وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) جب سے مجلس وحدت مسلمین نے حقیقی سنی بریلوی برادران سے اتحا دکیا ہے بہت سے تکفیریوں کیساتھ ساتھ ان کے اتحادیوں کے پیٹ میں بھی مروڑ اٹھ رہے ہیں،اور وہ ان کی محبت و یارانے میں مارے مارے پھرتے ہیں ان کے چیلے چانٹے سوشل میڈیا پر ظالم و شیعہ دشمن حکومت سے جان چھڑوانے کی جدوجہد پر مجلس وحدت مسلمین کی مخالفت میں لغویات بکنے اور افتراءسے کام لینے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں،جو لوگ اس وقت مجلس وحدت مسلمین کی مخالفت کر رہے ہیں ان کو بھول گیا ہے کہ موجودہ نواز حکومت جسے چودہ ماہ ہو چکے ہیں اصل میں پنجاب کی شیعہ دشمن حکومت کا ہی تسلسل ہے،اس بارے معروف کالم نگار جناب ارشا د حسین ناصر کے کالم ؛آذادی و انقلاب مارچ ،منظر و پس منظر؛کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں،کہ پنجاب میں گزشتہ چھ سال سے ملت تشیع کس کرب میں مبتلا ہے اور کیا چاہتی ہے۔


ارشاد حسین ناصر کے کالم کا ایک حصہ؛
پاکستان کے چاروں صوبوں میں 11مئی3 201ءکے دن ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ نواز نے وفاقی حکومت قائم کی تھی،پنجاب میں یہ پہلے سے برسر اقتدار تھے بس انتخابات کروانے کیلئے تین ماہ نجم سیٹھی کو نگران وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا،لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عملی طو پہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں گذشتہ چھ برس سے نون لیگ ہی برسر اقتدار ہے ، صوبہ کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت اسلامی برسر اقتدار ہیں ،سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصہ میں آیا ہوا ہے جبکہ بلوچستان میں مسلم لیگ نواز نے اکثریت کے باوجود مشترکہ حکومت ہی بنائی ہے ،پنجاب میں چھ سالہ اقتدار اور ملت تشیع پر ہونے والے حملوں ،ظلم و زیادتیوں،اور متعصب رویوں کی داستان بہت طوالت رکھتی ہے،اسی دوران پنجاب جسے امن و امان کے حوالے سے بہت آئیڈیل پیش کیا جاتا رہا ہے میں جو واقعات و سانحات پیش آئے ان میں سانحہ سرپاک امام بارگاہ چکوال، سانحہ ڈیرہ غازی خان،سانحہ چہلم خان پور و رحیم یارخان،سانحہ راولپنڈی جلو س محرم،سانحہ گوجرانوالہ،سانحہ ملتان و چشتیاں،سانحہ کربلا گامے شاہ اور پنجاب کے شہروں لاہور ،فیصل آباد،رحیم یارخان،لیہ،بھکر،دریاخان،راولپنڈی،چنیوٹ اور کئی شہروں میں معروف شیعہ شخصیات ،علماءو وکلاءو ،قائدین ،اور شعبہ جاتی ماہرین کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ،انہی میں مولانا ناصر عباس،ڈاکٹر شبیہ الحسن ہاشمی،ڈاکٹر علی حیدر آئی سرجن،وکیل شاکر رضوی ،کے نام نمایاں ہیں اس ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ اس حکومت نے شیعہ شخصیات کے قاتلوں کو باعزت بری کیااور نامور دہشت گردوں جن میں ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ جو انہی کے گزشتہ ادوار میں گرفتار کیئے گئے تھے کو نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ انہیں رہا کروا کے استقبالات بھی کروائے گئے ،اور اس کے ساتھ ساتھ اس شیعہ دشمن حکومت نے قاتلوں کو رہا کر وا کے کھلی چھوٹ دے دی جنہوں نے ملک بھر میں اپنے نیٹ ورک کو مزید فعال کیا اور جگہ جگہ فسادات ہونے لگے ،یہ عجیب بات تھی کہ قاتلوں کو عزت و وقار سے نوازا گیا جبکہ مظلوموں اور مقتولوں کے ورثا ءکو زندگی سے محروم اور جینا دو بھر کر دیا گیا،اس کے ساتھ ساتھ ہم نے دیکھا کہ پنجاب میں بہت ہی معمولی باتوں پر توہین صحابہ کے سنگین پرچے درج اتنی زیادہ تعداد میں درج ہوئے کہ تاریخی ریکارڈ ہے،295سی،بی یا اے کے تحت درج ہونے والی ایف آئی آر جس پر درج ہو جائے وہ جیل میں جا کر شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے ،اس کی ملاقات اور ضمانت نہیں ہوتی ،ایسے ہی ہم نے دیکھا کہ اہل تشیع کی مشکلات اور مصائب میں منظم طریقہ سے اضافہ کیا گیا،حکومت پنجاب کے سب سے زیادہ بااختیار وزیر رانا ثناءاللہ نے ایک طرف تمام قاتلوں و دہشت گردوں کو جیلوں رہا کروانے کا پورا پورا اہتمام کیا دوسری طرف ہمارے لیئے مشکلات کھڑی کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی،بھکر میں ایک سو سے زیادہ لوگوں کو فورتھ شیڈول جیسے ظالمانہ قانون کا شکار کرتے ہوئے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا ،جبکہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ معمولی میسیج یا فیس بک پر غلط شیئرنگ کرنے پر پرچے کاٹنے والی حکومت نے ٹیلی ویژن پر مولا علی ؑ کی شان میں گستاخی کرنے والے ڈاکٹر اسرار احمد کے خلاف دس گھنٹے تک پریس کلب لاہور سے لیکر مال روڈ اسمبلی ہال کے سامنے چوک میں پر امن احتجاج کے باوجود نہیں کاٹی تھی ایسے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ دشمنی اور تعصب کی انتہا کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے حالیہ دنوں میں مولا علی ؑ کے خطبات،کلمات،اور خطوط پر مشتمل معتبر ترین کتاب نھج البلاغہ پر پابندی کی سازش کرتے ہوئے اس کی فروخت کے جرم میں ایک سید پر ایف آئی آر کاٹی اور جیل میں بھیجا،اب بھی اس سرمایہءاسلام کو پابندیوں میں لانے کی سازش پر عمل کیا جا رہا ہے، اس وقت سب سے زیادہ جیلوں میں توہین صحابہ کی ایف آئی آر والے شیعہ ہیں ،جن کا کوئی پرسان حال نہیں ،حکومت قاتلوں و دہشت گردوں کو تو کھلی چھوٹ دے چکی ہے مگر بے گناہوں اور معصوم اہل تشیع کیلئے اس کا قانون فوری اور سختی سے عمل درآمد کرنے پر تل جاتا ہے ،آپ دیکھیں کہ اخبارات کے پہلے صفحے پر تکفیریت کے خلاف اشتہارات چھپوائے جاتے مگر پریس اور میڈیا کے سامنے پولیس و انتظامیہ کی موجودگی میں ہر جلسے و احتجاج میں شیعہ کافر کے نعرے لگانے والوں کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا،یہ سب کچھ گزشتہ چھ سال سے ہو رہا ہے ،آپ اے ظلم کہیں یا تعصب کی انتہا،اپنی کمزوری کہیں یا سیاسی میدان میں اپنی لاتعلقی کا نتیجہ،باہمی خلفشار اور انتشار کا نتیجہ سمجھیں یا گزشتہ کئی برس سے تکفیری قوتوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا عکس العمل،یہ سب کچھ ہو رہا ہے ،ملت ایسے حکمرانوں سے الٹے ہاتھ کر کر کے نجات چاہتی ہے،ملت ایسے شیعہ دشمنوں کو ایک لمحہ کیلئے بھی اقتدار پر متمکن نہیں دیکھنا چاہتی،اگر کوئی کسی بھی شکل میں ایسی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کر رہا ہے تو اور کیا دلیل سامنے لائی جائے اس مطالبہ کی صداقت و سچائی ثابت کرنے کیلئے؟
میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ منظر نامہ تھا جس پر مجلس وحدت مسلمین نے تکفیریت اور اس کے حامی حکمرانوں کو ان کے کئے کی سزا دینے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں معتدل و محبان اہلبیت ؑ پارٹیوں کیساتھ ملکر ایوان اقتدار سے ہٹانے کی جدوجہد شروع کی ہے،یہ جدوجہد کیا رخ اختیار کرتی ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس سے قطع نظرہم کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ اگرچہ یہ ایک سیاسی اتحاد ہے اور فی الحال اس کے مقاصد سیاسی ہیں مگر اس اتحادسے فرقہ واریت کے خاتمہ،سنی شیعہ وحدت کے قیام و باہمی اخوت و بھائی چارہ کے فروغ،باہمی اختلافات کو کم سے کم کرنے کا ماحول بنایا ہے۔اسکا عملی ثبوت وہ نعرے ہیں جو اس دھرنے اور جلوس میں لگائے جا رہے ہیں ۔کبھی کبھی تو مجلس کا ماحول بن جاتا ہے۔سنی اتحاد کونسل کے ساتھ تو پہلے ہی یہ اتحاد کام کر رہا تھا اب اہل سنت کی ایک برجستہ شخصیت نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کر کے ایک دوسرے کو سمجھنے کی عملی کوششیں اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیاہے ۔دعا کی جائے کہ یہ سنی شیعہ وحدت ایسے ہی قائم رہے اورمستقبل میں اس وحدت کے ذریعے ملک پاکستان میں نفرتوں اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ملک کی خدمت ہو سکے۔ ۔۔۔!
قارئین محترم؛
اگر آپ کا تعلق مکتب جعفری سے ہے تو بہ طور شیعہ علی اس دور میں کون ہے جو پنجاب کی ظالم و جابر کھلی شیعہ دشمن حکومت کو ایک دن بھی اقتدار میںبرداشت کرنے کو تیار ہے۔شائد ہی کوئی شیعہ ہو جس کے شخصی مفادات اس حکومت سے وابستہ ہوں وگرنہ کوئی بھی قومی و اجتماعی سوچ رکھنے والا انسان ایسی حکومت جس میں فیس بک پر ایک پوسٹ پر تبصرہ کرنے اور ایک میسیج کو فارورڈ کرنے کے جرم میں شدید ترین جرم کی دفعہ لگا کر شیعہ نوجوانوں کو پس دیوار زندان ڈال دیا جاتا ہے جبکہ ہمارے مولا و آقا امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کی شان میں برسر عام گستاخی پر ڈاکٹر اسرار احمد کے خلاف پرچہ نہیں کاٹا جاتا،آپ کی معتبر ترین کتاب نھج البلاغہ کو پابندیوں کی ذد میں لایا جاتا ہے اس کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں اور آپ کے خلاف فرقہ وارانہ و اشتعال انگیز لٹریچر و کتب سر عام چھپ کر تقسیم کی جاتی ہیں اور گلی گلی میں نعرے لگائے جاتے ہیں تو کوئی پوچھتا نہیں،اب تو سرکاری اداروں میںبھرتی کیلئے باقاعدہ طور پر یہ لکھا جاتا ہے کہ یہ سیٹ صرف دیوبندی مسلک والوں کیلئے ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے پہلے ہمیں بہ طور مکتب تسلیم کیا گیا ہو اور ہمارے مطالبات کو باقاعدہ تسلیم کیاگیا ہو ،پاکستان عوامی تحریک کے جتنے بھی مطالبات ہیں وہ جائز ہیں اور ان کے ساتھ ظلم ہوا ہے ،یہ ظلم نہیں کہ ایک گروہ کے چودہ بے گناہ قتل کر دیئے گئے،اور ان کی ایف آئی آر تک درج نہی کی گئی بلکہ اس کے مقابل مظلوموں کے خلاف کئی ایف ۔آئی۔آر کاٹی گئی ہیں۔۔۔
کیا مظلوم کی مدد۔۔کربلا کی تعلیمات کے خلاف ہے ؟
کیا مقتول کا ساتھ دینا۔۔۔اسلام کی آفاقی تعلیمات کے خلاف ہے؟
کیا ظالموں،متعصب حکمرانوں کے خلاف میدان میں نکلنا۔۔۔پاکستان کے آئین و دستور کے خلاف ہے؟
کیا اپنے قومی دشمن حکمرانوں کو نکیل ڈالنے کی کوشش کرنا ۔۔۔حکمت و تدبر و سیاست کے خلاف ہے؟
کیا تکفیری قوتوں کے سرپرستوں کے خلاف ۔۔اپنے جیسے مظلوموں ،کمزوروں کے ساتھ ملکر جدوجہد کرنااور اتحاد و وحدت کی فضا کو جنم دینا ،ملکی بنیادوں کو ہلانے کے مترادف ہے یا اس سے ولایت فقیہ کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں،کیا عراق میں تکفیری قوتوں کو لگام ڈالنے کیلئے اہل سنت( بریلوی جو قبلاً سنی صدام کے ساتھ کھڑے تھے) کے ساتھ ملکر جدوجہد کی پالیسی نہیں اپنائی گئی،کون نہیں جانتا کہ عراق و پاکستان سمیت کئی ممالک میں سعودیہ نے پیسے خرچ کر کے اپنے لوگوں کو اقتدار میں لانے کی سازشیں کیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمران اسی سعودی حکمرانوں کی تیار کردہ سازش کے تحت وجود میں آئے تھے،جنہوں نے جمہوری اسلامی کے ساتھ ہونے والے ایک ہی معاہدہ جس کا فائدہ بالآخر پاکستانی عوام کو ہونا ہے وہ بھی کینسل کر دیا ہے۔
جو لوگ مجلس وحدت مسلمین کی حکومت مخالف جدوجہد میں فعالیت و تحرک کے مخالف ہیں،انہیں یہ حکمران مبارک ہوں۔۔۔!


تحریر:غلام رسول جوادی

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) وہ کون تھا جس نے لا دینیت کے مقابل دین داری او ر باطل پرستی کے مقابل حق پرستی کا علم بلند کیاتھا ۔۔وہ کون تھا جس نے سوشلزم کی سرخ آندھیوں کے سامنے اسلام حقیقی کی نسیم بہار کی دیوار کھڑی کر دی۔۔۔وہ کون تھا جس نے نوجوانوں کوبے راہ روی سے نکال کر تعلیم و تربیت کی راہ دکھائی ۔۔۔وہ کون تھا جس نے نوجوانوں کو جامد سوچوں اور پست افکار کے مقابل کربلا کی بلند فکر سے روشناس کر نے کی ٹھان لی اور اسے کر گذرے۔۔۔وہ کون تھا جس نے فلمی ہیروز کو آئیڈیل سمجھنے والے ملک و ملت کا مستقبل طالعلموں کو علما ء حق کی پیروی اور ان سے محبت کے گَر سکھائے ۔۔وہ کون تھا جس نے متفرق،منقسم اور بکھرے ہوئے قومی قائدین کو متحد،منظم اور یکجان ہونے کا ماحول وموقعہ فراہم کیا ۔۔۔ وہ کون تھا جس نے دانہ دانہ ہو کر نابود ہو جانے کے بجائے تسبیح بن جانے کی راہ اور تدبیر نکالی ۔۔۔۔وہ کون تھا جس نے کراچی سے لیکر پاراچنار اور کوئٹہ سے لیکر سیاچن کے نوجوانوں کو ایک لڑی میں پرو دیا ۔۔ایک مقصد،ایک ہدف ،ایک رستہ،ایک شعار،ایک نصب العین،ایک دستور،ایک اصول،ایک جذبہ،ایک فکر اور ایک ضابطے کے پابند تسبیح کے یہ دانے پاکستان میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نام سے جانے اور پہچانے گئے ۔ وہ سب ایک جیسے (i so )تھے،لاہور کے ایک معروف تعلیمی ادارہ انجیئنرنگ یو نیورسٹی سے آغاز سفر کر کے کراچی کے ساحلوں سے لیکرپاراچنار کے کوہ سفید کی عظمت تک اور بلوچستان کے صحراؤ ں سے لیکر سیاچن کی بلند ترین چوٹیوں تک وہ ایک تھے اور ایک ہیں۔

 

2مئی 1972ء جب ارضِ وطن پاکستان کے شہر لاہور میں مکتبِ اہلبیت ؑ کے پروردہ کالجز اور یونیورسٹیزکے طلبا ء نے چمن پاک میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مقدس نام سے ایک ایسا پودا لگایا ،جس کی خوشبو سے گلشن وطن مہک اُٹھا اس کی مہکتی نسیم بہاراں، جہاں بھی گئی لوگوں کو اپنے سحر میں اسیرکر لیاا،لاہور سے چلنے والی اس بہار صبح نو کے چرچے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ملک کے گوش وکنار میں سنائی دینے لگے،صرف تین برس کے عرصہ میں اس کے باغبانوں نے ملک بھر میں اس کی آبیاری کی ۔ اس نو خیز پودے کو علم، عمل، تقویٰ ،خلوص، جذبہ ، عہد،ایقان، اتحاد ،یکجہتی ،اُصول، ضابطے ، روایات، معرفت اور نظریہ ولایت سے سیراب کر دیا گیا ظلم اور ظالموں سے نفرت اس کی بنیادوں میں شامل کر دیئے گئے یہی وجہ ہے کہ آج بیالیس سال گذع جانے کے بعد بھی یہ استعمار دشمنی کا استعا رہ کے طور پر افق ملت اسلامیہ کے ماتھے کا جھومر بنا ہوا ہے ۔ اس نحیف، نرم ،نازک اور کمزور پودے کو زمانے کی بادِ مسموم سے بچانے اور تواناو مضبوط، طاقتورو قوی ،سایہ دار وجانداربنانے اوراس نوخیز پودے کوٹوٹنے ، جھکنے ، بکھرنے سے بچانے کیلئے یوں تو ان بیالیس برسوں میں ہزاروں نوجوانوں ،بھائی بہنوں نے اس کی بنیادوں کو اپنے خون پسینے سے سینچا اور اپنی طاقت و قوت سے بڑھ کر اپنا دم اور زور لگایا مگر اس کی بنیادوں کو اپنے خون سے سینچنے والوں میں سب سے بڑی قربانی تنظیم کے بانی اورہم سب کی سب سے پسندیدہ شخصیت ، سفیر انقلاب ڈاکٹر محمد علی نقویؒ نے دی، قربانیوں کے پیش کاروں میں راجہ اقبال حسین، سیدتنصیر حیدر، ڈاکٹر قیصر عباس سیال ،اعجاز حسین رسول نگری ،پروفیسر نزاکت علی عمرانی کے نام بھی روشن و تابندہ ہیں۔ جبکہ اس کاروان الہٰی کو آغاز سفر سے اپنے علم ،شعور ،اور تقوی سے سیراب کرنے والے علماء کرام میں مرحوم آغا علی الموسوی،قبلہ مرتضیٰ حسین صدرالافاضل،قبلہ مولانا صادق نجفی ،قبلہ علامہ صفدر حسین نجفی، مولانا امیر حسین نقوی اور کچھ دیگر علماء کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔بیالیس برس ہونے کو آئے ہیں الحمد للہ اب یہ پوداخوبصورت،مہکتا مضبوط تناور،شجر سایہ دار کی صورت میں ہر سو نظر آتا ہے۔ اپنے کردار، عمل ،نظریہ اور قوت کے بل بوتے پر آج پوری قوم اس تنظیم سے ایسے ہی مستفید ہو رہی ہے جس طرح کسی تناور، مضبوط اور گھنے درخت کی چھاؤں سے تپتی دھوپ میں مستفید ہوتی ہے ۔ اب یہ ایک ایسا کاررواں بن چکا ہے جس میں شریک ہر ایک مسافر نے اسے منزل پر پہنچانے کے عہد کو نبھانے کی ٹھان لی ہے۔ گزشتہ بیالیس برس گواہ ہیں کہ اس ملت پر جب بھی کڑا وقت آیا ہے تو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہی قوم کی توقعات پر پورا اتری ہے اور ہمیشہ اس کے مخلص اور دین دار ،منظم کارکنان نے خود کو سب سے آگے رکھا ہے۔ہر محاذ پر فرنٹ لائن کی پوزیشن اختیار کی ہے اور ہر مشکل کا مقابلہ سینہ سپرہوکر کیا ہے۔

 


آئی ایس او پاکستان کی تاریخی وچیدہ چیدہ خدمات ،کارہائے نمایاں ،ملت پر اس کے مثبت و دیرپا اثرات کو اگر انتہائی جامع اور مختصر ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو 22 مئی 1972ء کو یہ کارروان باقاعدہ طور پر قائم ہو گیا تھا اور اپنی تاسیس کے ساتھ ہی اس کے ذمہ داران نے اس کی وسعت اور توسیع کیلئے کوششیں شروع کر دی تھیں ،اس سے قبل مختلف ناموں سے جو کارروان لاہو ر کے کالجز کی سظح پر کام کر رہے تھے سب اس میں ضم ہو گئے تھے یہ شیعہ طلبا ء کا پہلا ملک گیر پلیٹ فارم تھااس سے پہلے قومی سطح پر بہت محدودلوگ شیعہ مطالبات کمیٹی کے نام سے ایک تحریک چلا رہے تھے جن کی سوچ محدود تھی اور ان کے پاس قوم کی ترقی و تعمیر اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کا کوئی واضح برنامہ، ہدف و پروگرام نہیں تھا، اس تنظیم نے اپنے قیام کے بعد روز بروز پیش رفت کی اور 1974ء میں اس تنظیم سے فارغ التحصیل ہونے والے برادران کی کو ششوں سے ہی سابقین کا ایک پلیٹ فارم امامیہ آرگنائزیشن پاکستان کا قیام ممکن ہوا، 1978ء میں انقلاب سے قبل انقلاب اسلامی کے قائد امام خمینیؒ کی حمایت میں لاہور کی مال روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کا شرف اسی کارروان کو حاصل ہوا اور فرانس میں جلا وطنی کے دوران ان سے یکجہتی کا اظہارو حمایتی خط بھی اس بات کی علامت تھا کہ ا س کارروان کا ہر فرد ولایت فقیہ و ولی فقیہ امام خمینی کی بلند معرفت رکھتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں وہ لوگ آج کے پیروان ولایت کے دعویداروں سے کہیں زیادہ آگاہ،متعہد اور مخلص تھے،ان لوگوں نے انقلاب کے ثمرات کو دیکھا تھا اور نہ چکھا تھا آج کی طرح ان کے پاس وسائل بھی نہیں ہوتے تھے ان کے پاس بسیجیوں جیسی آئیدیل فورس بھی نہیں تھے جن کی مثال دیکر نوجوانوں کو متوجہ کیا جاتا ،جو کچھ بھی تھے یہ خود تھے اور ان کی سرپرستی کرنے والے گنتی کے چند علماء تھے جو ان نوجوانوں کو دینی تربیت اور فکری غذا فراہم کرتے تھے۔ اس بات کا اعتراف کیئے بنا آگے نہیں بڑھ سکتے کہ یہی وہ کاروان تھا جس نے یونیورسٹیز اور کالجز کے طلبا ء ہوتے ہوئے عالمانہ کردار ادا کیا اور امام خمنی کی انقلابی سوچ و افکار کی تبلیغ کا بیڑا اٹھایا در حالینکہ ان نوجونوں کو ولایت کے درس دینے والے ہی نظر نہیں آتے تھے،جبکہ ان کی مخالفت کا دم بھرنے والے بہت سے اہل تشیع موجود تھے،کبھی لبھار تو یہ لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اس طویل عرصہ میں بہت سے روحانیان پکی پکائی کھانے کے با وجود اپنے حصہ کا کام نہیں کر رہے۔

 

ہماری قومی و اجتماعی زندگی کا نیا دور اس وقت شروع ہوا جب جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا 11سالہ دور 1977 ء میں ایک منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا، جنرل ضیا ء الحق نے ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم بندی کے لیئے کئی ایک اقدامات کیئے اور اس کے دور میں ہی کئی مقامات اور شہروں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ زکوٰۃ کے مسئلہ پر احتجاج اور ملک میں فقہ حنفی کے نفاذ کی سازش اور خطرات کو بھانپتے ہوئے اس کارروان کے راہیوں نے قومی سطح پر TNFJکی صورت میں 1979ء میں قومی پلیٹ فارم کی تشکیل میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا اس کردار کو تاریخ میں کوئی مٹا نہیں سکتا، مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں ضیائی مارشل لاء کے خلاف 1980ء میں اسلام آباد کے عظیم قومی اجتماع کا انتظام و انصرام اور کفن پوش دستوں کی تشکیل اور پروگرام کو کامیاب کرنا اسی تنظیم کا کام تھا ،مفتی صاحب کی رحلت کے بعد 10 فروری 1984ء کو بھکر کنونشن میں انقلابی قیادت علامہ سید عارف حسین الحسینی کی بھر پور اور بلا مشروط حمایت،شہید کی قیادت میں ساڑھے چار برس تک ملک بھر میں قومی پلیٹ فارم کو متحرک کرنا اور جگہ جگہ پر شہید کے استقبال، قرآن و سنت کانفرنسز ،لاہور،فیصل آباد، ملتان ،ڈیرہ اسماعیل خان میں امامیہ نوجوانوں نے ہی ان تاریخی پروگراموں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے اپنا خون پسینہ خرچ کیا ، 1979ء میں امام خمینی کی قیادت میں آنے والے عظیم اسلامی انقلاب کی مکمل حمایت،انقلاب کے تعارف کیلئے گاؤں گاؤں ،قریہ قریہ پروگرام۔ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے خلاف تظاہرات اور ایرانی بھائیوں کی اخلاقی و عملی مدد، امریکہ کی عالم اسلام کے خلاف بڑھتی ہوئی جارحیت اور سازشوں کے خلاف سینہ سپر ہونا اور پاکستان کی سڑکوں پر امریکہ کے پرچم کو جلانے کی روایت جب کوئی بھی اس کا م پر آمادہ نہ ہوتا تھابلکہ شرعی دلیلیں دیکر اس سے منع کیا جاتا تھا اس تنظیم کا کارکنان کا شیوہ تھا یہ لوگ ہمیشہ اپنے دشمن کو شناخت کر کے اس کے خلاف برسر پیکار رہتے تھے ،بیت المقدس پر اسرائیل کے ناجائز قبضہ کے خلاف جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس اور 16 مئی کو بفرمان شہید قائد یوم مردہ باد امریکہ منانے کا رواج و روایت بھی اسی کارروان نے شروع کی تھی جو آج تک جاری و ساری ہے ، علماء کرام کی توقیر بڑھانے کی منصوبہ بندی ہو یا قومی سطح پر انہیں فعال کرنے کی بات،بامقصد عزاداری کا فروغ،نماز دوران جلوس کے پروگرام، نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ،اصلاح نفس ،بلندی کردار،بیداری ملت کیلئے تعلیمی ورکشاپس کا انعقاد،تربیتی نشستوں کا اہتمام ،اخلاقی محافل کے مواقع ،دعا و مناجات کے کلچر کا فروغ مقصد کربلا سے آگاہی کی مہم اور کربلا شناسی کے مقابلہ جات ،نوجوانوں کو متحرک و فعال رکھنے کیلئے شعبہ اسکاؤٹنگ کا قیام اور اسکاؤٹ کیمپس کا انعقاد ، تعلیمی اداروں میں طلباء کے مسائل کے حل کیلئے فعالیت،رہنمائے تعلیمی کتابچہ ،تعلیمی کنونشنز کے ذریعہ ماہرین تعلیم سے تعلیمی رہنمائی ،کیرئیر گائیڈنس ،متحدہ طلباء محاذ کے ذریعہ دیگر طلباء تنظیموں سے بھر پور تعلقات اور طلباء مسائل کے حل کیلئے متفقہ لائحہ عمل کی تشکیل میں کردار ہر ایک پر آشکار ہے، قائد محبوب علامہ عارف الحسینی کی الم ناک اور عظیم شہادت کے بعد شہید کے کیس کی مکمل پیروی اور قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے اسلام آباد سیکرٹریٹ کا گھیراؤ،اجتماعات ،مظاہرات،شہید کے افکار و کردار کی امانت کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کے فریضہ کی ادائیگی، ملی و قومی اجتماعات کو کامیاب بنانے میں بھر پور کردار، فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت کے خلاف ملت میں شعور کی بیداری اور علاقائی سطوح پر مومنین کی بھر پور رہنمائی و مدد، تعلیمی میدان میں ہزاروں طلباء کو قرض حسنہ کی صورت میں اسکالر شپس کا اجراء اورا علیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول کیلئے داخلہ فیسز کی ادائیگی اور مالی معاونت شعبہ طالبات کی صورت میں خواتین اور طالبات میں پیغام کربلا کی تشہیر اور زینبی کردار کی حامل بہنوں کی تربیت کیلئے پلیٹ فارم ،علماء کی سرپرستی و رہنمائی میں ایک مضبوط ،قوی اور با اثر و باشرف ملت کی تشکیل کیلئے ہمہ تن کوششیں ا ور جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، تعلیمی اداروں میں نظریہ ولایت فقیہہ پر کاربند و عمل پیرا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے گروہوں کی تشکیل کا مسئلہ، ارض پاکستان کی نظریاتی ،جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی کا معاملہ ہو یا وطن کی سا لمیت ،استحکام اور استقلال کیلئے اپنے مقدس لہو کو پیش کرنے کا مطالبہ امامیہ نوجوان ہر میدان میں بلا خوف، بلا جھجھک اور بغیر ڈر کے سینہ سپر ہوئے نظر آئے،کشمیر میں آنے والے زلزلہ اور ملک میں آنے والی بد ترین سیلاب میں بھی اس کارروان نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کر خدمات سرانجام دیں اور کئی ایک مثالیں قائم کیں، یہ ہماری قومی تاریخ کے ماتھے کاجھومر ہیں ۔۔۔اس کے علاوہ اسرائے ملت کی معاونت، شہدائے ملت کے خانوادوں کی کفالت وامداد، دیگر قومی اداروں کی معاونت ،مشکل و کڑے حالات میں ملت کی نمائندگی کرنے کا سہرا ،یہ سب آئی ایس او پاکستان کی خدمات و تاریخ جو ملت تشیع پاکستان کی42 سالہ تاریخ کہی جاسکتی ہے کا خلاصہ بلکہ صرف عنوانات ہیں ۔ اگر ان عنوانات کے ذیل میں ہم تفاصیل کا ذکر کرنا شروع کردیں تو کتابیں شائع کرنا پڑیں گی ۔ اس کالم کے ذریعہ ہم صرف اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ تمام پروگرام، اہم ایشوز،برنامے اور فعالیت گذشتہ 42برس سے جاری ہیں زمانے کی تبدیلیوں اور سائنس کی پیش رفت و ترقی نیز نوجوان نسل کی فکری و روحانی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جدید وسائل اور رسل و رسائل سے استفادہ کرتے ہوئے یہ کاروان الٰہی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

 

قارئین محترم ! آپ آگاہ ہیں کہ کہ اس قدر طویل خدمات کسی ایک فرد اور گروہ کے بس کی بات نہیں ، یہ ممکن نہیں ہے کہ ان سب برادران، بزرگان، خواہران ،دوست احباب ،سینئرز ،جونیئرز ،اسکاؤٹس، علماء، زعماء،جانباز و مجروحین اور شہداء کی فہرست شائع کی جاسکے جنہوں نے 42 برس کے دوران اس کاروان الٰہی کے پلیٹ فارم سے اپنا خون ،پسینہ ،ذہن ،مال ،جائیداد ،وقت اور دیگر توانائیاں خرچ کیں۔۔۔ہاں۔۔۔یہ ضرور کہیں گے کہ اک چھوٹے سے یونٹ کے پروگرام سے لے کر مرکزی سطح تک ہونے والے پروگراموں کو کامیاب بنانے میں ان 42 برسوں کے دوران جس جس نے بھی جو خدمت سرانجام دی ہے ،جو بھی اس کاروان الٰہی کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا ہے ، جس نے بھی اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالا ہے، جو بھی خطرات سے کھیلا ہے، جس نے بھی مشکلات جھیلی ہیں، اس کے خلوص، تقویٰ ،ہمت ،جدوجہد ،کاوش کو سلام ،سب سے بڑھ کر ان برادران کی عظمت و سربلندی کو سلام جن کے لہو کی سرخی اس کاروان کو منزل کی طرف گامزن رکھنے میں بنیادی کردار بن گئی، جن کے جسموں پر زخموں کے نشان آج بھی اس بات کی علامت ہیں کہ حق کا سفر قربانیاں مانگتا ہے اور راہیان حق اس روایت کو خندہ پیشانی سے آگے بڑھ کر زندہ رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔۔۔اور یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ کسی معمولی پروگرام سے لے کر مرکزی سطح کے پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے کتنے ورکرز ،مخلص ،بے لوث خدمت کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم گذشتہ 42برس کے ہر پروگرام کے انعقاد میں حصہ لینے والے ان مخلص ، بے لوث ،ایثار گر، الٰہی نوجوانوں کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں جو کبھی بھی، کسی بھی مقام اور کسی بھی ٹائم پر اس کا رروان کے ہمرکاب ہوئے، ہم سفر ٹھہرے ۔

 

تاریخ گواہ ہے کہ اس تمام عرصہ کے دوران اس ملت پر بڑے کٹھن دور بھی آئے ہیں، بہت مشکل اور کڑے لمحے جب فیصلے کی قوت جواب دے جاتی ہے ،جب مایوسیاں گھیر لیتی ہیں، جب ایمان کمزور پڑ جاتے ہیں بلکہ ایمان ڈول جاتے ہیں ،جب ملت امتحان یا آزمائش کا سامنا کرتی ہے۔ جب قیادتیں اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں ۔ ایسے ادوار اور مشکل لمحات کو بھی اس کارروانِ الٰہی نے بے حد خوبصورت انداز میں گذارا ہے آج تک کئی ایک تاریخی بحرانوں سے کامیابی سے نکل جانے کے بعد اکثر ہمارے برادران اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ، اس کا رروانِ الٰہی پر یقیناًحضرت حجتؑ کا خاص لطف اور نظر ہے ،اسی وجہ سے تمام تر مشکلات ،مسائل، مصائب ، اور ناگفتہ بہ احوال کے باوجود یہ کاررواں \" حی علیٰ خیر العمل\" کا پرچم لہراتا آگے بڑھتا دیکھا جاسکتا ہے۔انشا ئاللہ ہم آگے بڑھتے رہیں گے اس منزل کی طرف جس کا وعدہ اللہ اور اس کے پاک پیغمبر ؐ نے کیا ہے زمین کو عدل وانصاف سے بھر دینے کا وعدہ اور ظالمین کی ہمیشہ کیلئے نابودی کا وعدہ یہ وعدہ جلد پورا ہو گا اور ہم جو ایک جیسے(i so) ہیں اس وقت بھی حکم خدا کے نافذ کرنے والی ہستی کے ساتھ ایک ساتھ اور ایک جگہ ہوں گے کیا خوبصورت اور روحانی و معنوی کیفیات و لمحات ہوں گے جب ہم شہید قائد او ر شہید ڈاکٹر کی معیت میں حضرت حجتؑ کی بارگاہ میں موجود ہوں گے۔

 

خدا وند کریم ! تمام برادران و خواہران کی زحمات، تکالیف اور کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کی مناز ل سے سرفراز فرمائے، خدا کے ہاں ان کیلئے انعام و اکرام ہے جو اس کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ،ہمیں یوم تاسیس کے دن ان سینئرز کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے راستے پر چلنے کا عہد دہرانا ہے اوراس عزم کا اظہار کرنا ہے کہ اس پر خار رہ پر چلتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں گے اس کی ساتھ ساتھ آج اس تنظیم اور کارروانِ الٰہی کے بیالیس سالہ سفر کے بعد خدا کے حضور گڑ گڑانے اور دستِ دعا بلند کرنے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔

 


 تحریر:ارشاد حسین ناصر

وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ 7مارچ 1995ء کی ایک المناک صبح تھی،تقریباً پونے آٹھ بجے ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی رہائش گاہ حسین اسٹریٹ بھلا اسٹاپ سے ہسپتال جانے کیلئے نکلے۔عید کے باعث آپ نے اپنے حفاظتی عملہ کو چٹھیاں دے دی تھیں فقط آغا تقی جو لاہور کے نواحی علاقہ امامیہ کالونی سے تعلق رکھتے تھے آپ کے ہمراہ تھے اور ہمیشہ کی طرح فرنٹ سیٹ پر الرٹ بیٹھے تھے، ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی منی پجارو جیپ جس کا نمبرQAD 3428 سلور کلر کو خود ڈرائیو کر رہے تھے،ان دنوں یتیم خانہ چوک سے ساہیوال کیلئے ٹویؤٹا ہائی ایس گاڑیاں نکلتی تھیں جس کی وجہ سے لاہور کا یہ مصروف ترین چوک ہمیشہ ٹریفک کے مسائل سے دوچار رہتا تھا۔چوک سے تھوڑپہلے ویگن اسٹینڈ کے پاس الٹے ہاتھ پر گلی مڑتی ہے اور گلی کے عین نکڑ پر اخبارات اور کتابوں کا اسٹال لگا ہوتا تھا۔گھر سے یہاں تک کا فاصلہ بمشکل دو کلومیٹر ہو گا،آپ کی گاڑی جیسے ہی ا س ویگن اسٹینڈ کے سامنے پہنچی بک اسٹال کے پاس کھڑے دہشت گردوں نے سامنے آکر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی بعض عینی شاہدین کے مطابق ان کی تعداد پانچ تھی اور یہ دو طرف سے گاڑی پر فائرنگ کر رہے تھے جبکہ ان میں سے دو دہشت گرد اندھا دھند ادھر ادھر بھی فائرنگ کر رہے تھے تاکہ موقع پر موجود لوگ ان کی دہشت اور رعب میں آ جائیں کلاشنکوفوں سے کی جانے والی اس اندھا دھند فائرنگ سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے محافظ آغا تقی حیدر سنبھل ہی نہ پائے ،اس کے باوجود دہشت گردوں کا ایک ساتھی گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بھی نشانہ لے رہا تھا۔جب دہشت گردوں کو یقین ہو گیا تو وہ فائرنگ کرتے ہوئے بڑے آرام سے فرار کر گئے اس وقت پنجاب میں میاں منظو احمد وٹو وزیر اعلیٰ تھے۔

 

لاہور کے مصروف ترین چوک میں ہونے والی اس اندوہناک واردات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی پرائیویٹ ٹی وی چینلزکا زمانہ نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کی خبر لمحوں میں ہر سو پھیل چکی تھی،قائد شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد یہ ملت تشیع پاکستان کیلئے سب سے بڑانقصان اور صدمہ تھا جس کا اندازہ آج بھی اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ملت تشیع پاکستان کی اکثریت کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے بارے ان کی شہادت کے بعد علم ہوا کہ ان کی ملت کا ایک روشن ،چمکتا ستارہ یتیم خانہ چوک میں ڈوب گیا ۔ انہوں نے ایک گمنام مجاھد کی طرح زندگی گذاری ان کی فکری پرواز بہت بلند اور مقام و مرتبہ ہر ایک سے اعلیٰ تھا مگر انہوں نے کبھی روایتی قائدانہ انداز اختیار نہ کیا اور نمود و نمائش،ذاتی تشہیر سے میلوں دور رہتے شائد ان کا تقویٰ و خلوص ہی تھا جس کے باعث وہ پاکستان کے ہر شیعہ نوجوان کے دل میں گھر کر چکے تھے،ملت کے سیماب صفت نوجوان ہمیشہ ان کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔

 

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے ان گنت پہلو اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی لوگوں کے سامنے نہیں آ سکے جس شخص نے اپنی مکمل زندگی تنظیمی و قومی تشکیلات و تحریکات میں گذار دی ان کی حیات و کارہائے نمایاں پر کئی کتب لکھی جاسکتی تھیں مگر آج تک صر ف دو کتب سامنے آئیں ہیں ایک ان کی زندگی کے حوالے سے اور دوسری ان پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔اول الذکر سفیر انقلاب محترم تسلیم رضا خان اور آخرالذکر پاسبان انقلاب برادر محترم ڈاکٹر سید راشد عباس نقوی نے تدوین کی ہے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان کی اس قدر بڑی شخصیت جس نے مسلسل 30برس قومی و اجتماعی زندگی میں گذار دیئے اور اپنا سب کچھ تنظیموں و تحریکوں کو دیاہم اس کے آثار ہی جمع نہیں کر سکے ۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے تمام پہلو، ہر لحاظ سے ملت کے نوجوانوں کیلئے مشعل رہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی کا صرف ایک کردار ہی ہمارے سامنے ہو تو ان کو نسلوں کا آئیڈیل سمجھنے کیلئے کافی ہے اور وہ ہے امام خمینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حج پر براء ت از مشرکین کیلئے خود کو پیش کرنا ،یہ کس قدر خطرناک کام تھا اس کا اندازہ شائد ہم لوگ کبھی بھی نہ لگا سکیں اس لیئے کہ وہ وقت گذر چکا ہے جس میں یہ فرض نبھایا گیا تھا۔وہ واقعا ایثار و قربانی کا پیکر تھے ،عملی کردار ادا کرنے والے تھے ،آج کے نوجوانوں میں اگر کہیں جذبہ ایثار و قربانی دکھائی دیتا ہے توان کا آئیڈیل ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی ذات ہی توہے۔

 

ان کی برسی کے موقع پر اگر ہم اختصار کے ساتھ بھی ان کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہیں تو کئی صفحات بھر جائیں ،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدایک معروف عالم دین مولانا امیر حسین نقوی کے فرزند تھے جن کی زندگی مکتب تشیع کی تبلیغ و دفاع میں گذری تھی جبکہ محسن ملت جناب قبلہ سید صفدر حسین نجفی ان کے بے حد قریبی رشتہ دار تھے۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی دینی تربیت میں قبلہ صفدر نجفی صاحب کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید بھی انہیں بے حد احترام دیتے تھے اور ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی نوجوانوں کی نشستوں او ر تربیتی پروگراموں میں ان سے بھرپور رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید دیگر کئی ایک علما ء جن میں مولانا قبلہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل ،جناب مفتی جعفر حسین قبلہ،اور آغا سید علی الموسوی بھی شامل ہیں سے بہت زیادہ مربوط رہے ،ان میں بھی آغا سید علی الموسوی کہ جنہوں نے ساری زندگی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ساتھ ایک مستقل رکن نظارت اور بانی رہنما کے طور پر گذار دی سے بے حد محبت و عقیدت رکھتے تھے آغا سید علی الموسوی بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو علما ء کی طرح احترام دیتے تھے وہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو صحیح معنوں میں پہچانتے تھے۔ڈاکٹر شہید بھی دیگر نوجوانوں کی طرح آغا علی الموسوی کے انداز خطاب و گفتگو بالخصوص نوجوانوں کے سالانہ کنونشن میں نئے مرکزی صدر کے اعلان کی تقریب کو بے حد دلچسپی سے ملاحظہ فرماتے تھے۔

 

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو حضرت امام خمینی کی ذات سے عشق تھا اور وہ ان ہی کے عشق میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی ذات میں بھی کھو چکے تھے۔قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کو اگرپاکستان میں کسی سے اپنا درد بیان کرنا ہوتا تھا تو ان کا اعتماد شہید ڈاکٹر پر ہی تھا۔حقیقت میں یہ دونوں شخصیات امام راحل خمینی بت شکن کی عاشق تھیں جنہوں نے وقت کے طاغوت کو للکارا ہوا تھا اور پاکستان کے ہمسائے میں میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کر کے اسلامی انقلاب برپا کر دیا تھاپاکستان کی یہ دونوں عظیم شخصیات اس مادر وطن میں دیگر امت مسلمہ کے ساتھ ملکر امام خمینی کے پیغامِ انقلاب کو راسخ کرنے کیلئے کوشاں تھیں تاکہ اس وطن کے مظلوم عوام بھی استعمار و طاغوت کے منحوص خونی پنجوں سے آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں۔امت کو یکجا و متحد کرنے کیلئے انہوں نے اتحاد بین المسلمین کی تحریک چلا رکھی تھی اور اس کے اثرات بے حد مثبت دیکھے جا رہے تھے دشمنان امت مسلمہ اتحاد کی اس فضا سے خاصا پریشان تھا لہذا اس نے اپنے پالتو نمک خواروں کے ذریعے اس کے مخالف فرقہ وارانہ فضا کو ایجاد کرنے کی منصوبہ بندی کی اور ایسے گروہ تشکیل دیئے جو پہلے سے افغان جہاد کے حوالے سے ان کے رابطے میں تھے۔اصل میں اس کا مقصد پاکستان کی سرزمین سے انقلاب کی پھوٹی کرنوں کا راستہ روکنا تھا۔آج جو کچھ ہماری سوسائٹی اور ملک و معاشرہ میں دکھائی دے رہا ہے یہ سب اسی کا حصہ ہے ۔ فرقہ واریت کا جن آج طاغوت کا بہت بڑا ہتھیار بن چکا ہے جسے جب چاہتے ہیں باہر نکال کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر شہید آخری ایام زندگی سے پہلے ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ ان کی تشکیل کردہ نہضت کا انداز ،طریقہ ء کار اور نام کسی بھی طرح سے ملکی حالات اور ماحول کے حوالے سے آئیڈیل نہیں بلکہ اس کے الٹ ہے اور باعث ضرر ہے جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،اس کا اظہار انہوں نے کئی ایک دوستوں کے سامنے کیا اور اپنے طور پر اس کی کوشش بھی کی مگر اس وقت تک شائد حالات ان کی گرفت سے باہر ہو چکے تھے نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم استعماری و طاغوتی جال میں بری طرح جکڑے دکھائی دیتے ہیں ۔

 

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدکی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیئے نمونہ ء عمل اور رہنمائی کا ذریعہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا اخلاق،کردار،عمل،میل جول،برتاؤ،اٹھنا بیٹھنا،فلاحی امور کا نیٹ ورک،خدمت خلق سے سرشار معمولات،تعلیمی ترقی و پیشرفت کیلئے اسکول سسٹم کا نیٹ ورک،تنظیمی و تربیتی نشستوں کا احیاء،نوجوانوں کی مختلف میدانوں میں مکمل مدد و تعاون،ذاتی و نجی معاملات میں لوگوں کی درست رہنمائی ،دختران ملت کی فعالیت و قومی اجتماعی امور میں ان کی شرکت،ملت کے دفاع و بقا کیلئے خدمات،الغرض ہر حوالے سے ان کی خدمات قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں امداد فاؤنڈیشن کے نام سے بھی ایک ادارہ بنایا تھا جو مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا تھااس کے تحت قوم کی بچیوں کی شادی اخراجات سے لیکر اسیران ملت و متاثرہ خانوادوں کی امداد و بحالی کا سلسلہ جاری تھااور کئی ایک لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کروا کر ان کی مدد کی گئی ۔آج یہ ادارہ یا اس جیسا کوئی ادارہ کہیں نظر نہیں آتااسی طرح ڈاکٹر شہید نے ایک اسکول سسٹم المصطفےٰ اسکول کے نام سے قائم کیا جس کی کئی ایک برانچز ملک کے کئی ایک شہروں میں قائم کی گئی تھیں مگر صد افسوس آج یہ اسکول سسٹم بھی بند کر دیا گیا ہے۔بلتستان کی ایک شخصیت کے ساتھ ملکر انہوں نے ایک ادارہ بلتی طالبعلموں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم کیا جس کا نامbestرکھا تھا۔

 

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید زندگی میں ایک ایسے محور کی حیثیت رکھتے تھے جس کے گرد ملک بھر کے تنظیمی نوجوان کھنچے چلے آتےتھے ان کی مقناطیسی شخصیت کی کشش سے ہر کوئی ان سے مربوط رہتا تھااور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا یہ کمال تھا کہ وہ ہر ایک سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیتے تھے کسی کو بیکار نہ رہنے دیتے تھا گویا ان کی ذات کی شکل میں تنظیمی مسؤلین و سابقین کا ایک نیٹ ورک موجود تھا ان کی شہادت کے بعد ہم اس مقناطیسیت سے محروم ہو گئے اور سابقین کا کوئی نیٹ ورک بھی قائم نہ کر سکے نہ ہی کوئی ایسی شخصیت ابھر کر سامنے آ سکی جس پر شہید ڈاکٹر کی طرح سب احباب و دوست اعتماد کرتے اور وہ شخصیت بھی اپنے مستقبل کی قربانی دے کر قومی اجتماعی جدوجہد اور اسلامی تحریک کو مضبوط کرتی۔وقت آج بھی ہمیں پکار رہا ہے ۔آج بھی کام کرنے کی شدید ضرورت ہے آج بھی سعادت و خوشبختی کا اور شہدا ء کا راستہ منتظر ہے کہ کوئی محمد علی نقوی بن کر آئے اور چھا جائے۔آخر میں تعزیت و تسلیت عرض کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ

 

میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
تیرے مقام ،تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں


تحریر:ارشاد حسین ناصر

Page 2 of 2

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree