وحدت نیوز (تہران) قائد انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپ و شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام ایک پیغام تحریر فرمایاہے جس میں ان کاکہنا ہے کہ فرانس کے حالیہ واقعات اور بعض دیگر مغربی ملکوں میں رونما ہونے والے ایسے ہی واقعات نے مجھے اس نتیجے پر پہنچایا کہ آپ سے براہ راست گفتگو کرنا چاہئے۔ میں آپ نوجوانوں کو اپنا مخاطب قرار دے رہا ہوں، اس وجہ سے نہیں کہ آپ کے والدین کو نظرانداز کر رہا ہوں، بلکہ اس وجہ سے کہ آپ کی سرزمین اور ملت کا مستقبل میں آپ کے ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں، نیز آپ کے دلوں میں حقیقت کو سمجھنے کا تجسس زیادہ متحرک اور زیادہ بیدار پاتا ہوں۔ اس تحریر میں میرا خطاب آپ کے سیاستدانوں اور سرکاری حکام سے نہیں ہے کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے سیاست کے راستے کو عمدا صداقت و سچائی سے الگ کر دیا ہے۔

 

آپ سے مجھے اسلام کے بارے میں بات کرنی ہے اور خاص طور پر اسلام کی اس تصویر اور شبیہ کے بارے میں جو آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ گزشتہ دو عشرے سے اس طرف یعنی تقریبا سویت یونین کے سقوط کے بعد سے، بہت زیادہ کوششیں ہوئیں کہ اس عظیم دین کو خوفناک دشمن کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ خوف و نفرت کے جذبات بر انگیختہ کرنا اور پھر اس سے فائدہ اٹھانا، بد قسمتی سے مغرب کی سیاسی تاریخ میں بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ یہاں گوناگوں خوف و ہراس کے بارے میں بات کرنا مقصود نہیں جس کی تاحال مغربی اقوام کو تلقین کی جاتی رہی ہے۔ آپ خود ہی حالیہ تاریخ کا مختصر ناقدانہ مطالعہ کرکے اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ حالیہ تاریخ نگاری میں، دنیا کی دیگر اقوام اور ثقافتوں کے ساتھ مغربی حکومتوں کے غیر صادقانہ اور فریب آمیز برتاؤ کی مذمت کی گئی ہے۔ یورپ اور امریکا کی تاریخ بردہ فروشی سے شرمسار ہے، استعماری دور کے باعث شرمندہ ہے، رنگدار نسلوں اور غیر عیسائیوں پر کئے جانے والے مظالم کے باعث نادم ہے، آپ کے محققین اور مورخین مذہب کے نام پر کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان یا پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں قوم پرستی اور قومیت کے نام پر ہونے والی خونریزی پر حد درجہ اظہار شرمندگی کرتے ہیں۔
یہ چیز بجائے خود قابل تعریف ہے۔ اس طولانی فہرست کا کچھ حصہ سامنے لانے سے میرا مقصد تاریخ کی سرزنش کرنا نہیں ہے، بلکہ آپ سے چاہتا ہوں کہ اپنے روشن خیال لوگوں سے سوال کیجئے کہ آخر مغرب میں عمومی ضمیر چند عشروں اور بسا اوقات چند صدیوں کی تاخیر سے کیوں بیدار ہو اور ہوش میں آئے؟ عمومی ضمیر کے اندر نظر ثانی کا خیال عصری مسائل کے بجائے کیوں ماضی بعید کے ادوار پر مرکوز رہے؟ اسلامی نظریات اور ثقافت کے سلسلے میں طرز سلوک کے انتہائی اہم مسئلے میں کیوں عمومی آگاہی و ادراک کا سد باب کیا جاتا ہے؟

 

آپ بخوبی جانتے ہیں کہ 'دوسروں' کے بارے میں موہوم خوف و نفرت پھیلانا اور ان کی تحقیر، تمام ظالمانہ استعمار اور استحصال کا مشترکہ مقدمہ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ خود سے یہ سوال کیجئے کہ خوف پیدا کرنے اور نفرت پھیلانے کی پرانی پالیسی نے اس بار غیر معمولی شدت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ کیوں بنایا ہے؟ آج کی دنیا کا طاقت کا نظام کیوں چاہتا ہے کہ اسلامی فکر حاشیئے پر اور دفاعی حالت میں رہے؟ اسلام کے کون سے اقدار اور مفاہیم ہیں جو بڑی طاقتوں کے منصوبوں کے سد راہ بن رہے ہیں، اور اسلام کی شبیہ مسخ کرنے کی آڑ میں کون سے مفادات حاصل کئے جا رہے ہیں؟ تو میری پہلی گزارش یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر اسلام کی تصویر مسخ کرنے کے محرکات کے بارے میں سوال اور جستجو کیجئے۔

 

دوسری گزارش یہ ہے کہ زہریلے پروپیگنڈے اور منفی تعصب کے طوفان کے مقابلے میں آپ اس دین کی براہ راست اور بلا واسطہ طور پر شناخت حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔ عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ کم از کم آپ کو اتنا معلوم ہو کہ جس چیز سے آپ کو بیزار اور خوفزدہ کیا جا رہا ہے، وہ کیا ہے اور اس کی کیا ماہیت ہے؟ میرا یہ اصرار نہیں ہے کہ آپ اسلام کے بارے میں میری رائے یا کسی اور نظریئے کو قبول کیجئے بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ موقع نہ دیجئے کہ آج کی دنیا کی یہ کمال پذیر اور موثر حقیقت، آلودہ اہداف و مقاصد کے سائے میں آپ کے سامنے پیش کی جائے۔ اس بات کا موقع نہ دیجئے کہ زرخرید دہشت گردوں کو ریاکارانہ طور پر اسلام کے نمائندوں کی حیثیت سے آپ کے سامنے متعارف کرایا جائے۔ اسلام کو اس کے اصلی مآخذ کے ذریعے پہچانئے۔ قرآن اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زندگی کے ذریعے اسلام سے روشناس ہوئیے۔ میں یہاں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا اب تک کبھی آپ نے مسلمانوں کے قرآن سے براہ راست رجوع کیا ہے؟ کیا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی تعلیمات اور آپ کے انسانی و اخلاقی اسباق کا مطالعہ کیا ہے؟ کیا کبھی ذرائع ابلاغ کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی اسلام کا پیغام حاصل کیا ہے؟ کیا کبھی اپنے آپ سے یہ سوال کیا ہے کہ یہی اسلام آخر کس طرح اور کن اقدار کی بنیاد پر صدیوں سے دنیا کے سب سے بڑے علمی و فکری تمدن کی پرورش کر رہا ہے اور اس نے اعلی سطح کے مفکرین اور دانشوروں کی تربیت کی ہے؟

 

میں آپ سے چاہتا ہوں کہ یہ موقع نہ دیجئے کہ توہین آمیز اور مذموم تصویر پیش کرکے لوگ حقیقت اور آپ کے درمیان جذبات کی دیوار کھڑی کر دیں اور آپ کو غیر جانبدارانہ فیصلے کے امکانات سے محروم کر دیں۔ آج مواصلاتی ذرائع نے جغرافیائی سرحدوں کو توڑ دیا ہے تو آپ خود کو ذہنی سطح پر بنا دی جانے والی فرضی حدود میں محصور نہ ہونے دیجئے۔ حالانکہ کوئی بھی انفرادی طور پر اس خلیج کو بھر نہیں سکتا جو پیدا کر دی گئی ہے، مگر آپ میں سے ہر کوئی، خود کو اور اپنے گرد و پیش کے افراد کو حقیقت سے روشناس کرانے کے مقصد سے اس خلیج پر فکر و انصاف پسندی کا ایک پل ضرور تعمیر کر سکتا ہے۔ اسلام اور آپ نوجوانوں کے درمیان یہ چیلنج جس کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی ہے، یقینا ناگوار ہے مگر آپ کے متلاشی اور تجسس سے بھرے ذہن میں نئے سوال پیدا کر سکتی ہے۔ ان سوالوں کے جواب کی تلاش، آپ کے سامنے نئے حقائق کے انکشاف کا موقع فراہم کریگی۔ بنابریں اسلام سے غیر جانبدارانہ آشنائی اور صحیح ادراک کے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے تاکہ شاید حقیقت کے سلسلے میں آپ کی ذمہ دارانہ روش کی برکت سے، آئندہ نسلیں اسلام کے سلسلے میں مغرب کے برتاؤ کی تاریخ کے اس دور کو کبیدہ خاطر ہوئے بغیر فکری و ذہنی آسودگی کے ساتھ ضبط تحریر میں لائیں۔

وحدت نیوز (تہران) ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نےہفتہ وحدت اور رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے اعلٰی سطحی حکومتی اہلکاروں، اسلامی ممالک کے سفراء اور تہران میں منعقدہ 28 ویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے "وحدت" کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عظیم پیغام اور امت مسلمہ کی اشد ضرورت قرار دیتے ہوئے فرمایا: "نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کا احترام صرف باتوں تک ہی محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ وحدت پر مبنی آنحضور (ص) کے فرامین کو عملی جامہ پہنانا اسلامی ممالک اور مسلمان اقوام کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔

"  
 
امام خامنہ ای نے تمام مسلمانان عالم کو اس عظیم دن کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کو "علم، عقل، اخلاق، رحمت اور وحدت" کی پیدائش قرار دیا اور فرمایا: "ان گہرے اور نجات بخش مفاہیم میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں اسلامی ممالک کے مسئولین، سیاستدانوں، علماء اور اہم شخصیات پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔" ولی امر مسلمین جہان نے اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے مذہبی فرقہ واریت پھیلانے پر مبنی سازشوں کے اثربخش ثابت ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "اگر ان عظیم وسائل اور منفرد صلاحیتوں کی مالک مسلمان اقوام جزئی مسائل کو چھوڑ کر صرف کلی امور اور پالیسیوں میں ہی ایکدوسرے کے ساتھ ہمدل اور ہماہنگ ہوجائیں تو امت مسلمہ کی ترقی اور پیش رفت کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے جبکہ عالمی سطح پر اسلامی دنیا میں وحدت اور اتحاد کا انعکاس پیغبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت اور عظمت کا باعث بن سکتا ہے۔

"  
 
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے عید سعید فطر پر دنیا بھر میں مسلمان اقوام کے عظیم اجتماعات اور حج کے موقع پر عظیم اجتماع کو امت مسلمہ کو عزت بخشنے والے اتحاد کے دو نمونے قرار دیتے ہوئے فرمایا: "اس سال امام حسین علیہ السلام کے چہلم پر ایسے کروڑوں مسلمانوں نے جن میں اہلسنت برادران بھی شامل تھے، کربلا میں ایک عظیم اور بے نظیر کارنامہ انجام دیا، جس کی عالمی سطح پر مسلمانان عالم کے سب سے بڑے اجتماع کے طور کوریج نے عالم اسلام کی عظمت اور افتخار کا زمینہ فراہم کر دیا۔" ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای نے اتحاد بین المسلمین میں کارفرما اہم عوامل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے شیعہ اور سنی مسلک سے وابستہ افراد کی جانب سے ایکدوسرے کے خلاف توہین آمیز اقدامات اور سوء ظن سے گریز کو انتہائی اہم قرار دیا۔ انہوں نے مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کے جاسوسی اداروں کی جانب سے اسلامی دنیا میں مذہبی فرقہ واریت پھیلانے کیلئے انجام پانے والی وسیع سازشوں اور کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "وہ شیعہ عناصر جو MI-6 سے وابستہ ہیں اور وہ سنی عناصر جو CIA کے اشاروں پر چل رہے ہیں، دونوں اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن ہیں۔

"  
 
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اتحاد بین المسلمین کے فروغ میں انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم کردار کو سراہتے ہوئے اس ضمن میں اسلامی جمہوریہ ایران کی انتھک کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "گذشتہ 35 برس کے دوران ایران نے دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے اپنے مسلمان بھائیوں جن میں اہلسنت بھائیوں کی اکثریت ہے کی مدد کی ہے۔ ایران کی حکومت اور عوام نے فلسطینی قوم اور خطے کے عوام کی مسلسل حمایت کے ذریعے اتحاد بین المسلمین کے نعرے کو عملی طور پر ثابت کر دکھایا ہے۔" ولی امر مسلمین جہان نے عالم اسلام کے سیاستدانوں، علماء اور روشن خیال افراد کو مخاطب قرار دیتے ہوئے یہ اہم سوال پیش کیا کہ: "آج ایسے وقت جب عالمی استعماری قوتیں اسلام فوبیا پھیلانے اور اسلام کے نورانی چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنے کیلئے بھرپور انداز میں سرگرم ہیں، کیا فرقہ وارانہ بیانات اور مسلمان فرقوں کو بدنام کرنا عقل، حکمت اور سیاست کے خلاف نہیں؟"
 
آیت اللہ خامنہ ای نے خطے کے بعض مسلمان ممالک کی جانب سے ایران کے ساتھ دشمنی کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور قرار دینے کو ایک سنگین غلطی قرار دیا اور فرمایا: "اس غیر معقول پالیسی کے برخلاف، اسلامی جمہوریہ ایران ماضی کی طرح ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد خطے کے ممالک سمیت تمام اسلامی ممالک کے ساتھ دوستی اور برادری پر استوار رکھے گا۔" آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے دینی کثرتیت (Pluralism) کی ترویج کو قرآن کریم اور اسلامی متون کی غلط تفسیر کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: "قرآن کریم کی آیات واضح طور پر اس حقیقت کو بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ اسلام دینی کثرتیت کو قبول نہیں کرتا۔" آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اگر مسلم ممالک امت مسلمہ کے مفادات اور عالم اسلام کے اتحاد کو اپنی پالیسیوں کا محور و مرکز قرار دیں تو خود ان کے مفادات کا حصول بھی یقینی ہوجائے گا۔ انہوں نے فرمایا: "ہم سب مسلمانوں کو چاہئے کہ قرآنی تعلیمات خاص طور پر اس آیہ شریفہ "اَشِدّاءُ عَلَی الکُفار وَ رُحماءُ بَینَهم" کی روشنی میں استکبار جہانی، عالمی صہیونیزم جیسے سرطانی غدے خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کی غاصب رژیم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور آپس میں محبت اور مہربانی سے پیش آئیں۔"

وحدت نیوز (مانیٹرنگ ڈیسک) رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے اجتماع سے خطاب میں فرمایا ہے کہ علم ذاتی فضیلت کے ساتھ سیاسی و اقتصادی اقتدار کا باعث بھی ہوتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں علمی گفتگو اور علم و سائنس کے فروغ پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ ایک ایرانی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے سینکڑوں اساتذہ اور علمی انجمنوں کے اراکین نے ملاقات میں یونیورسٹیوں کے مختلف علمی موضوعات کے بارے میں اپنے اپنے نظریات بیان کئے۔ اس ملاقات کے آغاز میں 9 اساتید نے ایک گھنٹہ تیس منٹ تک اپنی تجاویز اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ملک کی برق رفتار علمی پیشرفت کے سلسلے میں پیہم اور مسلسل تلاش و کوشش اور جد وجہد پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ علمی پیشرفت و ترقی کے ذریعہ سیاسی اور اقتصادی اقتدار کی راہ ہموارہوتی ہے اور یہ امر  عالمی سطح پر ایرانیوں کی عزت و عظمت کا باعث بھی ہے اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے یونیورسٹیوں میں سائنسی اور علمی گفتگو، سائنسی ترقی اور پیشرفت کے بارے میں گفتگو ، ملک کی عمومی پیشرفت کے بارے میں گفتگو کی حفاظت اور تقویت بہت ضروری ہے۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے اساتید کے ساتھ اس قسم کے جلسات کے انعقاد کو سب سے پہلے یونیورسٹیوں کے اساتید اور علم کے مقام کے احترام کے سلسلے میں علامتی اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: ان جلسات کے انعقاد کا دوسرا مقصد ملک اور یونیورسٹیوں کے مختلف اور گوناگوں مسائل کے بارے میں اساتید محترم کے نظریات کا سننا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے اساتید کے درمیان مختلف نظریات کی موجودگی کو سبق آموز اور قابل توجہ قراردیا اور ملک میں علمی و سائنسی ترقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تقریبا گذشتہ 12 سال سےملک میں علم کی پیداوار اورسائنسی ترقی اور پیشرفت کے سلسلے میں تلاش و کوشش اور جد وجہد کا آغاز ہوا ہے اور یہ حرکت متوقف نہیں ہوئي بلکہ مزید سرعت کے ساتھ آگے کی جانب رواں دواں ہے۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس علمی اور سائنسی حرکت کو اسلامی جمہوری نظام اور ملک کے لئے بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: دنیا کے معتبر علمی مراکز نے بھی بعض منفی نظریات کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی اس علمی اور سائنسی پیشرفت کا اعتراف کیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا کے علمی مراکز کے بعض اعداد و شمار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عالمی اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ بارہ سال میں ایران کے علمی رتبہ میں اس سے پہلے کی نسبت 16 برابر اضافہ ہوا اور ایران میں علمی و سائنسی ترقی متوسط طور پر عالمی پیشرفت کے 13 برابرہوگئی ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عالمی علمی و سائنسی مراکز کی اطلاعات کے مطابق اگر ایران کی علمی و سائنسی ترقی کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے تو پانچ سال کے کے بعد دنیا میں ایران کا علمی رتبہ چوتھے نمبرپر پہنچ جائے گا۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر اس برق رفتارعلمی حرکت کے ساتھ  ملک میں یونیورسٹیوں کے فروغ اور اسی طرح یونیورسٹیوں کے اساتید اور طلباء پر توجہ مبذول کی جائے تو ہمیں انقلاب اسلامی کے بعد یونیورسٹیوں سے زیادہ سے زیادہ اورگرانقدر علمی نتائج حاصل ہوں گے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی محققین اور ماہرین کے علمی اور سائنسی مقالات میں قابل توجہ اضافہ اور اسے ملک میں علمی ترقی و پیشرفت اور مجاہدت کا ایک شاندار مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ تمام موارد ملک میں شاندار اور گرانقدر علمی و سائنسی ترقی کا مظہر ہیں اور اس علمی رشد و نمو کی تقویت اور حفاظت بہت ضروری ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے اساتید ، طلباء اور ماہرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی علمی اور سائنسی پیشرفت و ترقی کو روکنے کی کسی کو اجازت نہ دیں اور کسی بھی قیمت پر ملک کی علمی ترقی کو متوقف نہ ہونے دیں۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام میں علم کی ذاتی قدر و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: علمی پیشرفت کےسلسلے میں میری باربار تاکید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام میں علم و عالم کےاحترام اورمقام کے سلسلے میں بہت زيادہ تاکید کی گئي ہے بلکہ اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ علم، اقتدار اور قدرت عطا کرتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی و سائنسی ترقی کو عالمی سطح پر ایرانیوں کی عزت و عظمت اور سیاسی و اقتصادی اقتدار کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: ان تمام حقائق اور دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی علمی پیشرفت کسی بھی صورت میں سست اور متوقف نہیں ہونی چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا میں مختلف سیاسی گروپ بندیوں کے بارے میں ایک استاد کے نظریہ کی تائيد کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عداوت اور دشمنی پر مبنی محاذ چند مغربی ممالک نے تشکیل دے رکھا ہے اور انھوں نے ایران کی علمی پیشرفت و ترقی کو روکنے کے لئے ہر  قسم کی تلاش و کوشش جاری رکھی ہوئی ہے اورچند مغربی ممالک  ایرانی قوم اور اسلامی محاذ کے مقابلے میں صف آرا ہیں۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےعلمی اور یونیورسٹی ڈپلومیسی سے استفادہ کے سلسلے میں یونیورسٹی کے ایک اور استاد کے بیان کو درست اور صحیح قراردیتے ہوئے فرمایا: بہر حال اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ مد مقابل فریق نے بھی اپنے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں علمی ڈپلومیسی پر سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے علمی اقتدار کو داخلی اور اندرونی اقتدار قراردیتے ہوئے فرمایا: اس بات میں کوئي شک و شبہ نہیں ہے کہ بعض پابندیاں ایران کی علمی پیشرفت کو روکنے کے لئے عائد کی گئی ہیں تاکہ ایران علمی اقتدار کی بلندی تک نہ پہنچ پائے لہذا ہمیں ہر لحاظ سے اپنی علمی اور سائنسی ترقی و پیشرفت کو جاری رکھناچاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی و سائنسی پیشرفت کے سلسلے میں یونیورسٹیوں میں موجود علمی فضا کو مؤثر قراردیتے ہوئے فرمایا: یونیورسٹیوں میں علمی گفتگو، ترقی اور پیشرفت پر مشتمل گفتگو اور ملک کی عمومی پیشرفت کے بارے میں گفتگو کو فروغ دینا چاہیےتاکہ یونیورسٹیوں کے اہلکاروں کا جذبہ ملک کی عمومی پیشرفت میں مزید مضبوط ہوجائے۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملکی پیشرفت کی ضروریات کو پورا کرنے میں یونیورسٹیوں میں علمی خلاقیت اور نوآوری پرتاکید کرتے ہوئے فرمایا: قدرتی طور پر وسائل اور ظرفیتیں محدود ہیں لہذا علمی اقدامات اور منصوبہ بندی میں ملک کی ضروریات پر اصلی ملاک اور معیار کے عنوان سے بھر پور توجہ دینی چاہیے۔ رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے تجارت اور صنعت کے ساتھ یونیورسٹیوں کی تحقیق کے پیوند کو مزید مضبوط بنانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا:  علمی خلاقیت اور نوآوری کے سلسلے میں یونیورسٹیوں ، اعلی تعلیمی مراکز ، اساتید اور یونیورسٹیوں کے محققین اور ماہرین کے درمیان تعمیری مقابلہ ہونا چاہیے اور کامیاب یونیورسٹیوں اور کامیاب افراد کو انعامات عطا کرنے چاہییں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے تمام اساتید،اہلکاروں اور مؤثرافراد  سے درخواست کی کہ وہ  یونیورسٹیوں میں کم اہم اور غیر ضروری مسائل کے فروغ کی اجازت نہ دیں بلکہ طلباء اور ماہرین کی توجہ ملک کے اساسی اور بنیادی مسائل کی طرف مبذول کرتے رہیں۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمارے دشمن یونیورسٹیوں کے ذاتی اور یونینی مسائل کو بھی ملک کے سیاسی مسائل سے جوڑکربحران پیدا کرناچاہتے ہیں اور یونیورسٹیوں کو سیاسی احزاب اور معمولی مسائل سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اسلام اورانقلاب اسلامی کو ملک کی پیشرفت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا اصلی عامل قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر انقلاب اسلامی کی کامیابی نہ ہوتی تو یقینی طور پر تسلط پسند اور سامراجی طاقتیں ایران کو خود اعتمادی اورعلمی پیشرفت کے اس درخشاں مقام تک نہ پہنچنے دیتیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں اسلامی اور انقلابی اقدار اور اصولوں کی پاسداری اور حفاظت کا عہد کرنا چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے کیفی ارتقاء کو بہت اہم ، ضروری اور مستقل موضوع قراردیتے ہوئے فرمایا: یونیورسٹیوں میں کمی فروغ عمدہ اور مؤثر ہے لیکن یونیورسٹیوں کے کیفی ارتقاء پر زیادہ سے زیادہ توجہ مبذول کرنی چاہیے اور کیفی فروغ پر توجہ کے ساتھ کمی فروغ پربھی توجہ دینی چاہیے۔

 

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی اساتید اوراہلکاروں کے اجتماع سے خطاب میں اپنے آخری نکتہ میں فارسی زبان کے بارے میں خاص توجہ اور حساسیت دکھانے کی ضرورت پر زوردیا۔ رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے مختلف علوم کے سلسلے میں فارسی زبان کے استفادہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دنیا میں فارسی زبان کو فروغ دینے کے سلسلے میں ملک کی علمی پیشرفت سے استفادہ کرنا چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تحقیقات اور ریسرچ میں فارسی زبان سے استفادہ، علمی مفاہیم کے لئے اصطلاحات اور کلمات سازی کو فارسی زبان کے فروغ میں مؤثر روش قراردیتے ہوئے فرمایا: اس طرح عمل کرنا چاہیے کہ اگر کوئي آئندہ ایران کی علمی کاوشوں سے استفادہ کرنا چاہیے تو اسے فارسی سیکھنے کی ضرورت پڑے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرے کی مختلف سطحوں پر غیر ملکی کلمات کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب سے پہلے کی بہت سے غلط  روشیں اور رسمیں ختم ہوگئی ہیں لیکن غیرملکی کلمات سے استفادہ کرنے کی غلط رسم ابھی بھی باقی ہے۔

 

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر علمی و سائنسی پیشرفت کے بارے میں جامع اور بلند مدت نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پیشرفت اور ترقی سے مراد ، اسلامی – ایرانی پیشرفت کے نمونہ پر مبنی پیشرفت ہے کیونکہ مغربی پیشرفت جس کی بنیاد استثمار اور استعمار پر استوار ہے وہ اخلاقی بنیادوں پر منصفانہ معاشرے کی تشکیل اور معاشرے سے تبعیض اور برائیاں ختم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام کو یقینی طور پر پیشرفت کے اسلامی ، ایرانی نمونے کا پیچھا کرنا چاہیے یعنی ایسا نمونہ جو اسلامی ہدایات پر مشتمل ہو اور اس میں ایرانی سنتوں اور روشوں سے بھراستفادہ کیا جائے۔ اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل یونیورسٹیوں کے 9 اساتید اور دانشوروں نے یونیورسٹیوں کے مختلف علمی مسائل کے بارے میں اپنے اپنے خیالات پیش کئے۔

وحدت نیوز (آزاد کشمیر) مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ سید تصور حسین جوادی نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان ملک میں دہشت گردی کے خاتمے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے، کراچی اور کوئٹہ میں پے در پے دہشت گردی کے شرمناک واقعات حکمرانوں کی نااہلی اور بے حسی کا ثبوت ہیں، اگر کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبات تسلیم ہو جاتے تو دوبارہ دہشت گردی کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کشمیر پریس کلب میرپور میں مجلس وحدت مسلمین ضلع میرپور کے زیر اہتمام پیام ولایت کانفرنس و تنظیمی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔ جبکہ علامہ ابوذر مہدوی مرکزی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان مہمان خصوصی تھے۔ کنونشن سے نومنتخب جنرل سیکرٹری ضلع میرپور سید محمد رضا شاہ بخاری،علامہ سید تنویر حسین شیرازی، رزاق جعفری، ڈپٹی سیکرٹری سید تصور کاظمی، خواجہ عباس کے علاوہ دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔

 

علامہ تصور حسین جوادی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملت اسلامیہ آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں متحدو منظم ہو کر استماری طاقتوں کا مقابلہ کر سکتی ہے ۔ علامہ ابو ذر مہدوی نے کہا کہ اس وقت ملت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ مولاعلی ؑ کا کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور کربلا سے بہتر ہمارے لیے کوئی درس گاہ نہیں ہے انہوں نے کہا کہ کربلا نے ہمیں باطل کے خلاف ڈٹ جانے اور استعمار کے خلاف نبرد آزما ہونے کا درس دیا ہے انہوں نے کہا کہ آج ہمیں کربلا والوں کی سیرت و عمل کے مطابق اپنی زندگی میں نہ صرف نظم و ضبط پیدا کرنا ہے بلکہ لوگوں میں اتحاد و حدت کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

 

علامہ ابوذر مہدوی نے کہا کہ ہمیں استعمار کے مقابلے کیلئے خواتین کو بھی میدان عمل میں لانا ہو گا اس کے لیے ہمارے سامنے شریعتہ الحسین ؑ اور زینب سلام اللہ علیھا کی سیرت و کردار کو مشعل راہ بنانا ہو گا انہوں نے کہا کہ انسانیت کی بقاء پرچم مصطفی ؐ کے سائے تلے ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج مملکت ایران اللہ رب العزت کی واحدانیت اور نصرت کے بھروسے پر امریکہ جیسی نام نہاد سپرپاور کو للکاررہی ہے اور یہ حوصلہ ملت ایران نے محمد مصطفیؐ کے وحی علی مرتضیٰ ؑ سے یہ حوصلہ ملا ہے اور یہ درس کربلا کر اثر ہے کہ آج ملت ایران مسلمانوں کی صحیح قیادت کا فریضہ سرانجام دے رہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم باب العلم حضرت علی ؑ کے ماننے والے ہیں جنہیں رسول پاک ﷺ نے علم کا دروازہ قرار دیا ہے۔ پیام ولایت کانفرنس و ضلعی تنظیمی کنونشن مجلس وحدت مسلمین میں ضلع بھر سے تنظیم کے کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور نومنتخب عہدیداران کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree