وحدت نیوز (اسلام آباد) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کی صورت حال پر قرارداد خوش آئند ہے ،اراکین پارلیمنٹ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک و قوم کو ایک سنگین بحران سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیا حکمرانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر ملک وقوم کو اس دلدل میں دھکیلنے کی ٹھان لی تھی،پارلیمنٹ ,پاکستانی قوم اور سیکورٹی فورسسز نے ثابت کیا کہ پاکستان بنانا ریپبلک نہیں، جہاں جس کا دل چاہے جو فیصلہ قوم پر مسلط کرے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری بیان میں کیا ۔

 

انہوں نے کہا کہ حرمین شریفین کو کوئی خطرہ نہیں یمن میں سلامتی کونسل کو بائی پاس کرتے ہوئے سعودی عرب خود حملہ آور ہوا،بارہ دن کی فضائی بمباری کے سبب سینکڑوں بے گناہ مسلمان خواتین بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں،پاکستان ایک اسلامی ایٹمی پاور ملک ہے،ہمیں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کا کردار ادا کرنا چاہیئے،ہم پہلے ہی انہی ممالک کے پالتو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں ،ضرب عضب کی کامیابی ہی پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے، ایسے میں اپنی افواج کو کسی اور کی پراکسی وار کا حصہ بنانا ملک و قوم کے ساتھ ایک گہری سازش ہے،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے پر پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو مبارکباد پیش کی اور اسے ملک و قوم کے لئے ایک نیک شگون قرار دیا۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) پیغمبراعظم حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یگانہ روزگاربیٹی اورقرۃ العین الرسول بعثت کے پانچویں سال اس دنیاميں تشریف لائیں اورخانہ وحی میں اپنے پدربزرگوارکے دامن تربیت میں پروان چڑھیں اورعلم ومعرفت اورکمال کی اعلی منزلیں بھی آپ کے کمال لازوال کے سامنے ھیچ نظرآئيں۔
ہجرت کے دوسرے سال آپ ، امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوئيں۔

 

رسول اسلام کی لخت جگرنے حضرت علی علیہ السلام کے کاشانہ علم ومعرفت میں بحیثیت ایک زوجہ ذمہ داریوں اورفرائض کا اعلی ترین نمونہ پیش کیا اورایک ماں کی حیثیت سے رہتی دنیاتک لئے ایسی لافانی مثال قائم کی کہ ماں کی آغوش سے اولاد کومعراج عطاہونے لگی۔

 

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے کہ جن کا یوم ولادت بھی آج ہی ہے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ اگرکسی دن کویوم نسواں یاپھر روزمادرسے منسوب کرنا ہے تو شہزادی کونین کے یوم ولادت باسعادت سے بہترموقع یا دن اورکون ہوسکتا ہے اسی مناسبت سے آج کے دن اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیاکے مختلف ممالک میں مسلمان یوم نسواں یا روزمادرمناتے ہيں ۔شوہراپنی شریک حیات کی زحمتوں اوراسی طرح اولاد اپنی ماؤں کی شفقتوں اوران کی لازوال محبتوں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کوتحفے اورتحائف پیش کرتے ہيں اوریوں اس مبارک دن کو کوثرولایت کے یوم ولادت کے طورپر ایک خوبصورت معنوی جشن سے معمورکرتے ہيں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اس دن کی مناسبت سے اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم انا اعطیناک الکوثر ۔ فصل لربک وانحر ۔ ان شانئک ھو الابتر

 

بشریت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی احسان مند ہے ، ان کا فیض ، انسانوں سے بھری اس دنیا کے کسی چھوٹے سے گروہ تک ہی محدود نہیں ہے اگر ہم حقیقت پر مبنی اور منطقی نظر سے دیکھیں تو ، ہمیں نظر آئے گا کہ پوری انسانیت پر ان کا احسان ہے یہ کوئی مبالغہ نہيں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ جس طرح سے انسانیت پر اسلام ، قرآن ، انبیائے خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات کا احسان ہے ۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے ۔ آج بھی ایسی ہی صورت حال ہے اور روز بروز اسلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی معنویت کا نور زيادہ واضح ہوتا جائے گا اور بشریت اسے زیادہ واضح طور پر محسوس کرے گی ۔
ہمیں خود کو پیغمبر اعظم کے خاندان سے منسوب ہونے کے لائق بنانا چاہئے۔

 

ہمارا فرض یہ ہے کہ خود کو اس خاندان سے منسوب کرنے کے لائق بنائيں ۔ البتہ خاندان رسالت ، ان کے اعزاء اور ان کی ولایت میں معروف لوگوں سے منسوب ہونا بہت مشکل کام ہے ۔ زیارت میں ہم پڑھتے ہیں کہ ہم ، آپ کی محبت اور دوستی میں مشہور ہیں ۔ اس سے ہمارا فرض اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے ۔ یہ خیر کثیر ، جس کی خوش خبری خدا وند عالم نے سورہ کوثر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دی اور کہا ہے ، انا اعطیناک الکوثر ، ہم نے تمہیں خیر کثیر عطا کیا تو اس کی تفسیر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں ۔ در اصل وہ ان تمام خیروں و بھلائی کا سرچشمہ ہیں جو روز بہ بروز دین محمدی کے آبشاروں سے ، تمام انسانیت اور تمام خلق خدا کو نصیب ہوتی ہے ۔ بہت سے لوگوں سے اسے چھپانے اور اس سے انکار کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو پائے ، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون ، اور اللہ تو اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے بھلے ہی کافروں کو برا لگے ، ہمیں خود کو نور کے اس منبع سے قریب کرنا چاہئے ۔ اور نور کے مرکز سے قربت کا لازمہ اور نتیجہ ، نورانی ہونا ہے ۔ ہمیں عمل کے ذریعے ، خالی محبت کے ذریعے ہی نہيں ، نورانی ہونا چاہئے ۔ یہ وہ کام ہے جس کی تاکید ہماری محبت ، ولایت اور ایمان کرتا ہے اور ہم سے اس کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس کام سے ہمیں اس خاندان کا حصہ اور اس سے منسوب ہونا چاہئے ۔ ایسا نہيں ہے کہ علی کے گھر کا قنبر بننا آسان کام ہے ، ایسا نہيں ہے کہ سلمان منا اھل البیت کے منزل تک پہنچنا آسان ہے ، ہم اہل بیت کے پیروکار اور ان سے محبت کرنے والے ، ان سے یہ توقع رکھتے ہيں کہ وہ ہمیں اپنوں میں اور اپنی چوکھٹ پر بیٹھنے والوں میں شمار کریں ، وہ کہیں کہ فلاں ہماری درگاہ کے خاک نشینوں میں سے ہے ۔ ہمارا دل چاہتا ہے کہ اہل بیت ہمارے بارے میں ایسا سوچیں ، لیکن یہ کوئی آسان بات نہيں ہے ۔ یہ صرف دعوا کرنے سے ملنے والی چیز نہيں ہے ۔ اس کے لئے ، عمل ، قربانی و ایثار اور ان کے اتباع کی ضرورت ہے ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے بڑی مختصر عمر میں بہت سے فضائل حاصل کئے ؟ کس عمر میں ان فضیلتوں کو حاصل کیا ؟ کس عمر میں اتنے عظمتوں تک پہنچ گئیں ؟ بہت چھوٹی عمر میں ، اٹھارہ برس ، بیس برے ، پچیس برس ، روایتیں مختلف ہيں ۔ یہ ساری فضیلتیں یونہی حاصل نہیں ہوتیں ، امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرہ ، خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کا امتحان لیا ، خداوند عالم کا نظام ، حساب کتاب کے ساتھ ہے ۔ جو کچھ عطا کرتا ہے حساب سے عطا کرتا ہے ۔ اسے اپنی اس خاص کنیز کی قربانیوں و معرفت کا بخوبی علم ہے اسے لئے اس نے انہيں اپنی برکتوں کے سرچشمے سے جوڑ دیا۔

 

عمل میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیروکار ہونا چاہئے ، ہمیں اسی راستے پر آگے بڑھنا چاہئے ، چشم پوشی کرنا چاہئے ، قربانی دینا چاہئے ، خدا کی اطاعت کرنی چاہئے ، عبادت کرنی چاہئے ۔ کیا ہم نہيں کہتے کہ انہوں نے اتنی عبادت کی کہ ان کے پیروں میں ورم آ گیا ، اتنی عبادت ! ہمیں بھی خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔ ہمیں بھی خدا کے ذکر کرنا چاہئے ۔ ہمیں بھی اپنے دلوں میں روز بروز خدا کی محبت میں اضافہ کرنا چاہئے کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ نقاہت کے عالم میں مسجد گئيں تاکہ اپنا حق واپس لے سکیں ؟ ہمیں بھی ہر حالت میں حق کی واپسی کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔ ہمیں بھی کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے ، کیا ہم یہ کہتے کہ وہ ، تن تنہا اپنے زمانے کے اس بڑے سماج کے سامنے کھڑی ہو گئيں ؟ ہمیں انہی کی طرح جیسا کہ ان کے شوہر نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ ہدایت کے لئے ساتھیوں کی کم تعداد سے نہيں ڈرتی تھیں ہمیں بھی اپنی کم تعداد کی وجہ سے ظلم و سامراج سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے ، کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے ایسا کام کیا کہ ان کے اور ان کے شوہر اور بچوں کے بارے میں سورہ دہر نازل ہوا ؟ غریبوں کے لئے قربانی و ایثار ، بھوکی رہ کر ؟ و یوثرون علی انفسھم ولو کان بہم خصاصہ ، ہمیں بھی یہی کرنا چاہئے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت کا دم بھريں ، ان کی محبت کا دم بھریں جنہوں نے بھوکے کا پیٹ بھرنے کے لئے ، اپنے چہیتوں ، حسن و حسین اور ان کے والد کے ہاتھوں سے لقمہ لے کر فقیر کو دے دیا ، ایک دن نہيں ، دو دن نہیں ، تین دن ! کیا ہم نہيں کہتے کہ ہم ایسی شخصیت کے پیروکار ہيں ؟ لیکن ہم نہ صرف یہ کہ اپنا لقمہ کسی حاحت مند کو نہيں دیتے ، بلکہ اگر ہمارا بس چلے تو کسی غریب کا لقمہ بھی چھین لیں ! یہ کافی اور دیگر کتابوں میں جو روایت ہے شیعوں کی علامتوں کے بارے میں ، اس کا مطلب یہی ہے ۔ یعنی شیعہ کو ایسا ہی کرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنی زندگی میں ان کی زندگی کی جھلک لانی چاہئے بھلے یہ جھلک بہت ہی ہلکی ہی کیوں نہ ہو ۔ ہم کہاں اور بزرگ شخصیتیں کہاں ؟ ہم کہاں اور وہ بارگاہ کہاں ؟ ظاہر ہے ہم تو ان کے مقام کے قریب پھٹکنے کی سوچ بھی نہيں سکتے لیکن ہمیں خود کو ان کے جیسا ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ہم ان اہل بیت کی زندگی کی مخالف سمت میں تو نہيں بڑھ سکتے وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ ہم تو اہل بیت کے چاہنے والے ہيں ۔ کیا یہ ہو سکتا ہے ؟ مثال کے طور پر کوئي امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے زمانے میں ، اس قوم کے دشمنوں میں سے کہ جن کے بارے میں امام خمینی ( رح) ہمیشہ گفتگو کیا کرتے تھے ، کسی کا اتباع کرتا ، تو کیا وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ امام خمینی کا پیروکار ہے ؟ اگر کوئي ایسی بات کرتا تو کیا آپ لوگ ہنستے نہیں؟ یہی صورت حال اہل بیت کے معاملے میں ہے ۔

 

عیش و عشرت کے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیروکارنہيں بنا جا سکتا ہمیں اپنی اہلیت و صلاحیت کو ثابت کرنا ہوگا ۔ کیا ہم نہيں کہتے کہ ان کا جہیز ایسی چیزیں تھیں جن کا نام سن کر آدمی کی آنکھیں برس پڑتی ہيں ؟ کیا ہم یہ نہيں کہتے کہ وہ دینا اور دنیا کی خوبصورتیوں میں کوئی دلچسپی نہيں رکھتی تھیں ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم دن بہ دن اپنے سامان عیش و عشرت اور تڑک بھڑک میں اضافہ کرتے جائيں ، ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے ۔


تحریر.........اعجاز ممنائی

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا فیصلہ قومی امنگوں کا ترجمان ہے، فوج نہ بھیجنے کے فیصلے کی مکمل حمایت کرتے ہیں، ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فوج کو سعودی عرب کی درخواست پر بھیج کر متنازعہ نہ بنایا جائے، یمن کا معاملہ سیاسی ہے جسے چند عناصر نے فرقہ وارنہ بنانے کی کوشش کی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایس یو سی کے زیراہتمام علماء اسلام کانفرنس سے خطاب میں کیا۔ علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ تمام مسالک کو اپنی صفوں سے تکفیری عناصر کو نکالنا چاہیے اور ان سے علحیدگی کا اعلان کرنا چاہیے، تمام مدارس میں مشترکہ نصاب پڑھایا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں ایسے اقدامات ہونے چاہیں کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء ایک دوسرے کے مدارس میں آسکیں اور درس دے سکیں گے، اس عمل سے عملی وحدت کا مظاہرہ ہوگا جس سے تکفیریت تنہا ہوگی اور فرقہ وارنہ ہم آہنگی میں بھی اضافہ ہوگا۔ علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ مسالک کے درمیان علمی اختلافات ہیں جن کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے علمی اختلاف کو فرقہ واریت کا رنگ نہیں دینا چاہیے، علامہ امین شہیدی نے تجویز دی کہ ایسا مشترکہ نصاب تشکیل دینا چاہیے جو تمام مکاتب فکر کو قبول ہو۔

وحدت نیوز (اسلا م آباد) حکمران فرض شناس پولیس آفیسر محمد علی نیکوکار کو برطرف کرکے پولیس محکمہ پر اپناتسلط قائم کرنا چاہتے ہیں،محمد علی نیکوکار کا جرم پرامن عوام پر شب خون نہ مارنا ہے،پنجاب پولیس کو شریف فیملی کا غلام نہیں بننے دینگے،سیاست دانوں نے اس اہم اور مقدس ادارے کو سیاسی مفادات کی خاطر متنازعہ بنا دیا ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کیا،انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کی یہ روش برقرار رہی تو ملک جنگل بن جائے گا،لا اینڈ فورسسز کے اداروں کو سیاست سے دور رکھنا چاہیئے،سانحہ ماڈل ٹاوُن جیسے واقعات پولیس پر سیاسی اشرافیہ کے تسلط کا نتیجہ ہیں،ہمیں اگر معاشرے سے جرائم ،انتہا پسندی کا خاتمہ مقصود ہو تو ان اداروں کو خودمختار بنانا ہوگا،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایس ایس پی اسلام آبادمحمد علی نیکو کار کی برطرفی کی مذمت کرتے ہوئے اسے نام نہاد جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ قرار دیا۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین ضلع ملیر کے وفدنےسیکریٹری جنرل سید احسن عباس رضوی کی سربراہی میں ایک وفد نے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق مشیر وزیراعلیٰ سندھ سلمان عبداللہ مراد سے ان کے دفتر میں ملاقات کی، اس موقع پر ایم ڈبلیوایم کے ضلعی رہنما حسن عباس، سعید رضااور عارف زیدی سمیت پی پی پی کے رہنما ڈاکٹر واجد عابدی بھی موجودتھے،جعفرطیار سوسائٹی کیلئے میٹھے پانی کی فراہمی کے منصوبے پر کام کے آغازپر ایم ڈبلیوایم کے سیکریٹری جنرل احسن عباس رضوی نے سلمان مراد کا شکریہ اداکیا، ان کاکہنا تھا کہ عوام کی خدمت اور ان کی مشکلات کا حل سیاسی ورکرکا فرض اولین ہونا چاہئے، سیاست کا اصل مطلب ہی خدمت ہے، واٹر سپلائی پروجیکٹ عوامی کی مشکلات کے حل میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا، پی پی پی اور ایم ڈبلیوایم کی اشتراک عمل اور انتھک محنت سے اس دیرینہ مسئلے کا حل یقینی بنا ہے، اس موقع پر سلمان عبداللہ مرادکا کہنا تھاکہ میٹھا پانی  جعفرطیارسوسائٹی کے عوام کاحق تھا جو پیپلز پارٹی نے انہیں دیا ہے، ہماری جماعت ہمیشہ عوامی مسائل کے حل میں کوشاں رہی ہے، البتہ جعفرطیار واٹر سپلائی پروجیکٹ میں ایم ڈبلیوایم کا تعاون بھی ناقابل فراموش ہے، انشاءاللہ عوامی فلاح کا یہ سفر جاری رہے گا، جلد ہی سیوریج کے نئےمنصوبے پربھی کام کا آغاز کریں گے،انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات نزدیک ہیں ہمیں مل کر انتخابات کی تیاری کرنی ہے ،مختلف حلقوں سے ہم مل کر الیکشن لڑیں گے۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی کا کہنا ہے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں، یمن پر ہونے والی بمباری کے نتیجے میں معصوم شہری قتل ہو رہے ہیں، جس پر بے حد افسوس ہے۔ یمن کی قسمت کا فیصلہ یمنی عوام کو کرنے دیا جائے، مسئلہ کے پرامن حل کے لئے پاکستان اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر محمد اکبر اخروٹی اور مولانا منظور حسین لاشاری بھی ان کے ہمراہ تھے۔ علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ پاکستان مسئلہ یمن میں فریق بننے کی بجائے ثالث بنے۔ سابق آمر جنرل ضیاء الحق نے افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی اس کے باعث آج پورا ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ موجودہ حکومت ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے یمن جنگ کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ کیونکہ یمن جنگ کا نقصان امت مسلمہ کو جبکہ فائدہ امریکہ اور اسرائیل کو ہوگا۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے یمن کے عوام پر فضائی بمباری قابل مذمت ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت ہمارا ملک دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور ہمارے فوجی جوان اپنی قربانیاں دے رہے ہیں، ان حالات میں ایک نیا محاذ کھولنا غیر دانشمندانہ عمل ہوگا۔ مکہ معظمہ اور مدینة النبی (ص) ہمارے عشق و مودت کا مرکز ہیں، جن سے محبت ہمارے ایمان کا تقاضا ہے، ان کے تحفظ کے لئے ہر مسلمان اپنا سب کچھ نچھاور کر سکتا ہے۔ مگر یمن کے مظلوم مسلمان حرمین شریفین سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree