تحریر: سید حسن بخاری



اس میں کوئی شک نہیں کہ آیت اللہ شہید محمد حسین بہشتی عالم تشیع کی ان چند شخصیتوں میں سے ہیں کہ جن کے پاس تنظیمی اور سیاسی امور کی انجام دہی کے لیے افراد کی تربیت کے مختلف پروگرامز اور راہ حل موجود تھے۔ وہ چیز جو شہید بہشتی کو اپنے ہم عصر مفکرین اور دانشوروں سے ممتاز کرتی ہے ان کے پاس اسلامی افکار و نظریات کا مکمل عملی پروگرام ہونا ہے۔ شہید بہشتی صرف سوچ و فکر کی دنیا میں محدود نہیں رہتے تھے بلکہ آپ سیاسی، حکومتی اور اجتماعی میدان کی ضروریات کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔ آپ وقت کی ضروریات کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے اور ایک عملی شخصیت کے مالک تھے۔ شہید بہشتی ایک معتدل، جامع، فہیم اور مستقبل کی فکر کرنے والی شخصیت تھے۔ شہید بہشتی سوچ و فکر کی دنیا کے شہسوار ہونے کے ساتھ ساتھ عملی سیاسی میدان کے بھی شہپر تھے۔ آپ فہم و فراست کی سیاست کی ایک روشن مثال تھے کہ جنہوں نے سخت ترین حالات میں انقلابی اور متدین افرادی قوت کی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کر دیا۔ یہ تبدیلی جہاں ان کی مضبوط سوچ و فکر کی عکاس ہے تو وہیں ان کی مدبرانہ اور فہم و فراست سے بھرپور عملی سیاست کا نتیجہ بھی۔

 

شہید محمد حسین بہشتی کی بہت ساری تقریریں موجود ہیں کہ جن کے ذریعے آپ نے مدبرانہ سیاسی فعالیت کے عملی راہ حل پیش کئے اور انہیں مختلف سیاسی تنظیموں اور انجمنوں تک پہنچایا۔ شہید بہشتی صرف حکومت وقت پر تنقید پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کے نزدیک سب سے مہم مستقبل کے لیے ماہر اور ٹیکنیکل افرادی قوت تیار کرنا تھا۔ مثال کے طور پر آپ کی ایک تقریر جو آپ نے اپنی شہادت سے صرف ایک ہفتہ پہلے کی تھی، میں آپ نے اسلامی تنظیموں اور انجمنوں کے لئے متدین افرادی قوت کی اقلیت کو سیاسی افرادی قوت کی اکثریت میں تبدیل کرنے کے عملی راہ حل پیش کئے۔ شہید بہشتی کی اس تقریر کے اہم نکات میں تنظیمی فعالیت کی اہمیت، کمزور نکات کی نشاندہی اور اپنا محاسبہ، دوسروں سے مضبوط رابطہ، اور افراد کو جذب کرنے کی قوت، نظم و ضبط کی اہمیت، باصلاحیت اور ماہر عہدیداروں کی شناخت، اپنی معلومات اور مطالعہ میں اضافہ، مخالفین سے درست طریقے سے پیش آنا اور مستقبل کے بارے پر امید رہنا شامل ہیں۔ یہ سب نکات یعنی متدین سیاسی افرادی قوت کی تربیت۔ اگر ہم اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کو دیکھیں اور سوچیں کہ کیا ہم متدین تربیت یافتہ سیاسی افرادی قوت تیار کرسکے ہیں یا نہیں؟ تو ہمارا جواب منفی میں ہوگا۔ اس حوالے سے ہماری اصل مشکل افراد کی بجائے راہنماوں کی طرف سے ہے، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں شہید بہشتی کا کردار ادا کرنے والی شخصیت کا خلا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات اور نقصانات بھی اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم بہ عنوان قوم منظم ہوں اور ہمارے پاس تربیت یافتہ سیاسی افرادی قوت موجود ہو۔
 
شہید بہشتی اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں ایک الہی تنظیم کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک الہی تنظیم کسی صورت خود طلب یا ذات محور نہیں ہونی چاہیے۔ شہید بہشتی ایک خود طلب اور ذات محور اور اخلاص کو صرف اپنے اراکین میں دیکھنے والی تنظیم کو شیطانی، خدا کی مخالف اور اسلام مخالف تنظیم سمجھتے تھے۔


آیت اللہ شہید محمد حسین بہشتی کے اسلامی انجمنوں اور تنظیموں کے لئے دس سنہری اصول:
1۔ ایمان
جتنا ایمان مضبوط ہوگا، اتنے ہی کام آسان اور ہم ہدف کے نزدیک تر ہوتے چلے جائیں گے۔ اپنے اندر ایمان کو کبھی کمزور نہ ہونے دینا، ایمان روز بروز مضبوط ہونا چاہیئے۔


2۔ عملی پروگرام
 ایسے عملی پروگرام تشکیل دیں کہ جن میں اسلامی اصول اور مومن و متدین افرادی قوت نمایاں نظر آئے۔ ایسے پروگرام تشکیل دیں کہ جس طرح ہمارے مومن بھائی اور مومنہ بہنیں دینی عمل میں اپنے غیر مسلمان ہم عصر لوگوں سے صالح ہیں، اسی طرح معاشرے کے لیے بھی ان سے زیادہ فائدہ مند ہوں۔ اگر آپ لوگوں کا عمل لوگوں کے لیے فایدہ مند ہوگا تو آپ ہمیشہ کے لئے ان کے دلوں میں زندہ رہیں گے، یہ قرآن کا وعدہ ہے (فاماالزبد فیذھب جفإ و اما ما ینفع الناس فیکمث فی الارض) سب بہہ جانے والا ہے اور وہ جو انسانوں کے لیے فائدہ مند ہے باقی رہے گا۔(رعد ۱۷) لہذا اپنی انفرادی خود سازی اور اجتماعی خود سازی میں اپنی انجمنوں اور تنظیموں کے ایسے پروگرام ترتیب دیں کہ لوگوں کی خدمت کے میدان میں سب سے نمایاں نظر آئیں، مگر یہ کام لوگوں سے تعریف وصول کرنے کے لیے نہ ہو بلکہ خدا کے لئے ہو۔


 
3۔ اپنے رابطوں کو مضبوط بنائیں
جب ایک گروہ اقلیت میں ہو تو اسے کوشش کرنا چاہیے کہ اپنے وسیع اور مضبوط رابطوں سے وہ اپنی افرادی قوت میں اضافہ کریں۔ آپ جتنے زیادہ متحد اور تعداد میں زیادہ ہوں گے، طاقت کا احساس کریں گے۔


4۔ نئے افراد کو جذب کرنا
 ایک مسلمان قوت جاذبہ اور دافعہ دونوں کا حامل ہوتا ہے۔ تنظیمی لوگوں کی قوت جاذبہ بہت زیادہ ہونی چاہیئے۔ تنظیمی لوگوں کا کردار اور گفتار ایسی ہونی چاہیئے کہ اردگرد رہنے والوں کو ایک ایک کر کے اپنی طرف جذب کرے، بلکہ افراد کو اپنی طرف جذب کرنے کا آپ کے پاس پروگرام ہونا چاہیئے۔ کبھی ایسا نہ سوچیں کہ یہ جو ہمارے مخالف ہیں، بس ان کا کام ختم ہوچکا ہے اور اب یہ درست نہیں ہوسکتے، ایسا بالکل نہیں ہے، انسان تبدیل ہوسکتا ہے۔ بہت سارے اچھے اور نیک لوگ لڑکھڑانے لگتے ہیں اور بہت سارے برے افراد تبلیغ اور اچھے برتاو سے اچھے انسان بن جاتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات آپ کو نہیں بھولنا چاہئیں، اسلام کہتا ہے کہ زندگی کے آخری لمحات تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
 
5۔ نظم و ضبط
جو بھی کام انجام دیں وہ تنظیمی نظم و ضبط کے مطابق ہو۔ ہم مسلمان نظم وضبط کو بہت کم اہمیت دیتے ہیں، نظم وضبط کو زیادہ اہمیت دیں مگر فرعونی نظم و ضبط نہیں، کیونکہ بعض اوقات نظم و ضبط طاغوتی ہوجاتا ہے۔ ہمارا نظم و ضبط الٰہی و نورانی ہونا چاہیئے۔


6۔ صلاحیتوں کی شناخت اور نکھار
باصلاحیت افراد کی شناخت جو تنظیم کے کلیدی اور اہم عہدوں کے لئے موزوں ہوں اور قابلیت رکھتے ہوں بہت اہم ہے۔ بعض اوقات ہم ایک بہت متقی اور دین دار فرد کو ایک اہم عہدہ دے دیتے ہیں مگر کیونکہ وہ اس عہدے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہوتا، برا اثر چھوڑتا ہے۔ آپ لوگ اپنے اگلے دس سال کے لیے باصلاحیت افراد کی شناخت کریں اور ان کی صلاحیتوں کو نکھار کر انہیں تیار کریں۔


7۔ اپنی معلومات میں اضافہ کریں
 اسلامی تعلیمات کا بہت مطالعہ کریں، اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل مطالعہ بھی ہونا چاہیئے۔ آپ میں سے ہر ایک کا شرعی وظیفہ ہے کہ ہفتے میں کچھ وقت اپنے شعبے سے متعلق ٹیکنکل مطالعہ ضرور کریں۔ اس مطالعہ سے آپ کی ٹیکنکل صلاحیتوں میں اضافہ ہونا چاہیئے۔


8۔ دشمن اور مخالفین سے درست طریقے سے پیش آنا
 اپنے مخالفین سے درست طریقے سے پیش آنا سیکھیں۔ بعض اوقات ہمارے برادران و خواہران مخالفین کے ساتھ سخت رویی سے پیش آنا چاہتے ہیں اور اپنے طرز عمل سے معاشرے میں خود ہی قصوروار ٹھہرتے ہیں۔ مخالفین سے پیش آنے کا طریقہ درست ہونا چاہیئے ، اپنے مخالفین سے پیش ّآنے کے طریقوں پر مل بیٹھیں، آپس میں بات کریں اور درست طرز عمل کو اپنائیں۔


9۔ اپنے اوپر تنقید
مجھے نہیں معلوم آپ تنظیموں اور انجمنوں کے افراد کبھی آپس میں اکٹھے ہو کر بیٹھتے اور یہ سوچتے ہوں کہ اس ہفتے میں ہمارے کاموں کے نقائص اور عیب کیا تھے۔ اس طرح بیٹھ کر ایک دوسرے کی غلطیوں کے بارے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (المومن مرآت المومن) یعنی مومن مومن کا آینہ ہے، آئینے کا ایک کام یہ ہے کہ وہ انسان کے عیب اسے بتاتا ہے۔ لہذا ہر ہفتے یا پندرہ دن بعد ایک گھنٹہ اکھٹے بیٹھیں، خندہ پیشانی کے ساتھ ہر کوئی اپنے عیب خود بیان کرے، پھر جو رہ جائیں وہ دوسرے بیان کریں، پھر سب کے عیب اور خامیاں بیان کی جائیں۔
 
10۔ مستقبل کے بارے پرامید رہیں
کسی بھی مسلمان کو ناامید ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ مسلمان سراپا امید ہے۔ جو لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ ہیں کہ مشکلات میں مایوس ہو جاتے ہیں۔ ایک مومن کو ہمیشہ پرامید ہونا چاہیئے۔ قرآن اور اسلام کی تعلیمات نے ہمیں کس قدر تاکید کی ہے کہ کوئی چیز پا لینے سے بہت خوش ہوں، نہ کوئی چیز چھن جانے پہ غمگین ہوں، یہ اس لئے ہے کہ اگر ایک دفعہ کوئی مصیبت آپ پر آن پڑے تو فوراً مایوس نہ ہوجائیں اور اگر خدا آپ کو یک نعمت یا کامیابی عطا کرے تو بہت خوش نہ ہوں، ہر دو حالت میں صبر سے کام لیا جائے۔ خدا سے امید ہے کہ اسی طرح امید، ایمان اور نیک اعمال سے اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی تعلیمات کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل ہوں گے۔

 

بشکریہ: اسلام ٹائمز

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree