپنے اہل سنت بھائیوں کے ساتھ ہم فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تشیع اور سنی شیعہ اتحاد و وحدت کے لئے ایک بہت بڑا سنگ میل ثابت ہوگا۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری آج کل پنجاب کے بھرپوردورہ جات کر رہے ہیں اور تنظیمی فعالیت کو بڑھا رہے ہیں، ایم ڈبلیو ایم کی طرف سے گذشتہ دنوں میں بلتستان میں ایک تاریخی جلسہ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مجلس وحدت مسلمین نے آئندہ الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا بھی اعلان کیا۔ اسلام ٹائمز نے علامہ ناصر عباس جعفری سے طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن، نواز حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس اور گلگت بلتستان میں سال کے آخر میں ہونے والے الیکشن میں اپنائی جانے والی پالیسی پر ایک جامع انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

 

اسلام ٹائمز: حکومت کا پہلے طالبان سے مذاکرات کرنا اور اب فوج کے آپریشن کے اعلان کے بعد حمایت کا اعلان، اس ساری صورتحال کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ حقیقت میں طالبان کی مدد کرنا اور ان دہشتگردوں کو مضبوط بنانا تھا اور عوام میں ان کے خلاف موجود نفرت کو کم کرنا تھا۔ اس عمل کے نتیجے میں جو سپورٹ سکیورٹی اداروں کو ملنی چاہئے تھی اس میں کمی آئی۔ ہماری سیاسی حکومت نے طالبان کی وکالت کی اور انہیں اسٹیک ہولڈر بنا دیا اور انہیں ریاستی اداروں کے مقابلے میں لیکر آگئے۔ دہشتگردوں کے بارے میں یہ رائے رکھنا کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں حقیقت میں سرنڈر کرنا ہے۔ مذاکرات کی بات کرنے سے مراد حقیقت میں شکست تسلیم کرنا ہے، حکومت کی طرف سے اس حد تک طالبان کو فری ہینڈ اس لئے دیا گیا تھا کہ کیونکہ طالبان نے انہیں الیکشن میں سپورٹ کیا تھا اور ان کے مدمقابل قوتوں کو الیکشن کمپین نہیں چلانے دی گئی تھی۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو الیکشن کے دوران اٹھا لیا جاتا ہے اور وہ آج تک طالبان کے پاس ہے، ہماری حکومت نے اس کو چھڑانے کیلئے کیا کیا ہے؟ عجیب نہیں کہ ملک کے اندر سے ایک بندہ اغوا کر لیا جاتا ہے اور ملک کے اندر ہی اسے رکھا جاتا ہے اور کوئی چھڑوا نہیں سکتا، ان طالبان نے ریاست کے اندر ریاست بنائی ہوئی تھی، اور ہمارے حکمران ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے رہے اور انہیں فرصت دیتے رہے۔ کراچی واقعہ کے بعد پاک فوج نے حکومت پر دو جمع دو کی طرح واضح کر دیا کہ ہم آپریشن کرنے جا رہے ہیں، آپ نے دیکھا کہ جب فوج نے اعلان کر دیا تو نواز شریف نے دو دن بعد اعلان کیا۔ اس سارے عمل سے واضح ہوجاتا ہے کہ دہشتگردی سے متعلق فوج اور حکومت کہاں کھڑی ہے۔ الحمد اللہ پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آخری دہشتگرد کے خاتمہ تک یہ آپریشن جاری رہے گا اور پاک فوج اپنے عوام کی امیدوں پر پورا اترے گی۔

 

اسلام ٹائمز: میاں صاحب نے قومی اسمبلی سے خطاب میں دہشتگردوں کے خلاف فوج کی حمایت اور آپریشن کا تو اعلان کیا لیکن فرقہ وارنہ دہشتگردی کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: آپ دیکھیں ناں کہ فرقہ وارنہ دہشتگردی کے پیچھے بھی یہی قوتیں ہیں جن کے خلاف فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہے، جب فرقہ وارنہ دہشتگردی کرنا ہوتی ہے تو اس کیلئے لشکر جھنگوی کا نام استعمال کیا جاتا ہے، جب ریاستی اداروں اور فوج پر حملے کرنا ہوں تو طالبان کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ تمام ایک ہی سوچ کے حامل لوگ ہیں جنہیں ہم تکفیری کہتے ہیں۔ اگر تکفیری سوچ کو کچل دیا جائے تو ہمارا ملک ترقی کریگا اور اس ملک میں خوشحالی آئی گی۔ ان کے خلاف سنجیدگی کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ اس آپریشن کو فقط شمالی وزیرستان تک محدود رکھنا درست نہیں، ان مدارس اور لوگوں کو بھی پکڑنا ہوگا اور کچلنا ہوگا جو ان کیلئے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرتے ہیں اور انہیں مختلف شہروں میں پناہ دینے کے ساتھ ساتھ مکمل مدد فراہم کرتے ہیں۔

 

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق میاں صاحب نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انکا فوج سے تصادم ہے، اس پر کیا کہیں گے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: نواز شریف پاکستان میں تیرہ سال بعد واپس آئے ہیں اور وہی پرانا ذہن لیکر آئے ہیں جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پاکستان کے خاص حالات اور خاص خصوصیات ہیں، یہاں میاں صاحب سعودی عرب کے اسٹریٹیجک پاٹنر ہیں۔ یہاں سعودی عرب کے شہزادوں کا آنا جانا تیز ہوگیا، ہزاروں لوگوں کو بحرین بھیجا گیا، 25 ہزار پاکستانیوں کو بحرین کی قومیت دی گئی ہے۔ ان کا کام وہاں کے مظلوم لوگ جو گذشتہ چار برسوں سے جمہوریت کی تحریک چلا رہے ہیں، اپنے حقوق کی بات کر رہے ہیں، اس تحریک کو کچلنے کیلئے ان افراد کو وہاں کیلئے بھرتی کیا گیا۔ پاکستان کے اندر نواز شریف کی حکومت سعودی عرب کی اسٹریٹیجک پارٹنر بن چکی ہے، ضیاءالحق کے دور کی پالیسی کو دہرایا جا رہا ہے، شام کے معاملے پر ان کا اسٹینڈ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں شفٹ آیا ہے۔ پاکستان اور اس کے اطراف میں تبدیلیاں آ رہی ہیں ان حکمرانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کیا کریں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بزنس مین لوگ ہیں، انہیں اپنے بزنس کی فکر پڑی ہے۔ ملکی مفاد پر اپنے بزنس کو فوقیت دیتے ہیں۔ پاکستان کی یہ جعلی قیادت ہے جو دھاندلی کے ذریعہ اقتدار میں آئی ہے، اگر حقیقی قیادت ہوتی تو یہ تبدیلی نہ آتی۔
ان لوگوں نے فوج کو ایسے پرندے کی ماند بنانے کی کوشش کی ہے جو پنجرے میں بند ہو، وہ پھڑ پھڑا تو سکے لیکن اڑ نہ سکے۔ فوج پر میڈیا، علاقائی ممالک اور دیگر پریشرز ڈلوائے گئے جس کا مقصد یہی تھا کہ میاں صاحب اپنی طاقت میں اضافہ کریں، جس کے نتیجے میں یہ اتنے طاقتور ہوجائیں کہ وہ کریں جو سعودی عرب چاہتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ پاکستان کے داخلی اور خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کا نقش اور رول بڑھ گیا ہے۔ اگر یہ سمجھدار ہوتے تو یہ ایسا نہ کرتے، کسی بھی معاملے پر جہاں اختلاف پیدا ہوجاتا تو یہ اس سے لاتعلق ہو جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا، آپ نے راولپنڈی میں عاشور کا واقعہ دیکھا کہ انہوں نے کھل کھلا کے تکفیری ٹولے کا ساتھ دیا اور آج تک ان کے ساتھ کھڑے ہیں، کیا حکومت اور اسٹیٹ اپنے عوام کے خلاف کھڑی ہوتی ہے یا فریق بنتی ہے۔؟ راولپنڈی کے واقعے میں پنجاب حکومت ہمارے مقابلے میں آئی ہے، اس واقعہ میں وکیل پنجاب حکومت نے کیا۔ عملی طور پر نون لیگ کی حکومت تکفیریوں کی سرپرست حکومت ہے۔ عنقریب آپ دیکھیں گے کہ تکفیری ٹولہ نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونے والا ہے، جیسے ہی حقیقی لیڈر شپ کیلئے کوئی تحریک چلے گی، ان تکفیریوں کے بیانات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ وہ افراد جنہیں 35 سالوں سے پشت پناہی کی گئی، وہ نواز شریف کےساتھ  کھڑے ہوجائیں گے۔

 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہرالقادری ایک بڑے اتحاد بنانے کے خواہش مند ہیں اور اس حوالے سے کوششیں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں، مجلس وحدت مسلمین کس حد تک اس حوالے سے انکے ساتھ ہوگی۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں ہر وہ اتحاد جو پاکستان کو سعودیوں کے قبضے اور استعماری ایجنٹوں سے نجات دلائے، دھاندلی زدہ لوگوں سے نجات دلائے، تکفیریوں کے حامیوں سے نجات دلائے، ایسا اتحاد جو پاکستان میں نفرتوں کو مٹائے اور امن کو فروغ دے، ناامنی کے خاتمے کیلئے کام کرے، محبت اور امن کو فروغ دے، ہم اس کا ساتھ دیں گے اور اس سے لاتعلق نہیں رہیں گے۔ ہم اس وطن کے اندر تکفیری ٹولے کی شکست کیلئے جس نے 35 سال سے اس ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور ملک کو تباہی کی طرف لے گئے ہیں، انکے خلاف جو بھی حقیقی تحریک چلے گی، ہم اس کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

 

اسلام ٹائمز: اگر تحریک کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے اور کوئی آمریت نافذ ہوجاتی ہے تو پھر کیا ہوگا۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: نواز شریف کی حکومت ایک جعلی حکومت ہے جو دھاندلی کرکے ایوانوں میں پہنچی ہے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے، سب کا اتفاق ہے کہ پاکستان کے اندر دھاندلی ہوئی ہے، ایسے حکمرانوں کو کیا حق ہے کہ وہ حکمرانی کریں، جن لوگوں نے ریٹرننگ افسران کے ذریعہ مینڈیٹ چرایا ہو، اور ڈاکہ ڈالا ہو، انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ حکومت کریں، پاکستان میں جمہوری اصلاحات لانی پڑیں گی، دھاندلی سے پاک اور آزاد الیکشن کمیشن کا قیام لانا پڑیگا، جدید طرز الیکشن کا استعمال کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں جتنے بھی طبقات ہیں انہیں احساس محرومی سے نکالنے کیلئے ایک ایسے انتخابی نظام کو رائج کرنا ہوگا جس سے لوگوں کو اطمینان ہو، اس وقت جو بہترین نظام ہے وہ متناسب نمائندگی کا نظام ہے، جس کے تحت پارلیمنٹ میں تمام طبقات کی نمائندگی ہوگی اور وہ اپنے حقوق کی بات کرسکیں گے۔ اس سے طبقات کے اندر احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا اور اس سیاسی مافیا سے بھی نجات ملے گی، اگر ان تمام چیزوں کیلئے کوئی گرینڈ الائنس بنتا ہے جس میں ان تمام ایشوز پر بات کی جاتی ہے تو ہم اس کا حصہ بنیں گے۔

 

اسلام ٹائمز :گلگت میں آپ لوگوں نے ایک تاریخی جلسہ کیا، آئندہ انتخابات کے حوالے سے وہاں پر آپکی کیا حکمت عملی ہوگی۔ کہیں آپ لوگوں کی موومنٹ سے شیعہ ووٹ تقسیم تو نہیں ہوگا۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: گلگت بلتستان کے اندر مجلس وحدت مسلمین کافی مضبوط ہے، مجلس کے لوگوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اس کیلئے اسٹینڈ لیتے ہیں اور حقیقی لوگ ہیں جو ان کی جنگ لڑ رہے ہیں، عوام ہم پر اعتماد کر رہے ہیں، بارہ دن کے دھرنوں نے ثابت کیا کہ ایم ڈبلیو ایم کی قیادت عوام کے حقوق کیلئے لڑنے والی ہے نہ کہ جھکنے اور بکنے والی قیادت ہے۔ یہ اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ اٹھارہ مئی کو گلگت بلتستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع کیا، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں شیعہ سنی اور نور بخشی سمیت تمام طبقات نے شرکت کی۔ ہم الیکشن میں مذہب کی بنیاد پر نہیں جائیں گے۔ ہم اہلیت، لیاقت، استعداد اور قابلیت کی بنیاد پر جائیں گے۔
ہم لوگوں کے پاس جائیں گے اور کہیں کہ یہ ہمارا امیدوار ہے، اگر آپ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے اہل سمجھتے ہیں تو اسے اپنی خدمت کیلئے ووٹ دیں۔ ہم شیعہ، سنی، نور بخشی سب ملکر الیکشن لڑیں گے اور اہل لوگوں کو لیکر آئیں گے، تاکہ 67 سال سے محروم لوگوں کی احساس محرومی کو ختم کیا جا سکے، انہیں انکے حقوق دلوائے جاسکیں، وہاں ترقی اور پیشرف ہوسکے، بہترین اسکولنگ سسٹم ہو، بہترین ہیلتھ کا نظام متعارف کرا سکیں، لوگوں کی معیشت بہتر سکے، اگر دیندار، امانت دار اور انصاف پنسد لوگوں کو آگے لایا گیا تو وہاں کے لوگوں کی 67 سال کی احساس محرومی کو سالوں میں ختم کیا جا سکتا ہے، لوگ تبدیلی دیکھیں گے۔ مجلس وحدت کوشش کرے گی اس انداز میں انتخابات میں داخل ہو کہ وہاں کے لوگ اطمینان محسوس کریں، حساسیت پیدا نہ ہو، ہراسمنٹ پیدا نہ ہو، کوئی طبقہ خوف زدہ نہ ہو، ہم سنی، شیعہ، اسماعیلی اور نوربخشی سمیت تمام طبقات کو ساتھ رکھیں گے۔ ہم کوشش کریں گے وہاں ایک خوبصورت الیکشن کرایا جاسکے، جس سے اس خطے اور پاکستان کو فائد ہو۔

 

اسلام ٹائمز: کیا ایسی صورتحال بھی بن سکتی ہے مجلس وحدت مسلمین وہاں پر اہل سنت لوگوں کو بھی اپنا امیدوار بنائے یا انہیں ٹکٹ دے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جی امکان ہے کہ ہم انہیں بھی ٹکٹ دیں، اس حوالے سے اہل سنت کے دوست ہم سے رابطہ کر رہے ہیں، ہمارے ٹکٹ پر اہل سنت، اسماعیلی اور نور بخشی بھی آسکیں گے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ایک ایسا اتحاد وجود میں آئے جس میں تمام طبقات موجود ہوں اور ہم سب ملکر الیکشن لڑیں، مذہب کے نام پر یا فرقوں کے نام پر نہیں بلکہ اہلیت اور لیاقت کی بنیاد پر الیکشن لڑیں گے۔ مذہب ایک مقدس چیز ہے، اگر حلقے میں شیعہ شیعہ کے خلاف الیکشن لڑے تو وہاں مذہب کیوں استمال ہو؟، ہم فرقہ یا مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ ہم لوگوں سے استعداد، لیاقت اور صلاحیت کی بنیاد پر ووٹ مانگیں گے، اگر لوگوں نے ہم اعتماد کیا تو ٹھیک ہے نہیں تو ہم دوبارہ ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ جدوجہد رکھیں گے کہ ان کا اعتماد حاصل ہوسکے اور ہم ان کی خدمت کرسکیں۔

 

اسلام ٹائمز: شام کے الیکشن ہونا اور صدر بشار الاسد کا ایک پار پھر منتخب ہونا، کیسی تبدیلی ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: یہ اہم تبدلی ہے، شام میں الیکشن حقیقت میں تکفیریت اور دہشتگردی کے تابوت میں آخری کیل تھا۔ 70 فی صد سے زیادہ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا اور بشار الاسد نے 87 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ چار سالہ دہشتگردی، امریکہ، اسرائیلی اور سعودی عرب کی مداخلت کے باوجود مقاومت کے بلاک نے ثابت کیا ہے کہ وہ بہت طاقتور ہے۔ اس بلاک نے انہیں ہر میدان میں شکست دی ہے، انہوں نے مسلح جدوجہد کی تو اس میں شکست دی، اخلاقی طور پر شکست ہوئی ہے کہ شام کی اکثریت عوام کے دل بشار الاسد کی طرف مبذول ہوئے، قانونی طور پر انہیں شکست ہوئی کہ سکیورٹی کونسل میں وہ کوئی قرار داد پاس نہ کرا سکے۔ میڈیا پر یہ رسوا ہوئے ہیں، اسی طرح انہیں سیاسی شکست ہوئی ہے۔ یہ بڑی تبدیلی ہے۔ مقاومت کے بلاک نے ثابت کیا ہے وہ ان تمام استکباری قوتوں کے خلاف کھڑا ہوسکتا ہے اور انکا مقابلہ کرسکتا ہے۔ دہشتگرد اور انکے آقا سب مایوس ہیں کہ تین سال جنگ لڑنے باوجود وہ بشار الاسد کو نہ ہٹا سکے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے امریکی وزیر خارجہ لبنان گیا ہوا تھا، جہاں اس نے شام کے معاملے میں حزب اللہ اور ایران سے مدد مانگی ہے، یہ ان کی شکست ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کو عراق میں بھی شکست ہوئی ہے، وہاں لوگوں نے 66 فی صد سے زائد ووٹ کاسٹ کئے۔ عراق کے عوام نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ دہشتگردوں سے ڈرنے والے نہیں، اس ملک میں بھی دہشتگردی اور دہشتگردی کرانے والے ممالک کو شکست ہوئی ہے۔ جو ممالک عراق اور شام میں آگ لگا رہے ہیں، انہیں بھی یہ آگ اپنی لپیٹ میں لے گی، دنیا مکافات عمل کا نام ہے۔ جب آپ کسی کے گھر میں آگ لگاتے ہیں تو آپ کے بھی گھر میں آگ لگے گی۔ یہ اس سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ مقاومت کا بلاک اتنا مضبوط ہوا ہے کہ چند دن قبل سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب اگر اسرائیل نے کوئی ایڈونچر کیا تو ہم آپ کے علاقے الجلیل پر قبضہ کرلیں گے۔ اس اعلان کے بعد اسرائیلی پریشان ہیں۔ انہوں نے کوشش کی تھی کہ وہ دہشتگردی کے ذریعہ مقاومت کے بلاک کو کمزور کریں گے لیکن وہ اور مضبوط ہوگیا ہے۔

ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ نے اسلام ٹائمز کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ قطر، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کی منافقانہ پالیسی سے فلسطین اور فلسطین کے مقصد کو نقصان ہوا۔ جہان عرب میں واحد ملک جو فلسطین اور فلسطینیوں کو سپورٹ کرتا تھا اور استعماری طاقتوں کے خلاف مدمقابل رہا وہ شام ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ لبنان اور اسرائیل جنگ میں شام نے لبنان کا ساتھ دیا اور اسی طرح ایران عراق جنگ میں بھی شام نے ایران کا ساتھ دیا۔ یعنی شام کی پالیسیاں شروع سے ہی جہان اسلام کے حق میں رہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی منتقلی نواز لیگ کو ہو چکی ہے، دو ماہ مکمل ہونے کو ہیں لیکن بھی مذاکرات کی باتیں جاری ہیں جبکہ دوسری جانب واقعات در واقعات ہورہے ہیں، اس پورے منظر نامے کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان میں جو حالیہ الیکشن ہوئے، یہ ایسے انتخابات تھے کہ جس میں جیتنے والے بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور ہارنے والے بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ نواز شریف صاحب بھی کہتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اور پی پی پی بھی کہتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے اور عمران خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ پس اس انتخابات پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر جماعت کی طرف سے سوالیہ نشان ہے اور عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہر پارٹی کو کسی حد تک اتنا شیئر دے دیا گیا تھا کہ وہ زیادہ شور نہ کرے اور اس پر ہی راضی ہو جائے۔ اب چونکہ حکومت بن گئی ہے تو اب اس کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو بنیادی تحفظ فراہم کریں۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور ناامنی کا ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ عوام کے مال، جان اور نفوس کی حفاظت کریں۔ پچھلی حکومت تو پانچ سال ناکام رہی ہے اور کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کر سکی۔ پچھلی حکومت کے دور میں ناامنی، دہشت گردی، معاشی مسائل و دیگر بحران میں شدت آئی۔ گزشتہ حکومت کی خارجہ و داخلہ پالیسی ان مسائل کو حل نہ کر سکی۔ اسی طرح انرجی کرائسز بڑھ گئے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھی دہشت گردی عروج پر ہے۔

پاکستان کو ان بڑے مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے راہ حل تلاش کرنا ہوگا اور اس کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ ان بنیادی فیصلوں میں جب تک پاکستان کو جہاں اس کی جگہ بنتی ہے وہاں پر نہیں لایا جائے گا تب تک پاکستان ان مسائل کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکتا۔ امریکہ اور اس کے حواری، سعودیہ پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا چکے ہیں۔ بس پاکستان کو اس بلاک سے باہر نکالنا ہو گا۔ امریکن بلاک پاکستان کو طاقتور نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے مفادات و مقاصد کو ترجیح دیتا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری ممالک کو طاقتور پاکستان ایک نظر نہیں بھاتا، یعنی یہ ممالک چاہتے کہ پاکستان ہمیشہ کمزور ہی رہے تاکہ وہ پاکستان میں اپنی مرضی سے جو چاہے کھیل سکیں۔ کمزور پاکستان انرجی کرائسز کا شکار ہوگا، جس میں ناامنی عروج پر ہوگی اور دہشت گردی عام ہوگی۔

جب حکومتیں کمزور ہوتی ہیں تو طاقتور گروپ وجود میں آتے ہیں اور ان کا اپنا ایک دائرہ کار بن جاتا ہے۔ جب سے پاکستان امریکن بلاک میں گیا ہے تب سے پاکستان وہ باقی ماندہ پاکستان نہیں رہا بلکہ روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کمزور ملک ہے، جس میں ادارے کمزور ہیں، حکومت بے بس ہے۔ وزیر داخلہ اور واپڈا کے وزیر ہمیں بتاتے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں، یہ ہونا چاہیے، بھائی ہمیں آپ سے خبریں تو نہیں چاہیے، یہ تو ہمیں بھی پتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہم آپ سے خبریں سننا نہیں چاہتے۔ یہ سب ہم جانتے ہیں۔ ہمیں پلاننگ چاہیے، منصوبہ بندی چاہیے، یعنی کیا آپ کے پاس درست راستہ ہے کہ جس سے پاکستان کے حالات کو بہتری کی طرف لے جایا جا سکے۔ اس میں اولین ترجیح پاکستان کے مفادات ہیں۔ اس میں نہ امریکہ اور نہ ہی سعودی عرب و دیگر ممالک کے مفادات ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی اولین ترجیح پاکستان ہونی چاہیے۔ ہمیشہ پاکستان کی عوام کے مفادات کی بات کرنی چاہیے۔ حکومت کی پہلی ترجیح امن ہونی چاہیے اور اس کے بعد پھر انرجی کرائسز ہے اور اسی طرح دیگر مسائل ہیں۔

جس ملک میں قانون کی حکومت نہیں ہوتی، وہاں کے نہ معاشی حالات سدھرتے ہیں اور نہ ہی کوئی مسئلہ حل ہو گا۔ ملک کے اندر دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں لگام دینے والا کوئی نہیں۔ پشاور سے لے کر کراچی تک آپ نگاہ دوڑا کر دیکھ لیں کہ ہر جگہ پر افغان لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے اور ان کی دکانیں اور تجارت بہت زیادہ ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ناجائز اسلحے کے ساتھ کس طرح پیسہ کما رہے ہیں، یہ عام مسائل ہیں۔ چونکہ کمزور پاکستان امریکہ اور اس کے حواریوں کو اچھا لگتا ہے، اس لیے یہ تمام بحران انہوں نے کھڑے کیے ہیں۔ پس ہمارے حکمرانوں کو اپنے وطن کی خاطر ایک مضبوط نظام حکومت قائم کرنے کے لیے، قانون کی حکمرانی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھا نظام بنانا چاہیے، چیزوں کا درست استعمال درست سمت میں کرنا چاہیے۔ پاکستان کا آئین اور دستور جو نہیں مانتا وہ باغی ہے اور باغیوں کے ساتھ جیسا سلوک کرنا چاہیے، ویسے برتاؤ کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ جو دہشت گرد ہیں، ان کے ساتھ آ ہنی ہاتھوں کے ساتھ ملنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: ہم نے دہشت گردی کی وجہ سے اپنے پیاروں کی بہت سی لاشیں اٹھا چکے ہیں، اکثر جماعتوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہیں،حتیٰ علامہ ساجد علی نقوی نے بھی کہا کہ اگر طالبان کے ہتھیار ڈالنے کی گرانٹی مل جائے تو ان سے مذاکرات ہوسکے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جو دہشت گردوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور جن ممالک کے پاکستان میں مکروہ عزائم ہیں اور ان کی وجہ سے آئے دن بے گناہ پاکستانی مار رہے ہیں۔ پاکستان میں بھتہ خوری عروج پر ہے، نہ عام آدمی محفوظ ہے اور نہ ہی کو وی آئی پی شخصیت محفوظ ہے اور نہ ہی سیکورٹی کے ادارے محفوظ ہیں۔ یہ ایک ایسا خطرناک قسم کا مافیہ پاکستان میں وجود میں آیا ہوا ہے جو سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے اندر ایسے لوگوں کا ٹھکانہ موجود ہونا، انہیں جہادی تربیت دینا اور انہیں اسلحہ فراہم کرنا ہمارے ریاستی و سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ بائیں جماعت والے لوگ ان کی حمایت نہیں کرتے اور کارروائی کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ دائیں جماعت والے لوگ ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں نفوذ کر جانا اور ریاستی اداروں کو نقصان پہنچانے میں دائیں جماعت والے لوگ شامل ہیں، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور مختلف دینی و سیاسی جماعتیں دائیں بازو کی جماعتیں کہلاتی ہیں حتیٰ کہ مسلم لیگ ن بھی انہی دائیں جانب والوں میں شامل ہے۔ انہوں نے ہی افغانستان کے حوالے سے ایک پالیسی بنائی، اسی پالیسی سے پاکستان کے اندر دہشت گردی آئی۔ پاکستان میں لوگوں کو لایا گیا اور انہیں جہادی تربیت دی گئی اور انہیں اسلحہ فراہم کیا گیا۔ اگر پاکستان کے ساتھ دائیں جانب والے لوگوں کو یا کسی کو بھی محبت ہوتی، یعنی اگر دیکھیں کہ اتنی بھاری مینڈنٹ سے جیت کر حکومت میں آنے والی جماعت کو دیکھنا چاہیے کہ عوام نے انہیں اس لیے ووٹ دیا تاکہ وہ حکومت میں آ کر قانون و دستور کی حکمرانی کریں اور دہشت گردوں کو جو کہ پاکستان کے دستور و آئین کو نہیں مانتے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے اور پاکستان میں امن قائم کیا جائے۔ اگر حکومت اس کے خلاف عمل کرتی ہے تو یہ اپنی عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردوں کو ڈیڈ لائن دے کہ مثلاً دو ماہ تک راہ راست پر آ جاؤ، ورنہ اس کے بعد آپ کے خلاف کارروائی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: اے پی سی بلانے میں حکومت کو کیا مشکل پیش آ رہی ہے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: کئی ممالک نہیں چاہتے کہ پاکستان کی حکومت طاقتور ہو، ہمارے فوجی جرنیل بھی نہیں چاہتے کہ حکومت طاقتور ہو۔ اس کے علاوہ علاقائی قوتیں بھی نہیں چاہتیں کہ پاکستان کی حکومت مضبوط ہو۔ ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ روکا گیا اور اس طرح بعض کاموں میں سعودی عرب رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ ہم نواز شریف کو گوادر کے منصوبے کے کوشش کرنا، چائنہ سے دوستی کو مزید آگے بڑھانے میں خوش آمدید کہتے ہیں اور ان کی سپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ان ممالک کے ساتھ جتنے تعلقات مضبوط ہوں گے، اتنے ہی پاکستان کے ترقی کرنے کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ پاکستان 20 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایٹمی طاقت ہے، یہ بڑا مضبوط ملک بن سکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھٹیا قسم کے ممالک سعودی عرب، قطر، ابوظہبی کہ جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، ان کا غلام نہیں بننا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت کی طرف موجودہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اتحاد امت مسلمہ کے حوالے سے کیا پالیسی ترتیب دی ہے اور اب تک اس حوالے سے کیا کرکاردگی رہی ہے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: وحدت بین المسلمین اور وحدت بین المومنین کا نقصان اسلام دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے اور پہنچتا ہے۔ امریکہ ہمیشہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ہر وقت اختلاف کی فضاء قائم رہے۔ شیعہ سنی کے درمیان حتیٰ کہ شیعوں کے آپس میں اور سنیوں کے بھی آپس میں جھگڑتے رہیں تاکہ جہان اسلام آپس میں الجھا رہے اور دشمنان اسلام اس سے خوب فائدہ اٹھا سکے۔ پس ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس وحدت کی فضاء قائم کریں اور آپس کے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کریں، اس میں ہمارے باہمی روابط مضبوط ہونے چاہیں، ہم پاکستان میں ان موضوعات پر مختلف جگہوں پر سیمینارز و کانفرنسز کا انعقاد کر چکے ہیں اور اب کر بھی رہے ہیں، انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا تاکہ ہمارے آپس میں اچھے تعلقات استوار ہوں۔ اسی طرح یوم القدس ایک بہت بڑا موقع ہے کہ جس کو منانے کے ساتھ ساتھ تمام شیعہ و سنی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ یوم القدس کسی ایک فرقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جہان اسلام کا مسئلہ ہے، اسی طرح مسئلہ کشمیر بھی جہان اسلام کا مسئلہ ہے۔ بہرحال اب بھی شیعہ سنی بھائیوں کے تعلقات کی ایک اچھی فضاء بن چکی ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ آنے والے چند دنوں میں انشاء اللہ مثبت نتائج نکلیں گے۔

اسلام ٹائمز: شام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: شام کے جہادیوں میں فرنٹ لائن کے اتحادی ممالک سعودی عرب، امریکہ و دیگر شریک ہیں۔ شام ایسا ملک ہے جو فلسطینیوں کی پناہ گاہ رہا ہے۔ لبنان نے شام کو ہمیشہ سپورٹ کیا ہے۔ شام ہمیشہ سے ہی اسرائیل کے مدمقابل والے بلاک میں رہا ہے، یعنی امریکہ مخالف بلاک میں رہا ہے۔ اس سے ہمیشہ فلسطین اور فلسطین کے مقاصد کو فائدہ ہوا ہے، نقصان کبھی نہیں ہوا۔ قطر، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کی منافقانہ پالیسی سے فلسطین اور فلسطین کے مقصد کو نقصان ہوا۔ جہان عرب میں واحد ملک جو فلسطین اور فلسطینیوں کو سپورٹ کرتا تھا اور استعماری طاقتوں کے خلاف مدمقابل رہا وہ شام ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ لبنان اور اسرائیل جنگ میں شام نے لبنان کا ساتھ دیا اور اسی طرح ایران عراق جنگ میں بھی شام نے ایران کا ساتھ دیا۔ یعنی شام کی پالیسیاں شروع سے ہی جہان اسلام کے حق میں رہی ہیں۔ شام کی پالیسیاں امریکہ مخالف رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایران سے لے کر لبنان تک ایک بلاک وجود میں آیا اور جب عرب دنیا میں بیداری آنا شروع ہوئی تو مخالف ممالک نے یہاں پر دہشت گرد بھیجنے شروع کر دیئے۔ سعودی عرب، قطر، ابوظہبی، ترکی، اردن اور حتیٰ کہ پورا یورپ اکٹھا ہو کر شام کے خلاف ہوگیا ہے اور وہاں کی حکومت کو گرانا ان کا بڑا مقصد ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا ساتھ ہونے کی وجہ سے وہ اب تک ایسا نہیں کر سکے۔
شام کو جس مشکل مرحلے میں داخل کیا گیا، اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسانی دی اور صبر عطا فرمایا۔ ایران عراق کی جنگ میں جب ایران باہر نکلا تو طاقتور ترین ملک بن گیا۔ 2006ء میں حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ میں بھی لبنان طاقتور ہو گیا۔ آج وہ حزب اللہ نہیں جو 2006ء کی جنگ میں تھی بلکہ آج اس سے کہیں زیادہ طاقتور بن چکی ہے۔ اسی طرح شام کے اندر بھی پوری دنیا دہشت گردوں کے ساتھ ہے اور شام کی حکومت کو گرانے کے درپے ہیں لیکن اب تک وہ اس مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پوری دنیا سے دہشت گرد اکٹھے کر کے شام میں بھیجے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان 28 ماہ میں وہ شام کی حکومت نہیں گرا سکے۔ شام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے یہ کہ حکومت مضبوط ہے اور ان کی فوج بھی مقابلہ کرنے کے لیے بھرپور آمادہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ عوامی طاقت بھی اکٹھی ہو چکی ہے اور دشمنوں کے ساتھ لڑ رہی ہے۔ دشمنوں و دہشت گردوں نے رسول پاک ﷺکی پیاری نواسی حضرت بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے مزار کی بے حرمتی کی ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے اور شرم کی بات ہے۔

اسلام ٹائمز: فرض کریں کہ ساری کفر کی طاقتیں اکٹھی ہو کر شام کی حکومت گرا دیتی ہیں تو اس کے بعد کیا منظر نامہ ہوگا اور ایران کا اس کے بعد کیا کردار ادا کرے گا؟
علامہ ناصر عباس جعفری: پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے خیال میں اس وقت شام کی حکومت کو گرانا تقریباً ناممکن ہے۔ کفار جو طاقت لگانا چاہتے تھے سب کی سب لگا چکے ہیں۔ اب ان دہشت گردوں کو وہاں پر جگہ جگہ مار پڑ رہی ہے۔ بہت سے دہشت گرد جنہوں نے اسلحہ اٹھایا ہوا تھا وہ اپنا اسلحہ پھینک کر بھاگ رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے رات کو ہی ایک خبر میں پڑھا کہ بہت سارے دہشت گرد مایوس ہو کر راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ سیریا کے حالات جو یورپین میڈیا پیش کر رہا ہے، اصل حالات اس کے برعکس ہیں۔ فرض کر بھی لیں کہ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ جیسا آپ نے کہا تو پھر سیریا تین حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ جن میں ایک حصہ علویوں کے پاس، دوسرا حصہ بریلیوں کے پاس اور تیسرا حصہ دہشت گردوں کے پاس۔ اس کے باجود پھر بھی حزب اللہ وہاں پر ناکام نہیں ہوگی کیونکہ حزب اللہ کے وہاں پر اپنے علاقے ہیں۔ وہ علاقہ جو لبنان کے ساتھ ملتا ہے وہاں پر دہشت گرد کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ بہرحال یہ تقسیم کسی کے حق میں بھی ٹھیک نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: سوشل میڈیا پر ایک بحث شروع کی گئی ہے کہ یوم القدس منانے کے بجائے یوم دفاع تشیع منایا جائے، اس سوچ کے پیچھے کیا حقیقت ہے؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں ہمیں اپنے مکتب کے مطابق اپنی زندگی گزارنی چاہیے۔ ہمارے امام علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ہمیشہ ظالموں کے دشمن بن کر رہو اور مظلوموں کے حامی۔ اس وقت فلسطین کے مسلمان مظلوم ہیں اور بیت المقدس ہم سب مسلمانوں کی یکجا میراث ہے۔ اپنے ملک کا یوم دفاع منانا اور یوم القدس منانا الگ نہیں ہیں، دونوں اکٹھے بھی منائے جا سکتے ہیں۔ دیکھئے یوم القدس ملت تشیع کا محور و مرکز بن سکتا ہے۔ ابھی تک تو جس طرح سے یوم القدس کو منانا چاہیے تھا، اس طرح سے منا ہی نہیں سکے۔ اگر ہم میں حکمت و تدبیر ہوتی تو قدس شیعہ و سنی کا محور و مرکز بنتا اور ہمارے اتحاد کا نقطۂ ہوتا۔ یوم القدس شیعہ سنی وحدت کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے اور مظلوموں کی حمایت کے لیے بھی سب سے بہتر پلیٹ فارم ہے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ہمیں جو مکتب اہل بیت نے چیزیں دی ہیں، ہم ان سے درست استفادہ نہیں کر سکے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم گلی گلی، کوچے کوچے لوگوں کے گھروں تک جاتے اور لوگوں کو قدس کی آزادی کے لیے میدان میں لے کر آتے، اسی طرح پھر کشمیر کی آزادی کی بات ہوتی اور دیگر مسلمان ممالک جہاں پر مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، ان کے لیے آواز بلند کرتے، ہم ان کا ہراول دستہ بنتے اور لیڈ کرتے۔ ہمیں تنگ نظری سے ان مسائل کو نہیں دیکھنا چاہیے۔ یوم القدس وہ عطیہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے امام خمینی (رہ) کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔ یوم القدس یوم اسلام ہے، یوم وحدت مسلمین ہے، یہ دن مظلوموں کی حمایت میں اور ظالموں کے خلاف قیام کا دن ہے لہٰذا یوم القدس ہمارے شرعی فرائض میں سے بھی ہے اور ایک عظیم پلیٹ فارم بھی ہے، پس ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ نے نشاندہی کی کہ یوم القدس کو ایک مسلک نے نتھی کردیا ہے، اس کو عالم اسلام کا دن بنانے کیلئے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان گلی گلی، کوچہ کوچہ، گھر گھر جائیں اور لوگوں کو یوم القدس میں شرکت کی دعوت دیں۔ جس طرح ہم ناموس رسالت (ص) پر اکٹھے نظر آئیں ہیں بالکل اسی طرح یوم القدس پر بھی ہمیں اکٹھا ہونا چاہیے۔ ہم نے اس دفعہ اسلام آباد و راولپنڈی میں کوشش کی ہے کہ اہل سنت افراد کی بھی کثیر تعداد اہل تشیع افراد کے ساتھ مل کر یوم القدس میں شریک ہو، اس کے علاوہ باقی شہروں میں بھی ہم نے التماس کی ہے کہ عام عوام کو بھی جتنا ہو سکتا ہے اس پروگرام میں شریک کریں۔ اس میں میرے خیال میں تربیت اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز:قدس کے حوالے سے ہم دوسروں کی بات تو کرتے ہیں کہ وہ شریک ہوں جبکہ ہماری اپنی ریلیاں ایک نہیں ہیں۔ اس حوالے سے کوششیں کیوں نہیں کی جاتیں؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: میں شیعہ علماء کونسل کے دوستوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں بیٹھیں اور ہمارے ساتھ بات چیت کریں، وہ ہمیں تعاون کرنے والا پائیں گے اور وحدت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے والا پائیں گے۔ ہاں اس کے لئے ہم سے وہ بندہ آ کر بات کرے کہ جس کے پاس کچھ اختیار بھی ہو، یہ نہ ہو کہ وہ کہے کہ میں نے تو ابھی جا کر پوچھنا ہے۔ میرے خیال میں یوم القدس کو اہمیت ہونی چاہیے نہ کہ پارٹیوں کو اہمیت ہونی چاہیے۔ میں اب بھی کہتاہوں کہ آئیں بیٹھیں اور جن جن چیزوں میں مشترکات پر قدم اٹھائے جا سکتے ہیں، ہمیں اٹھانے چاہیں، فرار کرنے سے نجات نہیں ملے گی۔ یہ بات درست ہے کہ ہم تھرڈ کلاس سیاستدانوں کے ساتھ تو بیٹھ جائیں لیکن اتنے بے حس ہوجائیں آپس میں نہ بیٹھ سکیں۔ میں آپ کے توسط سے انہیں دعوت دیتا ہوں کہ آئیں مل کر بیٹھیں، انشاء اللہ آپ ہمیں تعاون و مددگار پائیں گے۔ ہمارے پاکستان کی عوام یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے، ان کی آنکھیں بند نہیں ہیں۔ مجھے امید ہے کہ رائے عامہ میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور بہت زیادہ عرصہ نہیں لگے اور بالآخر ہمارے یہ ساتھی مجبور ہوں گے کہ قومی کاموں میں کھلے دل سے بیٹھیں گے۔

اسلام ٹائمز: مصر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے، کیا اس کا فلسطین پر کوئی اثر پڑے گا؟۔
علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھئے مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت آئی۔ اہل سنت بہت خوش تھے کہ ان کی حکومت مصر میں بن گئی۔ الاظہر اور اخوان المسلمین و شیعہ مل کر جہان اسلام کو درپیش چیلنجز سے باہر نکال دیں گے۔ بہرحال یہ توقع کی جا رہی تھی۔ جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو امریکہ کے سفارتخانہ کو بند کرکے فلسطین کا سفارتخانہ کھولا گیا، شیعہ سنی جھگڑے کی باتیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود ایران نے سب کو اکٹھا لے کر چلا اور آپس کی رنجشیں دور کیں۔ بالکل ایسی ہی توقع اخوان المسلمین کے ساتھ کی جا رہی تھیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی حکومت آئی تو اس کے بعد اسرائیل کا سفارتخانہ بند کر دیا جاتا اور ان کے ساتھ تعلقات ختم کر دیئے جاتے اور جہان اسلام کے حوالے سے ان کا دل کھلا ہوتا۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مصر کے اخوان نے بہت بڑی غلطی کی، انہوں نے اسرائیل کے ساتھ روابط کو برقرار رکھا اور اخوان نے وہی کام کرنے شروع کر دیئے جو امریکہ، اسرائیل اور قطر چاہتے تھے۔ اخوان کے دور حکومت میں شیعہ عالم دین کو ڈنڈوں سے مارا گیا، یہ وہ ظلم جو پہلے کسی اور کے دور میں نہیں ہوا، وہ اخوان حکومت میں ہوا۔ بہت محدود سوچ رکھنے والی اخوان المسلمین اپنے کیے کی وجہ سے ہی اپنی شہرت کھو بیٹھی اور ایسا گندا کردار ادا کیا جس کی ان سے توقع نہیں تھی۔

شام میں اگر عوام بشارالاسد کے ساتھ نہ ہوتی تو 28 مہینے کیسے حکومت قائم رہ سکتی ہے، یہ سوچنے والی بات ہے۔ اگرچہ فوج کو یہ حق نہیں کہ جمہوری حکومت کو گرا دیں لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ جس ملک کی عوام نے ان حکمران پر اعتبار کیا تھا، وہ حکمران ہی امریکہ کی ایماء پر چلنے لگے تو پھر ضروری ہو جاتا ہے۔ فوجی حکومت کو سب سے پہلے خوش آمدید سعودی عرب نے کیا تھا۔ ایران میں آنے والا اسلامی انقلاب ایک عمل سے گزرا اور آج وہ ایک مضبوط ملک ہے، اس کے علاوہ ان کا نظام یعنی نظام ولایت فقیہ بھی ایک مضبوط نظریہ ہے۔ مصر میں چونکہ اس طرح کے کسی نظام پر انقلاب نہیں لایا گیا اور نہ اس طرح کا کوئی راستہ اپنایا گیا لہٰذا وہ شروع ہی میں ڈگمگا گئے۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے بیداری اسلامی کے بارے میں جتنے بھی خطابات کیے ہیں، ان میں باقاعدہ مصر کے حوالے سے اخوان المسلمین کی رہنمائی کی ہے کہ کس طرح مشکلات سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ پس ان کی حکومت نہ ہی اسلامی ہے اور نہ ہی کچھ اور۔ اگرچہ فوجیوں کا حکومت پر قابض ہونا اچھی بات نہیں ہے اور ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اخوان المسلمین نے اپنے کیے کی سزاء پائی ہے۔

اسلام ٹائمز: گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن کا شام کے بارے میں ایک بیان شائع ہوا، اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: میرے خیال میں ان کا یہ بیان بہت ہی اچھا اور حقیقت پر مبنی ہے۔ قطر، ترکی، یو اے ای اور اس کے علاوہ دیگر ممالک بھی شامل ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر شام کے حالات خراب کرنے کے درپے ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور یورپین صہیونسٹ و مسلم کیمونسٹ سب مل کر شام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس مسئلے کو مزید واضح اشاعت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس پر خاموش رہیں تو وہ وقت قریب جب یہی صورتحال پاکستان میں پیدا کی جائے گی اور پورا جہان اسلام ان کے مظالم کا شکار ہو جائے گا اور کہیں بھی امن و سکون نہیں ہو گا لہٰذا تمام مسلم ممالک پاکستان سمیت تمام حکمرانوں کو ان کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے تاکہ ان خائن لوگوں کی شناخت بھرپور ہو جائے اور آئندہ اگر یہ ہمارے ملک میں خیانت کرنا چاہیں تو ان کا راستہ روکا جا سکے۔

Page 3 of 3

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree