وحدت نیوز (لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا ہے کہ لاہور میں اربوں روپے کا ٹرین منصوبہ شروع کرنے سے پہلے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں 'پنجاب میں 80فصد پانی پینے کے قابل نہیں،ناقص پانی کے استعمال سے ہیپاٹائٹس سمیت دیگر امراض میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اس لیے سب سے پہلے عوام کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے'پنجاب حکو مت کی ناکام سکیمیں خزانے پر بوجھ بن چکیں ہیں ۔ جمعرات کو اپنے دفتر میں مختلف وفود سے گفتگو میں مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے کہا کہ حکومت ہسپتالوں میں مریضوں کو مفت علاج معالجہ کیلئے ادویات کی فراہمی یقینی بنائے'کیونکہ ہسپتالوں میں ادویات نہ ہونے سے غریب اور مستحق مریض مفت علاج معالجہ کی سہولیات سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکمران قومی خزانے کو سیاسی مشہوری کیلئے استعمال کر نے کی بجائے عوام کی تر قی وخوشحالی کیلئے استعمال کر یں مگر بد قسمتی سے (ن) لیگ قیادت کی پنجاب سمیت پورے ملک میں کوئی ایسی سکیم نہیں جس سے عام آدمی کو فائدہ ہو رہا ہے بلکہ تمام سکیمیں خزانے پر بوجھ بن چکیں ہیں ۔

وحدت نیوز (خیرپور) شہداء کمیٹی کے چیئرمین اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی معاون سیکرٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے ضلع خیر پور میرس کا دورہ کیا، اس موقع پر ضلعی سیکرٹری جنرل منور جعفری اور ضلعی سیکرٹری سیاسیات فقیر خیر محمد خوشدل بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے کمنب میں شہید ارشاد حسین گوپانگ کے چہلم کے اجتماع سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایچ او کنمب کے ہاتھوں دیندار نوجوان ارشاد حسین کا قتل افسوس ناک واقعہ ہے، انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے متعصب اور نااہل ایس ایچ او کنمب کو ہٹایا جائے اور اس ناحق قتل میں ملوث مجرموں کو عبرتناک سزا دی جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایماندار افسران سے اس قتل کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرائی جائے۔ انہوں نے عدالت کی جانب سے ایس ایچ او کی برطرفی اور اس کے خلاف مقدمہ قتل کے اندراج کے حکم کو قابل تحسین قرار دیا، انہوں نے کہا کہ آل سعود نے امت مسلمہ پر جو مظالم ڈھائے ہیں، یمن اس کی تازہ مثال ہے۔ زائرین خانہ خدا پر گولیاں چلا کر چار سو حاجیوں کو قتل کرنے والے سعودی حکمرانوں کو خادم حرمین شریفین کی بجائے خائن حرمین کہنا چاہئے۔ دنیا بھر میں دہشت گردوں کی سرپرستی، مصر میں منتخب حکومت کو برطرف کرکے فوجی آمر کی حمایت، امریکہ اور اسرائیل کی غلامی آل سعود کے سیاہ کارنامے ہیں۔ یمن پر جارحیت نے آل سعود کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) خداوند متعال کی ذات جب چاہتی ہے کہ ظالمین اور متکبرین کی ناک زمین پر رگڑے تو وہ ذات ابابیل کے ذریعے وقت کے ابراہہ کو ذلیل و رسوا کرا دیتی ہے۔ اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنا دیتی ہے جیسا کہ تاریخ میں مختلف ادوار کے  فرعون و نمرود کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔ آج بھی خدا نے ایک بار پھر مظلومین جہان کو فرعونوں کے مقابلے میں عزت و سرفرازی عطا کی ہے کہ جب سعودیہ نے خود جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے یمن کی تعمیر کے لئے کثیر رقم دینے کا معاہد کیا۔ اور خدائے ذوالجلال نے وقت کے متکبر و ظالم عرب شہنشاہوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاکر ان کے لئے ذلت و رسوائی کا نہ ختم ہونے والا باب کھول دیا۔ اور وہ ذلت کہ جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا

 " کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا ۔ کیا اس نے ان کی چال کو بے مقصد نہیں بنا دیا"۔ (القرآن)

کیا سعودیہ اپنے اہداف میں کامیاب ہو گیا؟؟؟
 سعودی عرب جو کہ ابراہہ بن کر یمن کی مظلوم عوام پر جارحیت کرنے لگا تھا اور تقریبا ایک مہینہ تک چلنے والی اس جارحیت سے سعودی عرب اپنے کسی بھی مقصد کو حاصل نہیں کر سکا۔ سعودی اہداف میں سے چند ایک ہدف یہ ہیں۔
(1 )۔ سب سے بڑا ہدف حوثیوں کو جنوبی یمن سے یعنی صعدہ اور تعز تک مہدود کرنا تھا اور حوثیوں کو سعودی بارڈر کے قریبی علاقہ جات سے بے دخل کرنا تھا۔ اتنے دن کی بمباری سے نہ فقط سعودیہ اپنے اس ہدف میں ناکام ہوا بلکہ اس حوثی عدن صنعا سمیت پورے یمن میں انصاراللہ کی شکل میں پھیل چکے ہیں اور پورا یمن خود کو انصاراللہ کا سپاہی کہتا نظر آتا ہے۔
(2)۔ اور دوسرا بڑا ہدف اپنے پٹھو یمنی معزول صدر منصور ہادی کو یمن واپس بھیجنا تھا۔ اس ہدف میں بھی مکمل طور پر سعودی عرب کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ اور صورتحال اس نہج پر پہنچ گئ ہے کہ اس جارحیت سے پہلے تو منصور ہادی کے شاید پھر بھی کچھ امکانات باقی تھے لیکن اس بربریت کے بعد یمنی عوام اس کے قتل کے درپے ہو چکے ہیں۔


جنگ بندی کیسے ہوئی؟؟؟
سعودی عرب کی جنگ بندی کا فیصلہ کوئی اچانک فیصلہ نہیں ہوا اور نہ ہی اپنے اہداف کے حصول کے بعد ہوا بلکہ آل سعود اپنی ذلت و پسپائی کو چھپانے کے لئے سکیورٹی کونسل کی قرارداد کا سہارا لے رہے ہیں۔ چند اہم ترین وجوہات کی وجہ سے یہ جنگ بندی ہوئی جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔


(1)۔  یہ جنگ بندی روس کی جانب سے سعودیہ کو دے جانے والے دھمکی آمیز بیان اور سیکوریٹی کونسل میں ایک نئی مسودہ راہ حل پیش کرنے کے فورا بعد ہوئی۔
(2)۔ کچھ دن قبل ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے یمن کے امن کے لئے ایک پلان دیا اور ایک مسودے سکیورٹی کونسل کے اندر پیش کیا گیا اور اس کے بعد روس نے جو مسودہ پیش کیا وہ بعین ہی اسی ایرانی مسودے کی طرز پر تھا ۔ روس نے واشگاف الفاظ میں ریاض سے کہا کہ مزید بمباری کے نتائج خود ریاض کو سنگین بھگتنے پڑیں گے۔
(3)۔ امریکی جنگی بیڑوں کا یمنی بحری سرحدوں کا بڑھنا سعودی عرب کو مزید طاقت دینے کے لئے ایک سگنل تھا لیکن اس کے نتیجے میں ایران نے اپنے جنگی بیڑوں کو یمن کی آبی سرحد پر جمع کرنا شروع کر دیا ۔ اگر امریکی بحریہ کسی طرح کا کوئی ایکشن لیتی تو خطے کے اندر ایک نہ ختم ہونے جنگ شروع ہو جاتی۔ اسی لئے پانچ دن قبل ریاض نے تہران کو پیغام بھیجا کہ ہم جنگ بندی چاہتے ہیں مزید آبی بیڑوں کو یمنی سرحد پر جمع نہ کیا جائے۔ اور اس بات کا اعتراف سعودی جولین اسانج نے دو دن قبل کیا تھا کہ خاندان سعود جنگ بندی کے بارے کشمکش کے شکار ہین وہ جنگ بندی کو اپنے ذلت و رسوائی سمجتھے ہیں۔


کامیابی کس کا مقدر بنی؟؟؟
اللہ تبارک و تعالی نے مظلومین جہان کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں اس سرزمین کا حکمران بنائے گا اور ظالمین و مستکبرین کو ذلیل و رسوا کرے گا۔ خدا کا یہ وعدہ آج پوری قوت کے ساتھ پورا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ آج پوری دنیا میں مظلومین اپنے حقوق کی جنگ میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب کی اس جارحیت میں بھی کامیابی یمنی عوام کا ہی مقدر بنی ہے کہ جن کی استقامت و شجاعت کی وجہ سے سعودیہ مجبور ہو کر جنگ بندی کر رہا ہے۔ یعنی اگر یوں کہا جائے کہ ظلم پر استقامت کو فتح حاصل ہوئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ عرب میڈیا جو کل تک سعودی حامی تھا اب سعودیہ پر ہی برس رہا ہے۔ عرب میڈیا پر اس وقت چلنے والی خبریں یہ ہیں کہ سعودیہ امریکیوں کے جال میں پھنس گیا ہے اورخادمین حرمین دنیائے اسلام کے اندر بدنام ورسوا ہو گئے۔


انصاراللہ کو حاصل ہونے والی کامیابیاں؟؟؟
سعودی مخالف جنگ میں انصاراللہ کو جو کامیابیاں نصیب ہوئیں ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
(1)۔ یمنی عوام میں اس وقت انصاراللہ ایک بہت بڑی سیاسی و عسکری طاقت کے طور پر متعارف ہوئی ہے۔
(2)۔ آنے والے دور میں انصاراللہ کا کردار نہ فقط یمن کے مستقبل کے لئے اہم ہوگا بلکہ اس پورے خطے میں انصاراللہ کا کردار کا اہم ترین ہے۔
(3)۔ سعودی عرب و اتحادیوں کے لئے انصاراللہ اس خطے کے اندر ایک نئی حزب اللہ کے طور پر ثابت ہوگی۔ خاص طور پر امریکہ و اسرائیل کو اب خطے میں اپنے نفوذ کو سب سے بڑا خطرہ انصاراللہ سے ہوگا کیونکہ انصارللہ کی طاقت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اور عوامی پزیرائی میں خاطر خواہ اضافہ کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر مظبوط ہوئے۔


سعودیہ اب ناکامی کو کیسے چھپائے؟؟؟
آل سعود کہ جو پورے عالم اسلام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں اور حکمرانی کے خواب دیکھتے ہیں اس وسیع پسندانہ عزائم کی خاطر یمن پر حملہ کیا گیا لیکن ناکامی کا سامنہ ہوا اب اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے یمنیوں سے معاہدہ کر رہے کہ وہ جشن فتح نہ منائیں اور سعودی عرب اس کے بدلے میں اک کثیر رقم یمن تعمیراتی کاموں کے ضمن میں دے گا۔ اور اس رقم دینے کا مقصد یمنی عوام کی نفرت کو کم کرنا ہے۔ اور اب سعودیہ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے انہی یمنیوں کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہے۔
عرب تجزیہ نگاروں کے تجزیے۔۔۔


عرب میڈیا کےچند تجزیہ نگاروں نے جنگ بندی پر کچھ اس طرح سے تجزیات کیے ہیں۔


(1)۔ اس جنگ میں ایک بار پھر ایران بازی لے گیا ہے کہ جس کی کوشش سے جنگ بندی ہوئی ہے۔
(2)۔  ایک عرب تجزیہ نگار نے یہ بھی کہا کہ اگلی کسی بھی جارحیت کے مقابلے میں انصاراللہ کے میزائل ریاض پر ایسے گرینگے جیسے حزب اللہ کے اسرائیل پر گرتے ہیں۔
(3)۔  اس بمباری سے سعودی عرب نے اپنے دم میں ایک ایسی آگ لگا دی ہے جسے خود بجھا نہیں سکتا۔
(4)۔ ایک اور عرب تجزیہ نگار نے یہ بھی کہا کہ اب یمن کے اندرونی معاملات میں روس بھی شامل ہو گیا ہے کہ جس کا سب سے بڑا نقصان امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کو بھی ہوگا۔
(5)۔  سارے انٹرنیشنل کھلاڑی اب یمن میں ہو گئے ہیں اس کا نقصان سعودی عرب کو بھی ہوگا کیونکہ یہ سب کچھ سعودیہ کے دروازے پر ہو رہا ہو گا۔


پاکستان میں سعودی نمک خواروں کی رسوائی۔
پاکستان کے اندر دفاع حرمین کا منجن بیچنے والے سعودی ریالوں پر پلنے نمک خواروں کے لئے اب منہ چھپانے کے لئے جگہ نہیں ملے گی۔ کیونکہ اب کے باپ کی ذلت سے پاکستان کے اندر تکفیریت و سلفیت کو پروان چڑھانے والوں کے لئے بھی ذلت و رسوائی ہی ہے۔ وہ لوگ جو سعودی اتحاد میں شمولیت کی بات کرتے تھے اور آل سعود کی جنگ کو حرمین کی جنگ قرار دے کر یمنیوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں اب ان کا دائرہ اور تنگ ہوگا اور ملت پاکستان کہ جن کے شعور کی وجہ سے پارلیمنٹ میں ان کے عزائم کے خلاف قرارداد پیش ہوئی اب وہ قوم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اور انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب پاکستان سے سعودی عرب اپنا بستر بوریا گول کرے گا اور اپنے ساتھ اپنی ہی بوئی فصل تکفیریت کو بھی ساتھ لے جائے گا۔

 


تحریر۔۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی

 

وحدت نیوز (آرٹیکل) یمن پر سعودیہ کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ جاری مسلسل جارحیت میں جو اہداف وہ حاصل کرنا چاہتے تھے شاید ان میں زیرو پیمانے تک بھی کامیاب نہیں ہوسکے نہ تو وہ مفرور سابق صدر کو ریاض سے واپس اب تک یمن بھیج سکے اور نہ ہی حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں سے ایک انچ واپس لینے میں کامیاب ہو سکے۔ سوائے اس کے سعودی جارحیت سے مکانات، اور شاہراہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جس سے حوثی کمزور نہیں ہونگے۔ سعودی عرب نے بہت کوشش کی کہ ان کے ساتھ پاکستان مل کر اس جنگ میں حصہ لے کیونکہ افواج پاکستان دنیا کی ماہر ترین افواج میں شمار ہوتی ہیں اور ہر وقت طرح کے ماحول اور حالات میں لڑنا جانتی ہیں لیکن الحمدللہ پاکستانی قوم کے شعور و بیداری نے حکمرانوں کو افغانستان والا پرانا تجربہ دہرانے نہیں دیا اور ہم ایک پرائی جنگ میں اپنے آپ کو ذلیل کرنے سے بچ گئے۔ پھر آل سعود کی طرف سے حرمین شریفین کا منجن بیچا گیا کہ یمنیوں کی طرف سے حرم کو خطرہ ہے۔ جب کہ یہی وہابی و سلفی ذہنیت کے سعودی حکمران ماضی میں خود حرم خدا پر حملہ کر چکے ہیں اور کئی صحابہ کرام کی قبور کو مسمار کر چکے ہیں ۔ اور سعودیہ نے اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے ہمیشہ سے ہی حرم خدا کا سہارا لیا ہے اور جھوٹے پروپیگنڈہ کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین پر چڑھائی کی ہے۔ لیکن الحمداللہ دنیا جانتی ہے کہ حوثی مسلمان ہیں اور ان کے لئے کعبۃاللہ حرمت رکھتا ہے اور وہ اس بارے سوچ بھی نہیں سکتے اور انصاراللہ کے رہنمائوں نے بارحا اس بات کا تذکرہ بھی کیا ۔ اور مختلف سیاسی و مذہبی شخصیات کی طرف سے اس بات کی تردید کی گئ کہ اپنے مقاصد کے لئے لڑی جانے والی سیاسی جنگ کو مذہبی و حرمتی جنگ قرار نہ دیا جائے۔ اور بحمداللہ پاکستانی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی قرار داد بھی اسی موقف کا عکاسی کرتی ہے۔


جب سعودیہ ہر طرف سے ناامید ہو کے اپنے آپ کو اس جنگ میں پھنستا ہوا دیکھتا ہے تو اس وقت مصالحت کی راہ نکالنے کے لئے مختلف کوششسیں کر رہا ہے جیسا کہ پاکستان و ترکی کی طرف سے دونوں فریقین کو مزاکرات کی میز پر لانے کا موقف سامنے آیا ہے جب کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت کے دونوں ملکوں کے حکمرانوں سعودیہ کے احسانوں تلے دبے ہوئے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ دراصل یہ سعودی خواہش ہے جس کا اظہار یہ ممالک کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کافی سارے ثبوت ہیں جن میں سعودی عرب کی مسلسل کوشش ہے کہ جنگ بندی ہو اور آل سعود کی جعلی عزت و ناموس بھی بچ جائے۔
سعودی عرب كے معروف ٹویٹر اكاونٹ نے ٹویٹ كيا ہے كہ سعوديہ سياسی راه حل نكالنے كے لئے يمنی تحريک انصار الله سے خفيہ رابطے كر رہا ہے.


اور يہ معاہدہ سعودیہ كو حوثيوں كے بڑے دفاعی حملے سے بچائے گا جس كو سعودی افواج روکنے کی طاقت نہیں رکھتی ہیں خصوصا جب پاكستان نے مدد كرنے سے انكار كر ديا ہے.سعوديہ كی  پالیسی ميں يہ لچک اس لئے آئی ہے جب خصوصا اس وقت جب فضائی حملوں كو طويل عرصہ گزرنے كے بعد بهی حوثی مسلسل مختلف علاقوں پر قابض ہو رہے ہیں. اور اب ثابت ہوا كہ فقط القاعدة ہی انكا مقابلہ كر سكتي ہے.
امريكہ كے ساتھ  ملكر اب كوششيں جاری ہیں كہ يمن ميں مصالحت كے لئے اقوام متحدہ  كی سلامتی كونسل كی قرارداد پاس كروا لي جائے.
المجتہد نامی سعودی شخص نے ٹویٹ كيا ہے كہ سعوديہ سلطنت عمان كے ذريعے حوثيوں سے خفيہ رابطوں میں ہے اور سياسي حل نکالنے كي كوشش كر رہا ہے۔ جس ميں حوثيوں کے سیاسی مفادات محفوظ ہونگے  ليكن وه اپنے آپ كو فاتح ظاہر نہیں كریں گے.مجتہد کے مطابق ايک يمن كی صدارتی كونسل تشكيل دی جائے گی اور اسكا سربراه وه شخص ہو گا جس كو انصار الله قبول كرے گی. اور حوثيوں كی اس كونسل ميں نمائندگی ہو گی اور جن علاقوں پر حوثی قابض آ چکے ہیں وہاں كے انتظامی امور سنبهالنے میں بهی شريک ہونگے. اور صدارتی كونسل كی سربراہی كے لئے بحاح كا نام سعوديہ عرب نے انصار الله كے لئے حسن نيت كے طور پر پيش كيا ہے كيونكہ ابتدائي مراحل ميں صنعاء ميں داخل ہونے کے بعد یہی بحاح انصار الله كا اميدوار تها.سعودی عرب نے بحاح كی سربراہی ميں  ملكي امور چلانے كے لئے صدارتی كونسل ميں انصار الله كی نمائندگی كو قبول كر ليا ہے. اور شمالى علاقوں میں انكے مكمل عسكری وجود كو بهی قبول كر ليا ہے.
مجتهد نے اس بات سے بھی پرده اٹهايا كہ جنوبی ڈویژنز ميں بھی شہروں كے باہر انصار الله كے عسكری وجود كو سعوديہ نے قبول كيا ہے. البتہ حوثيوں كا اصرار ہے كہ جيسے اس وقت انكا عسكری وجود جہاں جہاں پر ہے بعد میں بھی ویسا ہی رہے گا۔
تاوان كے طور پر سعوديہ يمن كوکئی بلین ڈالرز بھی دے گا ليكن انكا عنوان يمن كی تعمير نو ہوگا اور جب حوثی جنوبی شہروں سے اپنا عسكری وجود ختم كريں گے اس وقت يہ رقم ادا ہونا شروع ہو جائے گی۔
اس وقت امريكہ سے سعودیہ کے مذاكرات جاری ہیں تاكہ سلامتی کونسل ميں مذكوره بالا شرائط  كے مطابق  مصالحت كی قرارداد منظور ہو سکے. اور اس معاہدہ كو بين الاقوامی سرپرستی اور قانونی شكل مل سکے۔


تحریر۔۔۔۔۔۔علامہ ڈاکٹرسید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن سے جاری شدہ بیان میں ایم ڈبلیوایم کے رکن بلوچستان اسمبلی سید محمد رضا نے کہا ہے کہ چین سے دوستی یقیناًخوشی کی بات ہے لیکن چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران 45ارب ڈالر کے 51معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ جن میں گوادر پورٹ سے متعلق بھی معاہدہ شامل ہے ۔ 28ارب ڈالر کے منصوبوں پر فوری عمل درآمد ہوگا جبکہ 17ارب ڈالر کے طویل المدت کے لیے منصوبے رکھے گئے ہیں۔ کچھ منصوبوں کا افتتاح اور کچھ کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا اور گوادر کاشغر روٹ کا بھی معاہدہ ہوا ،جو نئے روٹ کے مطابق بنایا جارہاہے۔ یہ معاہدے پاکستان اور چین کے درمیان نہیں بلکہ چین اور پنجاب کے درمیان ہوئے ہیں۔گوادر کے بغیر یہ منصوبے نہیں ہوسکتے تھے اس لیے مجبوری میں بلوچستان سے اس منصوبے کو شامل کیاگیا۔

 

چین سے ہونے والے معاہدوں میں صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ موجود تھے۔ جبکہ دیگر صوبوں کے وزرا ئے اعلیٰ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ تمام منصوبوں کا رخ پنجاب کی طرف موڑنا دیگر صوبوں سے دشمنی کے مترادف ہے۔اقتصادی راہ داری روٹ پر اقتصادی زون ، ریلوے لائن ، آپٹک فائبر سمیت دیگر ترقیاتی کام ہونگے، مگر ان سب سے چھوٹے صوبوں کو محروم رکھا گیا ہے۔ کے پی کے کے لیے صرف 300میگا واٹ بجلی کا صرف ایک منصوبہ ہے۔اس سے عوام کی بے چینی میں اضافہ اور نفرت کی دیواریں کھڑی ہوسکتی ہیں۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، مگر میڈیا خاص طور پر الیکڑانک میڈیا نے بالکل اسے نظر انداز کر دیا ہے۔ میڈیا اس مسئلے کو اجاگر کریں۔ پرانے روٹ سے نہ صرف راستہ کم ہوجائیگا بلکہ ترقی کی بھی نئی راہیں کھلیں گی۔ چونکہ سینیٹ اور وفاق میں ایک صوبے کی اکثریت ہے اس لیے دیگر صوبوں کو اہمیت نہیں دی جاتی ، مگر اس ملک کی چار اکائیاں ہیں۔ چاروں کو ایک جیسی اہمیت دی جائے۔ گوادر بلوچستان کا حصہ ہے اور ترقی کا سب سے زیادہ حق بھی بلوچستان کو ملنا چاہیے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو پورٹ پر اختیار دینے کا پورا حق ہے۔


درایں اثناء کوئٹہ کینٹ وارڈ نمبر4 سے مجلس وحدت مسلمین کے نامزد امیدوار منظور علی نظری نے گلستان ٹاون میں کارنڑ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ منتخب ہوکر وارڈ نمبر 4 کے مسائل کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی بھر پور کوشش کرینگے۔

وحدت نیوز(اسکردو)مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن نے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی انتخابات کے لیے امیدواروں کو درخواستیں جاری کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔مجلس وحدت مسلمین کا سیاسی شعبہ مکمل جانچ پڑتال کے بعد تنظیمی طریقہ کار کے مطابق کامیاب ٹکٹ ہولڈرز کا اعلان جلد کرے گا۔ مجلس وحدت نے امیدوارں کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ ان پر کوئی اخلاقی یا کرپشن کا داغ نہ ہو، سیاسی فہم ،تعلیم اور تجربے کے حامل ایسے دیندار افراد جو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوں درخواستیں لے سکتے ہیں ۔

 

اس سلسلے میں مجلس وحدت مسلمین بلتستان ڈویژن نے قانون ساز اسمبلی کے لیے امیدوراوں کو درخواستیں دینا شروع کر دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے ٹکٹ کے لیے درخواست لینے والوں میں سکردوحلقہ 3سے معروف عالم دین حجتہ الاسلام آغا مظاہر حسین موسوی ، سکردوحلقہ پانچ سے معروف سماجی شخصیت سید مبارک موسوی اور معروف نوجوان رہنما ڈاکٹر شجاعت حسین میثم، سکردو حلقہ 2سے معروف نوجوان رہنما محمد سعید اور سماجی شخصیت کاچو امتیاز علی خان،سکردو حلقہ چار سے معروف سماجی شخصیت صوبیدار محمد علی اور راجہ ناصر علی خان مقپون، سکردو حلقہ چھ سے لیکچرار فدا علی اور لیکچرار شیخ مبارک علی عارفی شامل ہیں۔ درخواست موصول کرنے والے دو دن تک فارمز جمع کریں گے ۔

 

مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن میں ٹکٹ کے لیے ہر حلقے سے درجنوں امیدوار ٹکٹ کے لیے درخواستیں جمع کریں گے اور آج اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ کل بھی مختلف حلقوں سے مزید امیدواروں کو درخواستیں جاری کر دی جائیں گی۔اس موقع پر آغا علی رضوی نے کہا کہ ہم آئندہ انتخابات میں صالح ، اہل ،دیانت دار ،بے داغ ماضی کے حامل، تعلیم یافتہ امیدواروں کو میدان میں اتاریں گے اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کی پلیٹ فارم پر الیکشن لڑنے کے لیے رابطہ کرنے والوں کی تعداد نہایت حوصلہ افزا ہے او ر جس انداز سے ریسپانس مل رہا ہے اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بلتستان کی سرزمین بانجھ نہیں بلکہ مردم خیز ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree