شیعت نیوز: جنرل  قاسم سلیمانی کس شخصیت  کا نام ہے!؟ ہمیں بار بار یہی بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایک ایرانی جنرل تھے اور بس ۔۔۔ یہ آدھی سچائی ہے، ہمیں ہمیشہ آدھی سچائی ہی بتائی جاتی ہے۔

مکمل سچائی  یہ نہیں ہے کہ وہ  ایک ایرانی جنرل  اور ایک فوجی شخصیت تھے بلکہ مکمل سچائی یہ  ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کے راستے میں کھڑی ایک دیوار تھے۔

 انہوں نے اپنی بصیرت کے ساتھ اسرائیل پر تباہی کا خوف سوار کر کےصرف ایران کا  دفاع نہیں کیا بلکہ پورے عالم اسلام کا دفاع کیا، امریکہ اور مغرب جو مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنا چاہتے تھے ، قاسم سلیمانی نے اس نقشے کو خلیج فارس میں بھگو کر ہمیشہ کیلئےمٹا دیا۔

 اگر امریکہ و یورپ کے منصوبے کے تحت مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل ہوجاتا تو ساری اسلامی ریاستوں کے ٹکڑے ہوجاتے۔

 قاسم سلیمانی نے اس نقشے کو ناکام کر کے ساری اسلامی ریاستوں کی حفاظت کی۔

  اسی طرح ہر باشعور انسان یہ جانتا ہے کہ داعش کو فقط شام اور عراق کیلئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ سارے جہانِ اسلام کیلئے بنایا گیا تھا، قاسم سلیمانی نے داعش کا خاتمہ کر کے پورے جہانِ اسلام کو تحفظ بخشا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ  اس نظریے کو غلط ثابت کردیا ہے کہ امریکہ و یورپ کے خلاف صرف شیعہ ہلال  سرگرم ہے، بلکہ قاسم سلیمانی نے عراق، شام  اورفلسطین  جیسی غیر شیعہ ریاستوں کا دفاع کر کے اور حشد الشعبی کو فعال کر کے شیعہ ہلال کے ساتھ سُنی ہلال کو بھی ملایا اور اب یہ ہلال ماہَ کامل بن چکا ہے۔ اب امریکہ و یورپ کی استعماری  کارروائیوں کے خلاف صرف شیعہ ہلال نہیں بلکہ  دشمن کے مقابلے میں شیعہ و سُنی بدر یعنی ماہ کامل ہے۔

قاسم سلیمانی نے اپنی جدوجہد سے حالات تبدیل کر دئیے ہیں، اب سوچیں بدل چکی ہیں،

قاسم سلیمانی نے اپنی چالیس سالہ مقاومتی زندگی میں اہل سنت کو یہ شعور دیا ہے کہ ہم  کوئی الگ الگ ہلال نہیں ہیں بلکہ ہم امت واحدہ اور ماہ کامل ہیں۔

 ہم دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ دہشت گردوں کو  ہم پر مسلط کیا جاتا ہے۔

 ہم میں سے چند نادان لوگوں کو خرید کر ہمیں الگ الگ کر کے شکار کیا جاتا ہے۔

 لہذا دہشت گردوں کے مقابلے میں ملتیں متحد ہوجائیں۔

 عراق جہاں تقریبا نوّے فی صد علاقے پر داعش قابض ہو چکی تھی ، وہاں  سے داعش کو قاسم سلیمانی نے صرف  اسلحے کے زور پر باہر  نہیں نکالا بلکہ حشد الشبی کے پلیٹ فارم پر عراقیوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف متحد کر کے داعش کو باہر نکالا ہے۔

شام میں صرف بشارالاسد کی فوج تنہا داعش کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتی تھی ، قاسم سلیمانی نے شامی قوم کو داعش کے مقابلے میں متحد کر کے یہ معرکہ سر کیا ہے۔

 یمن میں صرف سرکاری فوج امریکہ و یورپ کے جدید ہتھیاروں اور سعودی عرب کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی، قاسم سلیمانی نے یمنی قبائل کو اپنے دشمن کے مقابل متحد کر  کے  انہیں سرفراز کردیا ہے۔

  فلسطین میں تنہا فسطین اتھارٹی مچھر مارنے کی طاقت نہیں رکھتی،  فلسطینیوں کو مقاومت کیلئے قاسم سلیمانی کے تفکر نے متحد کئے رکھا ہے۔

یہ قاسم سلیمانی کی بصیرت کی جلائی ہوئی شمعیں ہیں کہ آج کسی بھی محاذ پر اہل تشیع اپنے آپ کو اپنے اہل سنت برادران کے بغیر تنہا اور ادھورا محسوس کرتے ہیں۔

 آج خود ہمارے سلفی، اہلحدیث ، وہابی اور دیوبندی برادران سعودی حکومت کی امریکہ نوازی پر اعتراض کرتے ہیں۔

 آج خود سعودی شاہی خاندان کے اندرایسے افراد موجود ہیں جو سعودی حکومت  کی  امریکی و اسرائیلی غلامی کو ننگ و عار سمجھتے ہیں۔

یہ عالم اسلام میں بیداری، یہ شیعہ سنی وحدت،  یہ اپنے ملک کے دفاع کیلئے دہشت گردوں کے خلاف متحد ہوجانا، یہ دہشت گردی کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم،  یہ امریکہ و استعمار کا نوکر بننے  کو توہین سمجھنا ، المختصر یہ کہ  بیدرای، ہوشیاری، بصیرت، قومی وقار اسلامی وحدت اور باہمی بھائی چارے کو فروغ دینے کا نام قاسم سلیمانی ہے۔

ایسے میں بحیثیت پاکستانی

  ہمیں بھی حاج قاسم سلمانی کے راستے پر چلتے ہوئے  پنجابی، بلوچی، کشمیری، سندھی،پختون، شیعہ اور سنی کے الگ الگ ہلال جمع کر کے انہیں ماہ کامل بنا کے لیے کام کرنا چاہیے، انہیں ملکی مفادات کیلئے متحد کر دیں۔ ایسا اتحاد جو گریٹر  ہندوستان کے راستے میں کھڑا ہوجائے،  اپنے ملک کے اندر حشدالشعبی کی طرح تمام قبائل اور فرق و مذاہب کو اپنے ملک کی سلامتی کے لئےمتحد کر دیں۔

 اور شھیدِ محبوب قاسم سلمانی کے لیے زیادہ سے زیادہ شیعہ سنی مشترکہ محافل قرآن خوانی اور شھید کی اس وحدت امت کی فکر کو  اپنے وطن میں فروغ دے کر شھید کے سپاھیوں میں شامل ہو جائیں۔

تحریر: نذرحافی

وحدت نیوز(جیکب آباد) انجنیئرعید محمد ڈومکی کی رہائشگاہ پر محفل میلاد کا انعقاد ہوا حضرت پیر محمد شاہد نے صدارت کی ، مہمان خاص محترم انور خان سومرو و دیگر شریک ہوئے۔ محفل میلاد سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ترجمان علامہ مقصود علی ڈومکی نےخصوصی خطاب کیا۔ جبکہ نعت خوان حضرات نے بارگاہ رسالت میں نعت اور منقبت کا نذرانہ پیش کیا۔

محفل میلاد سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اھل بیت ع کی محبت اور مودت ایمان کی نشانی ہے۔ اھل سنت کے بزرگوں نے آل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار کرکے خارجی اور ناصبی ٹولے کو شکست دی ہے کیونکہ ناصبی ٹولے آج بھی بغض اھل بیت کی تبلیغ کرکے اپنے یزیدی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔

انہوں نےکہا کہ شیعہ اور سنی اسلام کے دو بازو ہیں جنہوں نے متحد ہو کر اسلام دشمن سامراجی طاقتوں کو شکست دینی ہے۔انہوں نےکہا کہ ذکر خدا ، یاد خدا اور ذکر مصطفی کی محفلیں ضروری ہیں۔ ہر محلے میں دعائے کمیل کے اجتماعات ہونے چاہئیں کیونکہ دعائے کمیل حضرت خضر نبی ع کی دعا ہے جو مولا علی ؑنے اپنے صاحب معرفت شاگرد حضرت کمیلؓ کو تعلیم دی۔

وحدت نیوز(کوئٹہ ) شیطانی اور سامراجی قوتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ مسلمان اور اسلام کے مقدس خوبصورت اور امن و سلامتی کے تابناک چہرے کو مسخ کرتے ہوئے اسلام کے نام پر دہشتگردی کروا رہے ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما و امام جمعہ کوئٹہ علامہ سید ہاشم موسوی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام امن و سلامتی کا پیغام ہے رسول اللہ خدا ﷺ نے اپنی اخلاق حسن کے ذریعے دین کی تبلیغ کی اور اخلاق کے ذریعے اسلام کو کم مدت میں دور دراز علاقوں تک پھیلادیا لیکن افسوس صد افسوس کے آجکل شیطانی اور سامراجی قوتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ مسلمان اور اسلام کے مقدس خوبصورت اور امن و سلامتی کے تابناک چہرے کو مسخ کرتے ہوئے اسلام کے نام پر دہشتگردی کروا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ چرچ پر حملہ ہو یا مسجد و امام بارگاہ پر مندر ہو یا گرد و ارہ اسلام کسی بے گناہ کے خون ریزی کی اجازت نہیں دینا،یہ تمام سازشیں ہمارے نسل نو کو اسلا م سے بدظن کرنے اور انکے ذہنوں کو سیکولرزم اور لبرزم کی طرف مائل کرنے کی سازش بھی ہے ،لہذاً دشمنان دین کے سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے مسلمانوں کو تحمل صبر اور برداشت سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔مجلس وحدت مسلمین ہر اس اقدام کاساتھ دیگی جو مسلمانوں کے درمیان امن و اتحاد اور آشتی کی بات کرتا ہواور ہر اس فعل سے بیزار ہے جو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے باعث بنتا ہو۔پاکستان میں رہنے والے اقلیتیں پاکستان قانون کے تحت مکمل تحفظ کے حامل ہونا چاہئیے انکے ساتھ کسی بھی ناروا سلوک پاکستان اور اسلام کے قوانین کے منافی ہے ۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیر اہتمام ایم ڈبلیو ایم کے مختلف صوبائی و ضلعی دفاتر میں یوم پاکستان کی تقریبات کا انعقاد ہوا۔جن سے رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے حب الوطنی ،قومی یکجہتی ،رواداری اور پُرامن پاکستان کی ضرورت پر زور دیا۔مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں مرکزی عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ عالمی طاقتیں دہشت گردی کا تعلق اسلام اور پاکستان سے جوڑنے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستانی قوم کو دانش و بصیرت کے ساتھ ایسے عناصر کو شکست دینا ہو گی۔پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور جغرافیائی اعتبار سے بھی بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔پاکستانی قوم کو طبقاتی کشمکش میں الجھا کر دشمن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔باہمی اخوت و اتحاد کے جذبات سے دشمن کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنایاجا سکتا ہے۔ وطن عزیز سے محبت کا جذبہ ہر ایک کے دل میں موجزن ہے جس کا اظہار مختلف ممالک کے مابین کھیلوں کے مقابلوں اور قومی تہواروں کے موقعوں پر نمایاں ہوتا ہے۔کسی بھی قوم کے ان جذبات کو ہی حب الوطنی کا نام دیا جاتا۔مادر وطن سے محبت ہمارے لیے ایک واجب عمل ہے۔اس محبت پر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا تکفیریت ان اسلام دشمن قوتوں کی پیداوار ہے جو اسلام کی روشن تعلیمات کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسلام کے روشن خیال تشخص اور شناخت کو ایسے پیشہ ورقاتلوں کے ذریعے داغدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے کہا آپریشن رد الفساد سے پوری قوم کو بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہی مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے جس کی کامیابی کے لیے بیس کروڑ عوام پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے

وحدت نیوز (کوئٹہ) جنت کے شہزادے اور نواسہ رسول ؐ امام حسین علیہ السلام کی قربانی صرف عالم اسلام کیلئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے ایک عظیم درس ہے۔ کربلاء سے ہمیں ایک ایسا درس ملتا ہے جو انسانیت کی رہنمائی کرتی ہے۔ان خیالات کا اظہار علامہ سید ھاشم موسوی نے کیا۔مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء اورآئمہ جمعہ فارم کے سیکریٹری جنرل علامہ سید ھاشم موسوی کی جانب سے جاری شدہ بیان میں انہوں نے واقعہ کربلاء کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کیلئے حق کا انتخاب کیا اور نسل انسان کی بہتری کیلئے ان کے انبیاء کرام ؑ نے جدو جہد کیں اور بلآخر دین حق یعنی اسلام رسول خدا ؐ کے ذریعے اپنے تکمیل کو پہنچی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے اسلام کو بہترین طرز حیات کے طور پر پسند کیا مگر رسول خدا ؐ کی رحلت کے چند عرصے بعد ہی یزید نے اسلام کو حق سے جدا اور محروم کرنے کی کوشش کی اور سید الشہداء امام حسین ؑ نے اس ظلم کے خلاف قیام کیا ۔ علامہ ھاشم موسوی نے سرزمین کربلاء میں نواسہ رسول ؐ کی عظیم قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امام علیہ السلام نے اپنے سہ ماہ کے علی اصغر ؑ سے لے کر اپنے آپ تک، اپنے پورے خاندان کو دین حق کی بقاء کیلئے قربان کیا یہی وجہ ہے کہ آج آذان، نماز، احکام اورمسلمانوں کی تمام خوبیان اپنی اصل شکل میں برقرار ہیں۔ انہوں نے جلوسوں اور عزاداری کو تاریخ کے سب سے بڑے ظالم یزید کے خلاف احتجاج قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام عالم اسلام کی ذمہ داری ہے کہ اس عظیم قربانی کیلئے امام حسین علیہ السلام کی یاد کو ہمیشہ تازہ رکھیں ۔ امام حسین ؑ کی قربانی اصل میں انسانیت کیلئے ایک آواز ہے جو ضمیر کو دستک دیتی ہے اور جسکے نتیجے میںتمام افراد انسانی اقدار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دین اسلام ہمیں انسانیت سیکھاتی ہے۔ انسان اللہ کے مخلوق ہیں اور اسلام انسانیت کی رہنمائی کرنے والی دین ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقع کربلاء نے ہمیں بے شماد درس دیئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ظالم چاہے جتنی بڑی تعداد میں کیوں نہ ہو اور ظلم اپنے انتہاء کو ہی کیوں نہ پہنچے آخر میں اسے ختم ہی ہونا ہے۔ یزید بھی بڑے لشکر اور دنیاوی دولت کا مالک تھا مگر اسکے باوجود اسے نابودی کا سامنا ہوا اور آج تک مسلسل احتجاج کا سامنا ہو رہا ہے۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) سعودی عرب دنیا میں امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ 60 سے 70 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اڑھائی لاکھ افراد پر مشتمل فوج ہے۔ امریکہ کے 5 ائیر بیس سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جہاں 20000 امریکی سپاہی حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی افواج بھی کثیر تعداد میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ 9 دیگر ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، سوڈان، اردن اور مصر بھی شامل ہیں، جبکہ امریکی افواج انہیں مکمل جاسوسی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اس ’’عظیم ترین لشکر‘‘ نے جن لوگوں پر حملہ کیا ہے، ان کی تعداد محض 20 سے 30 ہزار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تن پر ڈھنگ کا لباس ہے نہ پاؤں میں جوتی۔

 

رپورٹ کے مطابق دنیا میں موجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا، جسے حرمین شریفین اپنی جان سے بڑھ کر عزیز نہ ہو۔ البتہ یہ موضوع ضرور قابل بحث ہے کہ آیا سعودی عرب اور یمنی قبائل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ سے حرمین کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہے یا نہیں؟ یمن حضرت اویس قرنی کا دیس اور عشاق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگری ہے۔ یہاں اسلام کی روشنی خواجہ اویس نے پھیلائی اور اس طرح پھیلائی کہ 99 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ یہ وہ سرزمین ہے جس کے بارے میں روایات ملتی ہیں کہ اس زمین سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یمن کی جانب اشارہ کرکے فرمایا: سنو! ایمان اہل یمن میں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ مزید فرمایا ’’ایمان یمنی ہے، فقہ یمنی ہے، حکمت یمنی ہے۔

‘‘

26 مارچ کو سعودی عرب نے 9 اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر یمن پر حملہ کیا۔ تادم تحریر ان اتحادی ممالک کے حملوں میں یمن کے 2571 سے زائد شہری شہید ہوچکے ہیں۔ جن میں 172 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد دو ہزار سے متجاوز ہے۔ سعودی فرمانروا سے لے کر کسی بھی چھوٹے یا بڑے حکومتی عہدیدار نے یہ خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ خدانخواستہ اس جنگ کے نتیجے میں کعبہ شریف یا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطرے میں ہے۔ آپ کوشش کریں اور گوگل کریں کہ 26 مارچ یمن پر حملہ کرنے کے دن سے آج تک سعودی عرب یا 9 اتحادی ممالک میں کسی ایک ملک میں بھی ’’حفاظت حرمین‘‘ کے حوالے سے کوئی ایک جلسہ ہوا ہو، کوئی جلوس نکلا ہو، کوئی ریلی برآمد ہوئی ہو یا کوئی کانفرنس منعقد ہوئی ہو۔ وہاں کے عوام بہت اچھی طرح یہ جانتے ہیں کہ حرمین کو دور دور تک کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ البتہ پاکستان میں کچھ جماعتوں کے ہاتھ ’’مال کماؤ پروگرام‘‘ آگیا ہے اور وہ حرمین کے مقدس ترین نام پر اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں۔

 

میں حیران رہ گیا کہ اسلام آباد کے ایک پنچ ستارہ ہوٹل میں ’’حفاظت حرمین کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی ہے۔ یہ پیسہ کون دے رہا ہے اور کسے دے رہا ہے، خدا کی ذات بہتر جانتی ہے۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو سعودی عرب دنیا میں امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ 60 سے 70 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اڑھائی لاکھ افراد پر مشتمل فوج ہے۔ امریکہ کے 5 ائیر بیس سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جہاں 20000 امریکی سپاہی حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی افواج بھی کثیر تعداد میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ 9 دیگر ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، سوڈان، اردن اور مصر بھی شامل ہیں، جبکہ امریکی افواج انہیں مکمل جاسوسی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اس ’’عظیم ترین لشکر‘‘ نے جن لوگوں پر حملہ کیا ہے۔ ان کی تعداد محض 20 سے 30 ہزار ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے تن پر ڈھنگ کا لباس ہے نہ پاؤں میں جوتی۔

 

یمن کی آبادی تقریباً 40 فیصد زیدی شیعہ یعنی انصاراللہ اور 60 فیصد سنی افراد پر مشتمل ہے۔ جن میں اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یمنی صدر ہادی کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک میں شیعہ اور سنی دونوں مسلمان شامل ہیں اور ان کے بنیادی مطالبات بدعنوانی کا خاتمہ، پٹرول کی قیمتوں میں کمی اور قومی حکومت کی تشکیل ہے۔ صدر ہادی ملک سے فرار ہوا تو انہی افراد نے حکومت تشکیل دی اور تمام طبقوں کو آئینی حقوق اور آزادی دی۔ سابق صدر علی عبداللہ صالح اور اس کی حامی افواج بھی انصاراللہ کی حمایت کر رہی ہیں۔ البتہ سعودی عرب کو مسلکی حوالوں سے فکر لاحق ہوئی کہ انصاراللہ بھی حزب اللہ کی طرح ایران کا حمایتی گروپ نہ بن جائے۔ اس حوالے سے ایران پر حوثیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ جس کی ایران نے سختی سے تردید کی۔ بالآخر سعودی عرب نے اتحادیوں کی حمایت اور امریکہ کی مشاورت سے یمن پر حملہ کر دیا۔

انصاراللہ اور اس سے منسلک یمنی اتحادیوں کی امن پسندی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان علی الاعلان سعودی عرب کا اتحادی ہے، انہوں نے یمن میں موجود کسی بھی پاکستانی کو نہ صرف گزند نہیں پہنچائی بلکہ ان کی بحفاظت واپسی کو بھی یقینی بنایا اور پرنم آنکھوں سے انہیں وداع کیا۔ کیا یہی پاکستانی طالبان یا داعش کے علاقے میں ہوتے، تو کیا انکی زندہ واپسی کا تصور کیا جاسکتا تھا۔؟ حیرت ہے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان پر جو اس مسئلہ پر اہل یمن کی بجائے سعودی عرب کا شکریہ ادا کر رہے تھے، ’’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔‘‘ پاکستان اس وقت بہت نازک پوزیشن میں ہے۔ افواج پاکستان کو اندرونی و بیرونی دونوں جگہ دشمن کا سامنا ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سات سال بعد پہلی دفعہ افواج پاکستان نے 23 مارچ کو پریڈ کرنے کا ’’رسک‘‘ لیا۔ بہت عرصہ بعد عوام اور افواج دہشت گردوں کے خلاف ایک صفحہ پر موجود ہیں، مگر ابھی تو ابتدا ہے۔

 

فاٹا بدستور دہشتگردوں سے بھرا ہوا ہے، کراچی جل رہا ہے، مساجد امام بارگاہیں، چرچ، سکولز، مارکیٹیں حتؑی کہ آرمی کے مراکز اور پولیس سنٹرز بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سرحدوں کے پار انڈیا جبڑے کھولے کھڑا ہے۔ افغانستان سے ابھی بھی دہشتگرد داخل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں افواج پاکستان کو سعودی عرب بھیجنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کے گھر چور گھسے ہوں اور آپ اپنے چوکیداروں کو ہمسائیہ کی حفاظت کے لئے بھیج دیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے کہ یمن پر حملہ سعودی عرب نے نہیں کیا بلکہ امریکہ نے کروایا ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح صدام سے پہلے ایران پر حملہ کرایا، پھر کویت پر اور اسی کی آڑ میں امریکی افواج ’’حفاظت‘‘ کی غرض سے سعودی عرب میں داخل ہوگئیں۔ اس حملہ کا مقصد دراصل پاکستان کو ایک نئی جنگ میں الجھا کر کمزور کرنا اور پھر مکمل ختم کرنا ہے۔ ہماری مقتدر قوتوں کو اس نازک وقت میں اپنا ملک بچانے کی فکر کرنی چاہیئے۔ جنگیں شروع کرنا اپنے اختیار میں ہوتا ہے مگر ختم اپنی مرضی سے نہیں ہوتیں۔

 


تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعجاز ممنائی

Page 1 of 3

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree