وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے زیر اہتمام شہدائے سانحہ علمدار روڈ2013کی چوتھی برسی پر عظیم الشان اجتماع شہداءچوک پر منعقد کیا گیا، اس اجتما ع میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین وحضرات سمیت خانوادہ شہداء نےشرکت کی جبکہ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی ، مرکزی رہنما علامہ اعجاز بہشتی ، علامہ ہاشم موسوی، علامہ جمعہ اسدی، علامہ ولایت جعفری، رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا اور چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے خصوصی خطاب کیا۔

 اس موقع پر مقررین نے نے کہا ہے کہ 10 جنوری 2013 پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا، جس دن اہل جور وستم نے ظلم و بربریت کی ایک بدترین مثال قائم کردی۔ جہاں علمدار روڈ پر نہتے اور بے گناہ 86 افراد کو زندگی کی نعمت سے محروم کردیا گیا اور سینکڑوں لوگ اس دھماکے میں زخمی اور اپاہج ہوگئے۔ کتنے گھرانے ایسے تھے جو اپنے واحد سرپرست سے محروم ہوئے۔ کتنی ماوؤں کے گود اپنے لاڈلے اور کتنے بچے جو باپ کے سایے سے محروم ہوئے۔ یوں تو سفاک دہشتگردوں نے بارود کے ذریعے اِن شہدا کے جسموں کے ہزارو ں ٹکڑے کر دیئے۔ مگر اِن پاکیزہ اجساد کاہر ٹکڑا اتنا پُر تاثیر ثابت ہوا کہ پاکستان کے طول و ارض سے لے کر دُنیا کے کونے کونے تک انسانی ضمیر کو جنجھوڑ کر رکھ دیا اور انھیں ظلم کے خلاف علم بغاوت لے کر باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ یہ وہ پاک و مقدس لہو ہے جس نے اپنی حرارت سے سخت ترین سردی میں فضا کو ایسا گرمایا کہ لوگوںنے پورا ہفتہ سڑک پر گزار دیا اور اپنی ہمت سے اُس وقت کے کرپٹ اور ظالم صوبائی حکومت کو گھر کا راستہ دکھایا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے۔ کہ آج تک اُن قاتلوں کو نہ تو پکڑا گیا اور نہ ہی انکا پیچھا کیا گیا۔ جو بذات خود وفاقی و صوبائی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مُنہ پر ایک بدنما داغ ہے، جو کبھی نہیں دھول سکتی۔  بیان کے آخر میں موجودہ صوبائی حکومت اور وفاق سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ 10جنوری 2013  اور باقی سانحات کے شہداء کے قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) زوال کسی کا مقدر نہیں، لیکن زوال ہر کسی کو آسکتا ہے، کوئی بھی  شخص یا ادارہ جب حالات اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پلاننگ میں ضروری تبدیلیاں نہیں لاتا تو زوال اس کا مقدر بن جاتاہے۔ اسی ہفتے کی بات ہے،افغان پارلیمنٹ کے سامنے خود کش حملہ ہوا، حملے میں ۴۰ کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہوئے،مرنے والوں میں فغانستان کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے مقامی سربراہ بھی شام تھے۔  ذرائع ابلاغ نے  اس دھماکے کو کابل میں ہونے والے  بدترین دھماکوں میں سے ایک قرار دیا۔  دھماکے کی زمہ داری طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بخوشی قبول کرلی، اگلے روز  دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے اپنے بیان میں کہا کہ  بھارت افغانستان کی سیکیورٹی صورت حال کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، اس کے  بعد اگلے روز ہی  افغانستان میں پاکستان ایمبیسی کے سامنے افغانیوں نے مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے پاکستان اور پاکستان آرمی  کے خلاف نعرے بازی کی،جس کے بعد مظاہرین  نےایمبیسی میں گھس کر توڑ پھوڑ بھی کی۔

اس واقعے سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں بھارتی سفارتکاری کامیابی کی طرف جارہی ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی سفارتکاری روبہ زوال ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی روز اول سے ہی بڑی طاقتوں کے دباو کی شکار ہے۔بڑی طاقتیں ہماری خارجہ پالیسی سے اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں اور پھر کنارہ کش ہوجاتی ہیں۔ طالبان کے مسئلے میں بھی ہمارےساتھ ایسا ہی ہوا۔ ہم نے امریکی پلاننگ کے تحت دینی مدارس میں طالبان کی فصل بوئی ،امریکہ نے اس سے فائدہ اٹھایا اور پھر طالبان کو دہشت گرد کہہ کر الگ ہوگیا۔ اب طالبان کے وجود کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔

افغانی عوام جہاں ہمیں طالبان کا سرپرست سمجھتے ہیں وہیں افغانستان میں بد امنی کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں نے حالات کے ساتھ پلاننگ نہیں کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ  طالبان کی بھی ایک بھاری  اکثریت ہمارے خلاف ہوگئی اور افغانی عوام بھی ہم سے بد ظن ہوگئے۔

طالبان کی طرف سے پاک فوج کو ناپاک فوج کہنا،پاکستان آرمی کے جوانوں کے گلے کاٹنا اور پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرنا ہماری ناکام  خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ ہماری داخلہ پالیسی بھی اس حوالے سے مکمل طور پر ناکام ہے۔ہمارے ہاں طالبان کے ساتھ نمٹنے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں۔نیشنل ایکشن پلان فقط کاغذی کاروائی تک محدود ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ حکومت نے 94 مشکوک مدارس پر پابندی کیلئے وفاق کو خط لکھا تھا لیکن ہماری  وفاقی وزارت داخلہ نے سندھ حکومت کی یہ درخواست مسترد کردی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت نے جن مدارس کی فہرست وفاقی حکومت کو دی تھی وہ صرف سندھ  میں ہی نہیں بلکہ فاٹا اور دیگر صوبوں میں بھی واقع تھے۔ سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ مشکوک مدارس جس صوبے میں بھی ہیں ان پر پابندی لگنی چاہیے چونکہ یہ آپس میں مضبوط نیٹ ورکنگ کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت فقط اپنی حدود تک محدود رہے۔

یعنی داخلی طور پر مشکوک مدارس اپنا کام کررہے ہیں اور خارجی طور پر افغان عوام ہم سے بد ظن ہو ہے ہیں۔ افغانستان جیسے برادر ہمسایہ ملک کے لوگوں  کا ہم سے نالاں ہو جانا کسی طور بھی ہمارے حق میں نہیں۔

افغانستان کے لوگوں کے دلوں میں پاکستانیوں کا کیا مقام ہے اور آئندہ  وقتوں میں پاک افغان تعلقات کس طرف جارہے ہیں،  اس کا اندازہ پاکستان ایمبیسی پر افغانیوں کے حملے سے ہمیں ہوجانا چاہیے۔

ہمیں ہر قیمت پر اٖفغان عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اپنی طالبان پالیسی پر فوری نظر ثانی کرنی چاہیے۔   جو حال ہماری وزارتِ خارجہ کا ہے وہی وزارت داخلہ کا بھی ہے۔

ملک میں ایک عرصے سے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی گمشدگی  وزارت داخلہ کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔بعنوان نمونہ عرض کروں کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق  گزشتہ برسوں میں عدالت  نے محترم  خواجہ آصف کو 35 لاپتہ افراد کو ڈھونڈ کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا  تھاجو مبینہ طور پر خفیہ اداروں کی غیر قانونی تحویل میں تھے۔ وزارت دفاع نے ٹال مٹول کرکے 7 دسمبر 2013ء کو 14 افراد کو پیش کیا  تھاجن میں سے صرف 6 کی شناخت ہو سکی  تھی۔

ابھی صرف اس مہینے میں کئی ایسے بلاگرز بھی لاپتہ ہوگئے ہیں جو انسانی حقوق کی بات کرتے تھے۔ ایک اسلامی اور جمہوری ملک میں لوگوں کی اس طرح سے گمشدگی بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر سلمان حیدر چھ جنوری سے اسلام آباد سے لاپتہ ہیں، کراچی سے تعلق رکھنے والے ثمر عباس  ثمر عباس سات جنوری بروز ہفتہ اسلام آباد سے لاپتہ ہیں، سوشل میڈیا پر فعال شخصیت  احمد وقاص گورایہ اور عاصم سعید چار جنوری سے لاپتہ ہیں،  احمد رضا نصیر سات جنوری سے لاپتہ ہیں۔

یہ ہماری وزارت داخلہ اور خارجہ کی کارکردگی ہے ، ہم کئی سالوں سے مسلسل دشمن تراشی اور دشمن سازی میں مصروف ہیں، ہم نے اپنے ہی جوانوں کو طالبان بنا کر اپنا دشمن بنایا، اب ہم اپنے ہی جوانوں کو اغوا اور لاپتہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے  سینکڑوں جوان ملکی و غیر ملکی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، بہت سارے ایسے ہیں کہ جو جرم کرنے سے انکاری ہیں لیکن انہیں پھانسی دے دی جاتی ہے اور بہت سارے ایسے ہیں کہ جو طالبان  ہونےپر فخر کرتے ہیں اور وہ سر عام دندناتے پھرتے ہیں،  ہماری وہ توانائیاں جو بد عنوان اور کرپٹ عناصر کے خلاف استعمال ہونی چاہیے تھیں اپنے ہی جوانوں کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں ۔

اگر اس ملک کو بچانا ہے تو اس کے جوانوں کو بچائیے ، اس ملک کے جوانوں  کے لئے منصوبہ بندی کیجئے ، اس ملک کے تعلیمی اداروں سے منشیات اور کلاشنکوف کلچر کا خاتمہ کیجئے، اس ملک کے ہسپتالوں میں لوگوں کو زبردستی سٹنٹ ڈالنے والوں کے خلاف کاروائی کیجئے۔

ہمارے اعلی حکام کو اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے  حالات کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دینی  چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے جوان ہمارا سرمایہ ہیں ہمارے دشمن نہیں ہیں۔  اگر ہمیں انہیں طالبان کی انڈسٹری میں ڈال کر دہشت گرد بنائیں گے تو ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی  کامیاب نہیں ہوگی اور اگر ہمیں انہیں اغوا اور لاپتہ کرتے رہیں گے تو ہم داخلی طور پر کبھی بھی مضبوط نہیں ہوسکتے۔

ہمارا عروج و زوال ہمارے  پروردگار اور ہمارے ملک کے جوانوں کے ہاتھ میں ہے،  بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں نہیں۔

 

 

 


تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کی صوبائی شوریٰ کا اجلاس اور صوبائی کابینہ کی تقریب حلف برداری مرکزی سیکریٹریٹ میں منعقد ہوئی۔ جس میں 18 رکنی صوبائی کابینہ کے علاوہ، تمام ضلعوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ اجلاس سے مرکزی سیکرٹری روابط ملک اقرار حسین اور مرکزی سیکرٹری تعلیم نثار فیضی نے خطاب کیا۔ مختلف عہدیداروں نے اپنی آراء تجاویز پیش کیں۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقبال بہشتی نے گذشتہ چند ماہ کی تنظیمی کارکردگی رپورٹ اور آئندہ کا پروگرام پیش کیا اور آخر میں صوبائی کابینہ کے اراکین سے حلف بھی لیا۔ حلف اٹھانے والوں میں صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید عبدالحسین، علامہ سید وحید کاظمی، سیکرٹری تنظیم سازی سید مسرت حسین منتظری، سیکرٹری سیاسیات قاسم رضا، سیکرٹری میڈیا سید نوید حسین نقوی، سیکرٹری تحفظ عزاداری نیئر عباس جعفری، سیکرٹری تبلیغات علامہ ارشاد علی، سیکرٹری یوتھ ونگ شفیق حسین طوری، سیکرٹری تربیت علامہ ذوالفقار حیدری، سید تہور عباس زیدی، صفدر حسین بلوچ اور تنویر مہدی شامل ہیں۔

وحدت نیوز (حیدرآباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے زیر اہتمام علامہ مقصود علی ڈومکی کی زیر صدارت دہشت گردی، کرپشن اور سندھ کے ایشوز پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ آل پارٹیز کانفرنس سے سندھ ترقی پسند پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبد الحمید میمن، پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی سینیئر نائب صدر حلیم عادل شیخ اور صوبائی نائب صدر ڈاکٹر مستنصر بااللہ، جماعت اسلامی حیدر آباد کے ضلعی امیر حافظ محمد طاہر مجید، قومی عوامی تحریک کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹر عزیز ٹالپر اور میڈیا سیکرٹری قومی عوامی تحریک محمد اشرف پلیجو، پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما سید یار محمد شاہ، پی ایس پی کے رہنماء سید احمد رشید، معروف دانشور ذوالفقار ھالیپو ٹو، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے صوبائی نائب صدر مولانا تاج محمد ناھیوں، اہل سنت رہنما علامہ ڈاکٹر مسعود جمال، سندھ مشائخ کونسل کے صوبائی جنرل سیکرٹری سید محی الدین شاہ، امامیہ آرگنائزیشن کے رہنماء ذوالفقار علی جمانی، پیام ولایت کے عاشق حسین سومرو اور مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ترجمان علامہ مختار احمد امامی، صوبائی رہنما علامہ دوست علی سعیدی، یعقوب حسینی و دیگر شامل تھے۔

اس موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے اے پی سی کا 12 نکاتی مشترکہ اعلامیہ پیش کیا، جس کی تمام جماعتوں نے حمایت کی۔ اس موقع پر تمام شریک جماعتوں کے اکابرین پر مشتمل 14 رکنی امن کمیٹی قائم کی گئی، جو دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جدوجہد کرے گی۔ تمام جماعتوں نے 27 جنوری کو دہشتگردی کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے اعلانیہ یوم احتجاج کی حمایت کی۔ آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ دہشت گردی اور مذہبی منافرت و انتہا پسندی معاشرے کیلئے نقصان دہ ہے۔ ہم دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف سندھ کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر سندھ دھرتی کے ایشوز کیلئے بھرپور جدوجہد کریں گے۔ اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد الحمید میمن مرکزی جنرل سیکرٹری سندھ ترقی پسند پارٹی نے کہا کہ پاکستان کے اندر انصاف اور برابری کی بنیsاد پر سب کے ساتھ سلوک ہو، ہم دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ ہیں۔

کیو اے ٹی کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹر عزیز ٹالپر نے کہا کہ سندھ دھرتی نے ہمیشہ امن و محبت کا پیغام دیا ہے۔ صوفیاء کی سرزمین پر دہشت گردی قبول نہیں۔ جے یو آئی (ف) سندھ کے صوبائی نائب صدر مولانا تاج محمد ناھیوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں، ڈاکٹر خالد محمود سومرو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے، ہم دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ ہیں۔ اہل سنت رہنما علامہ ڈاکٹر مسعود جمال نے کہا کہ طالبانی دہشت گرد انسانیت کیلئے خطرہ ہیں، داعش کو بنانے والے اور اس کے سپورٹرز بے نقاب ہوچکے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ترجمان علامہ مختار احمد امامی نے کہا کہ ملک کے اندر شیعہ، سنی بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں، سب مل کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جدوجہد کریں۔ سب قوموں کو برابری کی بنیاد پر حق دیئے جائیں۔ انصاف کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔

وحدت نیوز (قم) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ امور خارجہ کے مرکزی سیکریٹری علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کی کی بنیادی زمہ داری عدل وانصاف کی فراہمی ہے. کیونکہ حکومت کفر سے تو قائم اور باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم سے قائم نہیں رہ سکتی.پانچ دن پہلے اڈیالہ جیل روالپنڈی میں عدالت کے تقاضوں کے خلاف ہمارے ایک بہترین مومن جوان نوید حسین کو پھانسی دی گئی جنکا تعلق گلگت بلتستان سے تھا اور ہمارے دل افسردہ اور زخمی تھے کہ آج صبح بحرین کی ظالم حکومت نے تین بیگناہ  شیعہ جوانوں کو پھانسی دے دی اور ریاستی دہشتگردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی کیونکہ اقتدار کی طاقت سے عدل وانصاف کے ایوانوں کو شخصی انتقام اور بغض کے لئے استعمال کرنا ریاستی دہشتگردی کی بد ترین مثال ہےاور جب عوام کا اعتماد عدالتوں سے اٹھ جاتا ہے تو بد امنی اور خانہ جنگی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بحرین میں انسانی حقوق کی پائمالی پر عالمی اداروں کی خاموشی قابل مزمت ہے،مجلس وحدت مسلمین ان بھیانک جرائم کی پر زور مذمت کرتی ہےاور انسانی حقوق کے اداروں اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی زمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ان جرائم کو روکنے میں کردار ادا کریں.اور ان ظالموں کا محاسبہ کریں،یہ بیگناہ بہنے والا خون انکے اقتدار کو لے ڈوبے گااور ہم وارثان شہداء اور انکے اہل خانہ کی خدمت میں تعزیت وتسلیت پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطا فرمائےاور ان عظیم اور مظلوم شھدا کو اپنی رحمتوں سے نوازے اور جنت الفردوس عطا فرمائے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) پاکستان کے قیام کا مقصد اگرچہ ایک ایسے جداگانہ وطن کا حصول تھا، جس میں تمام تعصبات بالخصوص مذہبی تفریق و تقسیم سے بالاتر ہو کر تمام مذاہب کے ماننے والوں کیلئے آزادی ہو اور وہ بے خوف و تردید نیز کسی تعصب کا شکار ہوئے بغیر اپنے عقیدے و مذہب کیمطابق اپنی عبادات کو انجام دے سکیں، اقبال و قائد رحمۃ اللہ کے خیال و فکر میں یقیناً ایسا ہی پاکستان اور ہندوستان سے جدا وطن کا حصول تھا، مگر بدقسمتی سے حضرت اقبال قیام پاکستان سے بہت پہلے اور قائد اعظم قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد نوزائیدہ مملکت کو بیچ منجدھار کے چھوڑ کے داغ مفارقت دے گئے، جس کے بعد ہمارے پیارے پاکستان کو ایسی نظر لگی کہ آج تک ہم تعصبات و تنگ نظریوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تعصب نے ہم سے ایسے ایسے گوہر نایاب چھین لئے کہ جن کا متبادل ہمیں دکھائی نہیں دیا۔ ان شہداء، چمکتے ستاروں اور پاک سرزمین کے فرزندان میں علماء بھی ہیں اور بزرگان بھی، ڈاکٹرز بھی ہیں اور وکلا بھی، اعلٰی آفیسرز بھی ہیں اور خطیب بھی، شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی، پروفیسرز بھی ہیں اور انجینئرز بھی، طالبعلم بھی ہیں اور تاجر بھی۔ الغرض اس تعصب و تنگ نظری کا شکار ہر طبقہ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انتہائی قیمتی اور ملک کے حقیقی خدمت گذار نظر آتے ہیں۔

یہ فہرست بہت طویل ہے، کس کس کا نام لیں، کس کو روئیں، کس کس کا ماتم کریں، یہ ایک دو دن کی بات نہیں، کم از کم پینتیس برس کی لہو رنگ داستان ہے، جسے سنانے کیلئے بہت وقت درکار ہے اور لکھنے کیلئے کتابوں کا بار، انہیں میں سے ایک سید محسن نقوی ہیں، جن کا اصل نام سید غلام عباس تھا، ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان سے تھا، محسن نقوی نے 6 مئی 1947ء کو جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خاں میں سید چراغ حسن نقوی کے گھر میں آنکھ کھولی، مگر محسن نقوی نے اپنا مسکن و رہائش لاہور کو پسند فرمایا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان سے ایم اے اردو کیا تھا۔ اس دوران ان کا پہلا مجموعہ کلام چھپا، جس کے بعد ان کی شہرت و نام میں بلندی دیکھی گئی، اسی دوران وہ لاہور منتقل ہوگئے، جہاں 15 جنوری 1996ء کو انہوں نے لاہور کی معروف مون مارکیٹ دبئی چوک میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت پائی۔
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے

سید محسن نقوی کو بطور ایک شاعر دیکھیں یا ایک بلند پایہ خطیب کے طور پر سٹڈی کریں، ان کی شخصیت کو ایک ادیب کے طور پر سامنے رکھیں یا ایک مداح اہلبیت ؑ کے طور پر، انہیں ایک قومی رہنما کے طور پہ دیکھا جائے یا ایک سیاستدان کے طور پہ، محسن نقوی کئی حوالوں سے منفرد شناخت رکھتے تھے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی شاعری انہیں ان سب حیثیتوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ شاعر تھے، غزل گو تھے، مگر ان کی نظمیں بھی لافانی ہیں، وہ شاعری میں منفرد حیثیت و مقام کے حامل تھے، انہیں آپ جب جب پڑھیں گے، ان کے کلام سے نئی ضوفشانیاں پائیں گے، وہ ادب کے ہر رنگ اور شاعری کی ہر صنف پر ناصرف خوبصورتی سے پورے اترتے نظر آتے ہیں، بلکہ ہر ایک صنف کو اپنا رنگ دیتے دکھائی دینگے۔ ان کی شاعری میں آپ کو مقتل، قتل، مکتب، خون، گواہی، کربلا، ریت، فرات، پیاس، وفا، اشک، صحرا، دشت، لہو، عہد، قبیلہ، نسل، چراغ، خیمہ جیسے الفاظ، جن کا تعلق کسی نا کسی طرح کربلا اور اس سرزمین پر لکھی گئی ان کے اجداد کی حریت و آزادی کی بے مثال داستان سے ہے، بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ کربلا کی تپتی زمین پر قربانی کی جتنی داستانیں لکھی گئی ہیں، محسن نقوی نے ان کو کسی نا کسی رنگ و آہنگ میں اپنا موضوع بنایا ہے اور انہیں اپنے تئیں زندہ کرنے اور نئے پہلو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔

ذرا اس کلام میں دیکھیں کہ کربلا سے درس حریت اور احساس زندگی لینے والا یہ مسافر کربلا، کس طرح حالات حاضرہ دیکھ کر، اس کا احساس کرکے اسے اپنے رنگ میں اجاگر کر رہا ہے۔۔۔۔
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
آج بھی ہمارے ملک میں صورتحال ویسی ہی ہے، جیسی آج سے کئی برس پہلے شہید محسن نقوی نے محسوس کی تھی۔ ہر سو بے گناہوں کا لہو بہایا جا رہا ہے اور درد و الم کی داستانیں گھر گھر اور شہر شہر رقم ہو رہی ہیں۔ اب کوئی معزز نہیں رہا، کوئی تہذیب نہیں رہی، کوئی توقیر نہیں رہی، احساس مر چکا ہے، عزتین پائمال کی جا رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی ہر شام خون آشامیوں کی تاریک راتوں کیساتھ سامنے آتی ہے، محسن جیسا حساس شاعر اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، لہذا وہ اس پر بہت ہی اداس ہوا، اگر اس کی شاعری میں قتل، مقتل، بھرے بازار جیسے الفاظ پڑھنے کو ملتے ہیں تو یہ اس کے اندر کا کربلائی ہونا ہے، جو کسی بے گناہ کے قتل پر اپنا دھیان الگ نہیں کرسکتا۔ انسان کو فکر معاش کے ذریعے جس طرح لاتعلق رکھنے کی سازش کی جاتی ہے، وہ ایک باشعور فرد ہونے کے ناطے اس سے آگاہ کر رہے تھے کہ
رزق، ملبوس، مکان، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انہی افکار کے بیچ
اور پھر محسن کا دردمند دل یہ کہتا ہے کہ۔۔۔۔
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارہ نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیرِ خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

ذیل میں جس کلام کو پیش کر رہے ہیں، اسی میں دیکھیں کہ کتنے استعارے اور الفاظ ایسے ہیں، جن کا تعلق صحرائے کربلا پر لکھی تاریخ کی عظیم ترین داستان عشق سے ہے۔
چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی
قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی
خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا
میرے لبوں پہ حرف دعا کی لکیر تھی
میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی
شہید محسن نقوی اگرچہ عام مشاعروں میں زیادہ نہیں دیکھے جاتے تھے اور ایسے مشاعرے و پروگرام جن کا خاص مقصد یا خاص ایجنڈا حکومتی یا کسی خاص ادبی گروہ یا سوچ و فکر کی ترویج ہوتا تھا، ان سے دور ہی دکھائی دیتے تھے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ عوامی سطح پہ روزانہ کئی کئی مجالس پڑھتے تھے، جن میں ہزاروں لوگ ان کے سامع ہوتے تھے اور ان کو داد و تحسین دیتے تھے۔ مجالس میں انہیں لوگ بے حد عقیدت سے ملتے تھے، محسن کو بھی اپنے انہی چاہنے والوں سے محبت تھی۔ وہ کو بہ کو، شہر بہ شہر جاتے اور مجالس میں شریک ہوتے، اپنے خوبصورت عقیدت بھرے افکار سے لوگوں میں محبت اہلبیت کے چراغ جلاتے۔ انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا، اگرچہ وہ ایوارڈز اور عہدوں سے بہت بلند مقام رکھتے تھے، مگر یہ ان کی فکر کی ترویج و تسلیم کا ایک ذریعہ تھا۔ وہ بہرحال اپنے دور کے سب سے موثر قادرالکلام شاعر تھے، جنہیں عوامی پذیرائی اور محبتیں حاصل تھیں۔

مزاحمتی شاعری، جس کا ہدف عوامی شعور کی بیداری، غیر عادل حکمرانوں کا احتساب اور انصاف و مساوات قائم کرنا ہوتا ہے، محسن نقوی کے ہر کلام میں اپنے انداز میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے انداز کے حامل نہیں تھے، مگر ان کا طرز تخاطب اور انداز تحریر زمانہ حال و مستقبل سے ہم آہنگ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ان کی شاعری کو آج پڑھیں تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ آج کے حالات پر لکھی گئی ہے۔۔۔۔
منصب بقدر قامت کردار چاہیئے
کٹتے ہوئے سروں کو بھی دستار چاہیئے
اک صبح بے کفن کو ضرورت ہے نوحہ گر
اک شام بے ردا کو عزادار چاہیئے
ہے مدعی کی فکر نہ مجرم سے واسطہ
منصف کو صرف اپنا طرفدار چاہیئے
اگرچہ مقتل اور قتل سے متعلق ان کے بے انتہا خوبصورت اشعار ملتے ہیں، مگر اس کلام میں جو پیغام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔۔۔۔
یہ رونقیں، یہ لوگ، یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا
اور قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
اور اسی کلام میں یہ شعر ملاحظہ کریں، کس طرح یہ مرد مجاہد اپنے نہ ہونے کی خبر دیتے ہوئے اپنے افکار کی ترو تازگی کی بات کر رہا ہے۔۔۔
آئندہ نسل مجھے پڑھے گی غزل غزل
میں حرف حرف اپنا ہنر چھوڑ جاؤں گا

ان کی سیاسی ہمدردیاں پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ تھیں، محسن نقوی کی پارٹی سے بے لوث محبت اور انتھک محنت و لگن کو سراہتے ہوئے غریبوں کی نمائندہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود کے مقابلے میں محسن نقوی کو پارٹی ٹکٹ دیا، مگر بدقسمتی سے یہ انتخابات ملتوی ہوگئے۔ جن دنوں ڈیرہ غازی خان کے فاروق لغاری بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے، وہ ان کی حکومت میں مشیر بھی بنائے گئے، جبکہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اسیری اور پہلی حکومت گرائے جانے پہ ایک لافانی نظم لکھی، جسے ایک عرصہ تک پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے جلسوں میں خاص طرز و ترنم میں پڑھا کرتے تھے۔ اس نظم کا عنوان "یااللہ یارسول بے نظیر بے قصور تھا" اسی طرح انہوں نے ایک اور لافانی کلام بھی لکھا، جسے وہ مجالس میں پڑھا کرتے تھے، اس نظم میں کالعدم تکفیری گروہ کی حقیقت بیان کی گئی تھی، اس کے بول کچھ یوں تھے۔۔۔۔
کل شب کو خواب میں میرے دور پرفتن
دیکھی یزیدیت کے قبیلے کی اک دلہن
آئی صدا اس کے مقابل کرو جہاد
دیکھیں یہ ہے سپاہ صحابہ کی انجمن
محسن نقوی نے چند ایک فلموں کیلئے بھی گیت لکھے، مگر وہ فلمی دنیا کے مزاج سے ہم آہنگ نہ تھے، البتہ ان کی غزلیں بالخصوص ؛آوارگی؛ کو معروف گلوکار غلام علی نے گایا، جو بہت پسند کی گئی۔ محسن نقوی نے قومیات میں بھی اپنا حصہ ڈالا، اسلام آباد کے معروف معرکہ جس میں مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں تاریخی جدوجہد کی گئ
وہ سٹیج پر موجود تھے اور اپنے کلام و افکار و انداز سے عوام کو گرما رہے تھے۔ محسن نقوی کی شہادت کے بعد ان کے فرزند سید عقیل محسن نے ان کی مسند مجالس سنبھال رکھی ہے، جو ملک بھر میں اپنے باپ کے نام کیساتھ پہچانے جاتے ہیں۔

تحریر۔۔۔ارشاد حسین ناصر

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree